آسمان پر کئی رنگ بکھرے تھے۔ نیلا، سرخ، جامنی۔ اور سرمئی سفید روئی کے گالوں جیسے بادل۔ وہ بادل اپنی آنکھوں میں کئی تصاویر قید کیے بیٹھے تھے۔ان کی نگاہیں کئی ہزار کلو میٹر گہرائی میں… نیچے… بہت نیچے قطعۂ ارض پر بنی ایک کالج کی عمارت پر جمی تھیں۔
کالج کے گراس گراؤنڈ میں اسٹوڈنٹس دائروں کی شکل میں گروپس بنائے بیٹھے تھے۔کچھ گروپس درختوں کے سائے تلے، کچھ کمپاؤنڈ میں سیڑھیوں کے پاس، کچھ باؤنڈری وال کے پاس، نیز کیمپس میں ہر جگہ اسٹوڈنٹس کے گروپس بکھرے نظر آرہے تھے۔ کچھ اسٹوڈنٹس چہل قدمی کرتے نظر آرہے تھے۔گراس گراؤنڈ کے بالکل الگ تھلگ حصے میں ایک گھنے درخت کے سائے تلے تین ہیولے سے بیٹھے نظر آرہے تھے۔ قریب سے دیکھو تو گمان ہوتا کہ وہ تین لڑکیاں ہیں۔
’’یار! آج تو بہت بور ہوگئی ہوں۔ دل کررہا ہے یہیں گھاس پرسوجاؤں۔‘‘ان میں سے ایک لڑکی نے ہری گھاس پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ وہ بلیو(نیلے) کرتے اور ٹراؤزر میں ملبوس، بے بی پنک اسٹول مفلروالے انداز سے گردن میں ڈالے، بال دونوں شانوں پر کھلے چھوڑے بیٹھی تھی۔اس کابلیوبیگ گود میں رکھا تھا۔ جس پر جلی حروف میں وائٹ کلر سے ’Umaima ‘ لکھا نظر آرہا تھا۔
’’ہاں یار… آج کچھ زیادہ ہی تکان محسوس ہورہی ہے۔ شاید موسم کا اثر ہے۔‘‘ اسکارف والی لڑکی سحرش نے کہا۔
’’کیوں علیزہ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’موسم آج Rude ہے۔ لیکن مجھے تکان نہیں محسوس ہورہی۔ابھی تو تین ہی لکچرز ہوئے ہیں۔ابھی میں فریش ہوں۔‘‘
’’ نقاب والی لڑکی علیزہ نے سیاہ سفید مسکراتی آنکھوں سے کہا۔
’’کیا خیال ہے فرینڈز؟وہاں کسی گروپ کے ساتھ جاکر بیٹھیں؟ وہ لوگ خوب انجوائے کررہے ہیں۔‘‘ نے دور بیٹھے خوش گپیوں اور Singingمیں مصروف گروپ کی طرف اشارہ کیا۔
’’میں نہیں جاؤں گی۔ اور تم لوگوں کو بھی نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ…‘‘ علیزہ بول ہی رہی تھی کہ سحرش کہہ اٹھی۔’’بس بس بس بس۔ اب اپنی تقریر شروع مت کرنا پلیز۔‘‘
’’بہت ہی بور ہو یار تم علیزہ۔‘‘ نے برا سا منہ بناکر کہا۔
’’ذرا ایک بات تو بتاؤ، اپنے گھر میں بھی تم اسی طرح کرتی ہو؟ یہ اچھی بات نہیں، یہ نہیں کرنا چاہیے، ایسا نہیں کرتے، یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ گناہ کا کام ہے۔‘‘ نے اس سے پوچھا۔
’’اس کے گھر میں بھی سب اس کے جیسے ہی ہوں گے۔ اسے یہ سب کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہوگی۔‘‘سحرش نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو۔‘‘ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس دیں۔ جواباً علیزہ بھی ہنس دی۔
’’اچھا سنو !تم دونوں…اگلے ہفتے میری شادی ہے۔ تم دونوں کو ساری تیاریوں میں میری مدد کرنی ہوگی۔ مہندی، مایوں ہر فنکشن میں سب سے پہلے شریک رہنا ہوگا۔ کوئی بہانہ نہیں سنوں گی میں۔‘‘ سحرش نے انگلی اٹھاکر ان دونوں سے کہا۔
’’ارے نیکی اور پوچھ پوچھ۔ یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے۔ ہم دونوں ضرور ہیلپ کروائیں گے۔ کیوں علیزہ؟‘‘
’’ہوں۔‘‘علیزہ نے محض سر ہلادیا۔
’’!‘‘ جو بالوں کی ایک لٹ انگلی پر لپیٹ رہی تھی، علیزہ کی آواز پر اسے دیکھا۔
’’تم کل کلاس کے بعد کوریڈور میں لڑکوں سے کیا باتیں کررہی تھیں؟‘‘ اس کا لہجہ تفتیشی تھا۔
’’کچھ خاص نہیں۔جس دن ہم تینوں کالج نہیں آئی تھیں، اس دن کے نوٹس لے رہی تھی۔‘‘ نے لاپرواہی سے کہا۔
’’وہ تم کسی لڑکی سے بھی لے سکتی تھیں۔‘‘
’’نہیں۔ تمہارے علاوہ وہ لوگ ٹاپ کے اسٹوڈنٹس ہیں۔اس لیے میں نے ان سے نوٹس لیے۔‘‘
’’دیکھو …‘‘علیزہ آگے کو ہوئی۔
’’میں نے اور سحرش نے اس سے پہلے بھی ایک دفعہ تمھیں اس طرح کی حرکت پر ٹوکا تھا۔ ابھی پھر کہہ رہی ہوں… تمہیں اگر یہی سب کرنا ہے تو مجھے پہلے ہی بتادو۔ میں کالج میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ہماری دوستی البتہ قائم رہے گی۔ کالج کی حد تک ہم دور دور رہیں گے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ سحرش خاموشی سے انھیں دیکھنے لگی۔
’’تم جانتی ہو، علیزہ یہ سب پسند نہیں کرتی۔‘‘ سحرش نے کہا۔
’’اللہ تعالیٰ یہ سب پسند نہیں کرتا سحرش۔‘‘ علیزہ نے اس سے کہا۔
’’کم آن یار! کیا ہوگیا ہے؟ میں نے صرف بات کی ہے۔ تھوڑے ہی میں لڑکوں سے دوستیاں کررہی ہوں۔‘‘
’’یہ ’صرف بات‘ہی ہوتی ہے جو بڑے بڑے سانحوں کا باعث بنتی ہے ۔ تم نے آج اس سے نوٹس لیے۔ کل تم وہ واپس کروگی۔ پھر تھینک یو کرنے کے لیے اس سے ملوگی، اور پھر یہ بات بڑھتی جائے گی۔‘‘
’’تو اس سے تمہیں کیا پرابلم ہوسکتی ہے؟‘‘
’’تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہہ رہی ہوں۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میری امیج خراب ہوجائے۔ یا میرے بارے میں لوگ باتیں کریں۔ کیونکہ میں تمھارے ساتھ رہتی ہوں۔‘‘
’’کیا یہ خود غرضی نہیں ہے علیزہ؟ تم اپنے لیے دوسروں پر روک ٹوک کرتی ہو۔‘‘
’’اگر یہ خود غرضی ہے، تو خود غرضی ہی سہی۔ مجھے اپنی اور اپنی فیملی کی ریپوٹیشن بہت عزیز ہے۔ تم اگر ایسی حرکتیں نہ کرو تو بہتر ہوگا۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔ لب بھینچے اسے دیکھنے لگی۔
’’دیکھو یار! تم سمجھ دار ہو۔ آج کل کیسے حالات چل رہے ہیں سماج میں۔اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ…‘‘
’’یار علیزہ!س ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی۔‘‘ نے دونوں ہاتھ اٹھا دیے۔
’’ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور قرآن کو ہی لاتی ہے یہ۔‘‘ نے زور سے ہنستے ہوئے کہا۔ جواباً سحرش بھی ہلکا سا ہنس دی۔
’’اچھا چھوڑو۔ آج فریا کیوں نہیں آئی؟‘‘ علیزہ نے سر جھٹک کر پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔ میں نے میسج کیا تھا اس کی امی کو۔ کوئی ریپلائے نہیں آیا۔ آج کال کرتی ہوں اسے۔‘‘ سحرش نے کہا۔
’’چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا۔‘‘ علیزہ نے رسٹ واچ دیکھ کر اٹھتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ گئیں۔
’’ڈاکٹرز سیمینار اٹینڈ کررہی ہو ناں تم دونوں؟‘‘ نے پوچھا۔
’’میں تو نہیں آسکتی۔ اب شادی کے ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔‘‘
’’میں نے بھی ابھی کچھ سوچا نہیں ہے اس بارے میں۔ بابا سے بات کروں گی۔‘‘ علیزہ کہہ رہی تھی۔ وہ تینوں سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ان کی آوازیں مدھم ہوتی جارہی تھیں۔ان پر نظریں جمائے بادلوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔ وہ ڈھیر سارا رونا چاہتی تھیں۔ لیکن رو نہیں پارہی تھیں۔ نہ جانے کیوں۔
٭٭٭
گھر آئی تو سب سے پہلے اپنے کمرے میں گئی۔ بیگ صوفے پر اچھالا، موبائل اور آنکھوں پر لگے سن گلاسز بیڈ پر پھینکنےوالے انداز میں رکھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ڈریس چینج کرکے فریش نظر آرہی تھی۔اس نے بیڈ سے موبائل اٹھایا اور صوفے پر نیم دراز ہوگئی۔ کانوں میں ائیر فونز لگائے، وہ میوزک سن رہی تھی۔ ساتھ ساتھ پیر بھی تھرک رہے تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کے کانوں میں Song اتنی تیز آواز میں بج رہا تھا کہ دستک کی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ دستک کی آواز بلند ہوگئی۔ وہ اسی طرح لبوں پر مسکراہٹ سجائے سنتی رہی۔یکایک دروازہ دھاڑ کے ساتھ کھلا۔ اور ایک دراز قامت لڑکا تیزی سے اس کے سر پر پہنچا اور ایئر بڈز کھینچنے والے انداز میں اس کے کانوں سے نکالے۔ کی مسکراہٹ سمٹی۔ پیر تھم گئے۔ وہ تیزی سے سیدھی ہوئی۔ وہ اس سے چھوٹا بھائی حاشر تھا۔
’’تمہیں تمیز نہیں ہے؟ دروازہ ناک کرکے اندر آتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ہے۔ اور بہروں کے کمروں میں اسی طرح آتے ہیں۔‘‘
’’بتاؤ کیا کام ہے؟‘‘
’’کام کے بغیر میں تمہارے پاس نہیں آسکتا کیا؟‘‘ اس نے اپنے ’معصوم‘چھوٹے بھائی کو دیکھا۔
’’تم نہیں آتے ہو۔ بتاؤ کیا کام ہے؟‘‘
’’میری پیاری بہن…‘‘وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
’’مکھن نہ لگاؤ، کام کی بات کرو۔‘‘
’’وہ مجھے ناں… کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’پھر شرط ہار گئے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کہیں چوری کی یا ڈاکہ ڈالا، جہاں پکڑے گئے اور تمہیں پیسے واپس کرنے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر اس بار کیا کیا؟‘‘
’’وہ کل ایک کلاس فیلو کی برتھ ڈے ہے۔ گفٹ لینا ہے۔‘‘
’’لڑکی؟‘‘اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا،اور وہ کھل کھلا کر ہنس دی۔
’’جاؤ۔ آج میں پیسے نہیں دینے والی۔ ویسے بھی میری پاکٹ منی ختم ہورہی ہے۔‘‘
’’دے دو ناں یار! تم جو کہوگی وہ کروں گا۔‘‘ اس نے مسکین سی شکل بنائی۔
’’تمہارے پیسے کہاں گئے؟‘‘
’’ختم ہوگئے۔‘‘
’’یہ لڑکیوں سے دوستی وغیرہ تم افورڈ نہیں کرسکتے۔بہتر ہوگا اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔‘‘اس نے بڑی بہنوں والا تحکمانہ انداز اپنایا۔
’’اوکے، کرلوں گا۔ تو تم پیسے دے رہی ہو ناں؟‘‘
’’پہلے وعدہ کرو۔ پورا مہینہ جو میں کہوں گی وہ تمہیں کرنا ہوگا۔‘‘
’’پکا وعدہ۔‘‘ وہ خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”دیکھ لو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں ہوں گی، تم ہوگے اور پاپا ہوں گے۔‘‘ اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
’’تمہاری اگلی پچھی ساری شکایتیں لگادوں گی۔‘‘
’’اوکے اوکے۔ اب دے دو پیسے۔“
’’اگلے مہینے پورے لوٹا دینا۔‘‘ وہ اٹھی اور پرس سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
’’تم ممی پاپا کو مت بتانا۔‘‘
’’انھیں پہلے ہی سب پتہ چل جاتا ہے۔‘‘
’’وہ میں دیکھ لوں گا۔ بس تم کچھ مت کہنا۔‘‘ کہہ کر وہ چلا گیا۔وہ بھی کچھ سوچتے ہوئے اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلی۔لاؤنج میں آئی تو دیکھا لاؤنج میں بلند آواز میں ٹی وی چل رہا ہے۔اس کے بھائی کا چار سالہ بیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ شور ہی شور تھا۔ ساتھ ساتھ کچن سے آوازیں آرہی تھیں۔
’’اوئے! والیوم کم کرو۔‘‘ اس نے اس کے سر پہ چپت رسید کی۔
’’پھوپھو…‘‘ وہ خفگی سے اسے دیکھتا ہوا والیوم کم کرنے لگا۔ وہ آگے بڑھ گئی تو اس نے پھر والیوم بڑھا دیا۔ نے اسے چھوڑ کرکچن میں جھانکا۔ ممی اور آرزو کچن میں تھیں۔ (آرزو اس کے ماموں کی بیٹی، اور اس کے بڑے بھائی کی بیوی بھی تھی۔ )
’’ممی میں علیزہ کے گھر جارہی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ جلدی آجانا۔‘‘ ممی نے کہا تو وہ لاؤنج کے آئینے کے سامنے آئی اور دوپٹہ مفلر والے انداز سے گردن میں ڈالا،اور باہر نکل گئی۔ ان کے گھر کے برابر میں ہی علیزہ کا گھر تھا۔ وہ گیٹ سے اندر آئی اور دروازے پر بیل بجائی۔
’’کون؟‘‘ اندر سے زنانہ آواز آئی۔
’’آنٹی! میں ہوں ۔‘‘ اس نے باہر سے بآواز بلند کہا۔اندر قدموں کی چاپ سنائی دی،اور ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ ان کے سر پہ دوپٹہ سلیقے سے جما تھا۔ انداز باوقار تھا۔ اس نے بے ساختہ سلام کیا۔
’’آؤ بیٹا! اندر آجاؤ۔‘‘ انھوں نے اس کے سلام کا جواب دے کر مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔عمیممہ نے اندر قدم رکھا۔ اندر وسیع لاؤنج تھا۔ ہر طرف ایک خاموشی چھائی تھی۔ لاؤنج کے سرے پہ علیزہ کی بھابھی کھڑی تھیں۔ اس نے انھیں سلام کیا۔ وہ مسکرا کر اس سے ملیں۔
’’کیسی ہیں بھابھی؟ آپ تو اپنی امی کی طرف گئی ہوئی تھیں ناں۔‘‘
’’ہاں، آج ہی آئی ہوں۔‘‘
’’اچھا۔ میں علیزہ سے مل لیتی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد زینوں کی جانب بڑھ گئی۔ وہ زینے چڑھ رہی تھی تب اسے کہیں سے آواز سنائی دی۔ ہلکی ہلکی مدھم اور سریلی آواز۔ کوئی کچھ پڑھ رہا تھا۔ اس نے زینوں سے جھانکا۔وہاں ایک کمرہ تھا، جہاں علیزہ کی بھابھی جا بیٹھی تھیں۔ خالی روشن کمرے میں کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ لان کا منظر کمرے سے نظر آرہا تھا۔ وہاں ایک چھوٹی بچی بھی اسکارف باندھے، سامنے قرآن مجید رکھے، قرآن مجید کی تلاوت کررہی تھی۔آواز بہت پیاری اور میٹھی تھی۔ وہ بچی علیزہ کی چھ سالہ بھتیجی ھدیٰ تھی۔ شاید علیزہ کی بھابھی اسے قرآن کی تلاوت سکھارہی تھیں۔یہ گھر اور اس گھر کا ماحول۔ وہ سر جھٹک کر زینے چڑھ گئی۔ علیزہ کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
’’کم اِن۔‘‘
’’ہائے۔‘‘ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
’’السلام علیکم۔‘‘علیزہ نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ علیزہ سیاہ ٹراؤزر سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ وہ کندھے پر پھسلتا سیاہ دوپٹہ درست کر رہی تھی۔
’’وعلیکم السلام۔ کیا کررہی ہو؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں۔ تم بیٹھو۔‘‘ اس نے اسے بیٹھنے کی آفر کی۔
’’میری ایک کزن ہے، رشدہ… اس کی اپنے سسرال کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ کال آئی تھی ابھی اس کی۔ رورہی تھی۔‘‘ علیزہ نے موبائل بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
’’کیا وجہ ہے؟‘‘
’’یہی… کم عمری کی شادی… مجھ سے بھی تین سال چھوٹی ہے۔ ادھردسویں کے ایگزامز ہوئے، اور ادھرشادی ہوگئی اس کی۔‘‘ علیزہ اس کے مقابل کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’اوہ… چچ چچ…‘‘ نے افسوس سے سر ہلایا۔
’’پوری فیملی پریشان ہے۔ آئے دن اک نیا جھگڑا ہوتا ہے۔ایک غلطی کی سزا پورے خاندان کو بھگتنی پڑرہی ہے۔ایک مہینے سے چل رہا یہ سب کچھ۔‘‘
’’تمہاری کزن کہاں ہے؟سسرال میں یا میکے میں؟‘‘
’’فی الحال میکے میں ہی ہے۔‘‘
’’اسے واپس جانا چاہیے۔ سب کو ایک ساتھ بیٹھ کر صلح کرلینی چاہیے۔‘‘
’’بہت کوششیں کیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب تو بات طلاق تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
’’اوہ… سو سیڈ۔‘‘
’’روزانہ کئی طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ٹی وی نیوز، نیوز پیپرز، واٹس ایپ گروپس، نیز ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پرابلمز کے انبار کھلے پڑے ہیں۔مسائل سے سماج نبردآزما ہے۔یونو مجھے کیا لگتا ہے؟‘‘
’’کیا لگتا ہے؟‘‘
’’آئی گیس
This World is Running Towards to become A Problems & Diseases Planet
(یہ دنیا مسائل اور امراض کا سیارہ بننے کی طرف گامزن ہے۔)‘‘
اس کی بات سن کر ہنس دی۔
’’ہوسکتا ہے۔‘‘ جواباً علیزہ بھی مسکرا دی۔
’’اگلے ہفتے سحرش کی شادی ہے۔کیا خیال ہے؟ کل ہو آئیں اس کے گھر سے؟‘‘ نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں… کل مجھے کام ہے۔‘‘
’’تو بعد میں کرلینا یار کام۔ اس کے گھر میں فنکشنز چل رہے ہوں گے۔ کتنا مزہ آئے گا۔‘‘
’’سچ کہوں تو میں ایسے فنکشنز اٹینڈ ہی نہیں کرتی۔‘‘
’’میں تو کرتی ہوں بھئی۔ اور دیکھنا میں ہر فنکشن میں پیش پیش رہوں گی۔‘‘
’’میں شادی میں آجاؤں گی۔‘‘
’’اور میری برتھ ڈے بھی آنے والی ہے۔ پاپا سیلیبریشن پارٹی رکھ رہے ہیں۔ ویسے تو وہ سرپرائز پارٹی پلان کررہے ہیں۔ لیکن حاشرنے مجھے سب بتا دیا ہے۔ تم آؤگی ناں؟‘‘
’’! تمہاری عمر کا ایک سال کم ہورہا ہے، اور تم اس کوخوشی کے طور پر سیلیبریٹ کررہی ہو؟‘‘
’’چھوڑو یار یہ سب باتیں علیزہ… ویسے بھی میں…‘‘اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا۔اس نے موبائل اسکرین دیکھی۔ غیر شناسا نمبر تھا۔ وہ بھنویں سکیڑے اسکرین کو دیکھنے لگی۔
’’کیا ہوا؟ کس کا ہے؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ Unknownنمبر ہے۔‘‘
’’ریسیو مت کرو۔ فراڈ کالز کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘
’’ہاں، کوئی بھی بآسانی ہمیں بے وقوف بنارہا ہے۔کال کرکے اپنا مقصد پورا کررہا ہے۔ چاہے وہ اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے کاکام ہو، یا ہماری ذاتی انفارمیشن کا۔‘‘
’’ہاں، صحیح کہہ رہی ہو۔لیکن ہم بھی اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔‘‘موبائل بج بج کے چپ ہوگیا۔ علیزہ کچھ کہنے لگی تھی کہ فون پھر بجنے لگا۔
’’کون ہوسکتا ہے؟ مجھے لگ رہا ہے دیکھ لینا چاہیے۔ کوئی جاننے والا ہی ہوگا۔‘‘کہتے ہوئے اس نے علیزہ کو دیکھا۔ علیزہ نے شانے اچکا دیے۔ نے کال ریسیو کی اور موبائل کان سے لگایا۔
’’ہیلو۔‘‘دوسری طرف سے مردانہ آواز سنائی دی۔
’’کون؟‘‘ نے پوچھا۔
“?Is there Umaima”
’’یس۔ آپ کون؟‘‘
’’میں ارحم بول رہا ہوں۔‘‘
’’ارحم؟‘‘فوری طور پراس کے ذہن میں ارحم کا تعارف نہیں آیا۔
’’آپ کے پاس میری میڈیکل نوٹس ہیں۔‘‘
’’نوٹس؟‘‘اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔یکایک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ اس نے دانتوں میں زبان دبائی۔ اور علیزہ کو دیکھا۔ جواسے ہی دیکھ رہی تھی۔ علیزہ کی آنکھوں میں ناقابل فہم تاثر تھا۔
’’اوہ… ارحم… سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔میرے پاس آپ کا نمبر سیو نہیں ہے۔‘‘
’’اٹس اوکے۔ مس … آپ جو نوٹ بکس لے کر گئی ہیں۔ ان میں ایک نوٹ بک کے فرسٹ پیج پر میری کوڈ لسٹ بنی ہے۔ جو مجھے آج لازمی چاہیے۔‘‘
’’اوہ…‘‘
’’آپ مجھے لسٹ کی فوٹو واٹس ایپ کرسکتی ہیں پلیز؟‘‘
’’جی جی شیور… میں آدھے گھنٹے بعد کروں تو چلے گا؟‘‘
’’اوکے۔ میں انتظار کررہا ہوں۔‘‘
’’بائی دی وے۔آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟‘‘اس سے پہلے کہ وہ فون رکھتا، نے فوراً پوچھا۔
’’ڈھونڈنے والے کو سب کچھ مل جاتا ہے مس ۔ اوکے بائے۔‘‘ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ کے چہرے پر مسکراہٹ چھاگئی۔ علیزہ جو اسپیکر آن ہونے کے باعث تمام باتیں سن چکی تھی، عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’دیکھا؟ اب تو کالز کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔میں بتارہی ہوں، تمہارا نقصان ہوگا۔‘‘
’’ڈونٹ وری یار علیزہ… تم جیسا سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہوگا۔ایک کال کی ہے صرف۔‘‘
’’ایک کال؟ تین رابطوں میں کھیل ختم ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد تو تم کوئی وضاحت بھی نہیں دے سکوگی۔ تم سمجھتی کیوں نہیں؟‘‘
’’جسٹ ریلیکس یار!مجھے بھی اپنا صحیح غلط سمجھ میں آتاہے۔اب اس کے بعد ہم دونوں اس ٹاپک پر بات نہیں کریں گے علیزہ۔‘‘ اس نے اسے وارن کیا۔اسے اب کالج میں سے دوری اختیار کرلینی چاہیے۔ اسی لمحے علیزہ
نے یہ فیصلہ کیا،کہ یہی فیصلے کی گھڑی تھی۔جب جانے کے لیے اٹھی تو وہ بھی اسے چھوڑنے نیچے آئی۔ لاؤنج میں ایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے انھیں دیکھ چکی تھی۔
’’علیزہ… یہ کون ہیں؟‘‘اس نے ان خاتون کی جانب اشارہ کیا۔
’’یہ بابا کی پھوپھو ہیں۔ بہت عرصےبعد ہمارے گھر آئی ہیں۔‘‘سیڑھیاں اتر کراخلاقاً ان کے قریب گئی اور انھیں سلام کیا۔
’’اوکے کل ملتے ہیں کالج میں۔ بائے۔‘‘
’’اللہ حافظ۔‘‘ اس نے ہاتھ ہلایا۔ چلی گئی۔
’’اور دادی جان… کیا کررہی ہیں؟‘‘ علیزہ نے ان کے ہاتھوں میں سوئیاں اور اون کا گولہ دیکھ کر پوچھا۔
’’بٹوہ بنارہی ہوں۔‘‘ دادی جان نے مسکرا کر جواب دیا۔اب تو مارکیٹ میں کئی طرح کے بٹوے مل جاتے تھے۔ لیکن یہ بھی دادی جان کی خوشی تھی کہ وہ خود سے بنائیں۔
’’یہ کون تھی؟‘‘ دادی جان نے اس سے پوچھا۔
’’یہ تھی۔ میری دوست ہے۔‘‘ اس نے ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’مسلمان ہے؟‘‘ دادی جان بے انتہا حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
’’جی دادی جان… مسلمان ہے۔‘‘
’’نہ دوپٹہ نہ چادر… نہ شرم نہ حیا۔اتنا چھوٹا لباس۔ توبہ توبہ۔‘‘ دادی جان حیرت سے کہہ رہی تھیں۔
’’سر پہ دوپٹہ لیے بغیر ہی باہر نکل گئی۔ توبہ توبہ ایسی بے حیائی۔ ماں باپ کچھ نہیں سکھاتے؟‘‘
’’وہ ایسی ہی ہے دادی جان۔‘‘ وہ اب کیا کہتی۔
’’اس سے اچھا تو کورونا میں تھا۔ کم از کم بچیاں گھر میں تو رہتی تھیں۔ باہر نکلے بھی تو اپنے آپ کو لپیٹ کر، ماس لگا کے۔‘ ‘
’’’ماس‘ نہیں دادی جان۔ ’ماسک‘ ہے وہ۔‘‘علیزہ کھل کھلاکر ہنس دی۔
’’ہاں وہی۔ بہت خراب ہوچکا ہے زمانہ۔ اللہ معاف کرے۔‘‘
٭٭٭
’’سحرو…‘‘سحرش بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو صحن میں تخت پر بیٹھی دادی ماں نے اس کو آواز دی۔
’’آگئی کالج سے؟ ادھر آ میری بچی۔‘‘ سحرش تھکے تھکے قدموں سے چلتی ہوئی دادی ماں کے پاس جا بیٹھی۔
’’تھک گئی ہے؟ جا، منہ ہاتھ دھو اور کھانا کھالے۔‘‘ انھوں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’یہ اسکول اور کالج تو بچے کوادھ موا کردیتے ہیں۔‘‘سحرش نے بیگ رکھا اور منہ ہاتھ دھو کر کچن میں گئی، اور واپس باہر نکلی۔
’’دادی ماں… امی کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ چھت پہ کپڑے پھیلانے گئی ہے۔بہو… کیا کپڑے سکھا کر ہی لاؤگی؟‘‘ ساتھ ہی دادی ماں نے امی کو آواز دی۔
’’آرہی ہوں اماں۔‘‘ امی کی آواز سنائی دی۔
سحرش کھانا کھارہی تھی تب امی کچن میں داخل ہوئیں۔
’’سحرش! آج مہمان آنا شروع ہوجائیں گے، اس لیے جن بھی ڈریسز پر میچنگ لانا ہے، وہ ایک طرف نکال لینا۔ آج تیری پھوپھو آرہی ہیں، ان کے ساتھ میں مارکیٹ جاؤں گی۔ تو بھی چلنا چاہتی ہے تو ساتھ چل۔ ورنہ ہم اپنی پسند کی چیزیں لےآئیں گے۔‘‘
’’آپ لوگ اپنی پسند سے جو لانا چاہتے ہیں لےآئیں۔‘‘ سحرش نے مصروف سے انداز میں کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
’’ابا اسپتال گئے تھے؟‘‘ اس نے اپنی امی سے پوچھا۔
’’ہاں گئے تھے۔‘‘
’’کیا کہا ڈاکٹر نے؟‘‘
’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ان کا لیور خراب ہوگیاہے۔شراب بھی تو اتنی پیتے ہیں تیرے ابا۔‘‘
’’ان سے کہیں یہ سب چھوڑ دیں۔اسی کی وجہ سے اتنی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔‘‘
’’میں اور اماں تو بول بول کر تھک چکے ہیں۔ ہماری کہاں سنتے ہیں وہ۔ تو ہی کہہ ان سے۔‘‘ سحرش نے بس سر ہلادیا۔
’’محلے کی رضیہ خالہ کے گھر بھی شادی ہے۔ دو قرآن شریف پڑھنے کا طے کیا انھوں نے۔ تین سیپارے ہمارے گھر بھی بھجوائے ہیں۔ ایک تو بھی پڑھ لینا۔‘‘
’’پڑھ لوں گی۔‘‘
’’ سحرش کھانا ختم کرکے باہر نکل گئی۔‘‘
’’میں پڑھ رہی ہوں۔ کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔‘‘ وہ کمرے میں چلی گئی۔
’’یہ کمرے میں بند ہوکر پڑھنے کا کون سا طریقہ ہے؟ میری تو سمجھ سے باہر ہے۔سحرو…. سیپارہ پڑھ لے پہلے۔ رضیہ کو دینا ہے واپس۔ وہ ہمارا پڑھا ہوا بھی شامل کرلے گی۔‘‘دادی ماں نے عینک لگاکر سیپارہ کھول لیا۔
’’جی پڑھتی ہوں دادی ماں۔‘‘ اس نے اندر کتابیں کھول کر بیٹھتے ہوئے کہا۔وہ پڑھائی کررہی تھی تبھی اسے فریا کا خیال آیا۔اس نے اٹھ کر امی کا فون لیا اور فریا کی امی کے نمبر پر کال کی۔
’’السلام علیکم آنٹی!‘‘ اس کی امی نے کال اٹھائی۔
’’فریا ہے؟‘‘ انھوں نے فریا کو فون دیا۔
’’ہیلو۔ السلام علیکم۔ فریا… آج کالج کیوں نہیں آئی تھیں؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں۔ تم نے کیوں فون کیا؟‘‘
’’تم سے یہی پوچھنے کے لیے کہ آج تم کیوں نہیں آئی تھیں۔‘‘
’’ہاں۔ آج مزار پر گئے تھے ہم لوگ۔ اس لیے۔‘‘
’’اچھا۔ کل تو آرہی ہو ناں؟‘‘
’’ہاں۔ آؤں گی۔ ٹھیک ہے ،رکھوں؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔اللہ حافظ۔‘‘ اس نے فون رکھ دیا، اور پھر سے پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔ اسے آج بہت پڑھنا تھا۔ پھر شادی کے لیے مہمان آنا شروع ہوجائیں گے۔ پتہ نہیں پھر اسٹڈی ہوبھی سکے گی یا نہیں۔
( جاری)
Comments From Facebook
Nice episode. Carry on. Best of luck