بچپن کے ٹراما کاسدباب ضروری ہے

 بچےکی شخصیت کی تشکیل کا عمل اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے، جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے وہ اپنے ماحول کی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر اسے اپنانا شروع کر دیتا ہے ، وہ اپنے ارد گرد ہونے والے حالات و واقعات سے شعوری و لاشعوری طور پہ سیکھ رہا ہوتا ہے، بچے کا ذہن بالکل سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے ،وہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر سیکھتے ہوئے کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
ماہرین کی رائے کے مطابق ابتدائی تین سال کی عمر میں بچے کے اندر سیکھنے کی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے، وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سیکھ رہا ہوتا ہے، بچپن میں بچے کو جس طرح کا ماحول فراہم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ جس طرح پیش آیا جاتا ہے، اس کے اثرات اس کی پوری زندگی میں محسوس کیےجا سکتے ہیں۔ بچہ صرف وہی کچھ نہیں سیکھتا جو اسے سکھایا جاتا ہے، بلکہ وہ اپنے بڑوں کی زندگی سے سیکھ رہا ہوتاہے، اس کے اندر نقالی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ چوں کہ ابتدائی عمر میں صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ بلا تامل کسی بھی عادت کو اپنا لیتا ہے۔
ہر ماں باپ اپنے بچوں کو اچھی تربیت اور اچھا مستقبل دینا چاہتے ہیں، لیکن کبھی کبھی جانے انجانے میں وہی ان کے ساتھ زیادتی کر جاتے ہیں، اس کی بےشمار مثالیں مل سکتی ہیں ،جہاں ماں باپ بچوں کے جذبات اور ان کے احساسات کو مکمل طور سے نظر انداز کر کے ایسے فیصلے لیتے ہیں یا ان سے اس طرح سے پیش آتے ہیں کہ بچے کی اندرونی شخصیت مجروح ہو جاتی ہے، اس پوری صورت حال کے سب سے بڑے وکٹم بچے بن جاتے ہیں، جیسے ماں باپ اکثر اپنے آپسی تعلق میں پائی جانے والی ناچاقی کو کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ الزام تراشی، لعن طعن اور بےجا طاقت اور انا کی برتری کے لیےبچے کے سامنے ہی ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں اور کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ اس ساری صورت حال سے بچے کی شخصیت کس طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بچے کے لیے ماں اور باپ دونوں ہی اہم ہوتے ہیں۔ جب وہ انھیں لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کی نفسیات اس سے متاثر ہوتی ہے، وہ ان سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، چوں کہ اس عمر میں بچوںکے جذبات انتہائی نازک ہوتے ہیں، وہ خود سے اسے سنبھال نہیں سکتے، اس لیے یہ جذباتی شکست و ریخت ان کے رویوں کو ایک خاص سمت میں معلق کر دیتی ہے، اس سے اس کا پورا بچپن Traumatize ہو جا تا ہے، اس کی ذہن سازی کا عمل منفی رخ پر مائل ہو جاتا ہے۔
کبھی کبھی مائیں بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ان سے ان کے باپ کی برائی کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتیں اور کبھی یہی غلطی باپ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جو بچے کے اندر تعصب و تنگ نظری کا بیج بو دیتی ہے ،اس سے وہ پوری زندگی ہلکان ہوتا رہتا ہے، ماں باپ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، لیکن بچے کے ذہنی وجود کو ضرور مسخ کر دیتے ہیں،جس سے وہ سارے زندگی ایک ٹراما سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی ماں باپ اپنے بچوں میں تفریق کرنے کی غلطی کر کے اپنے ہی بچے کو خود ذہنی اذیت کی آگ میں جھونک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ابتدائی عمر میں ہی لاشعوری طور پہ اپنے بھائی بہن کے خلاف جلن، حسد، اور دشمنی پالنا شروع کر دیتے ہیں، ایک بچے کے اندر احساس برتری اور دوسرے کے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی ذہن سازی پرانتہائی منفی اثر مرتب ہوتے ہیں، ماں باپ کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر بچہ مختلف ہوتا ہے، اس کے رجحانات دوسروں سے الگ ہوتے ہیں، ان کو ان کی فطری طبیعت سے ہٹا کر دوسروں کےبچوںکی طرح بنانے کی خواہش رکھنا یا اس چکر میں ان کا موازنہ دوسرے بچوں سے کرنا ان کو نفسیاتی کرب میں مبتلا کر سکتا ہے۔
بعض بچے ماں باپ کی توقعات کو پورا کرنے کی خواہش میں خود کو اتنا Presurize کرلیتے ہیں کہ ان کا ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے اور ماں باپ پھر بھی خوش نہیں ہوتے ۔یہ ناکامی انھیں بہت تکلیف پہنچاتی ہے ،اس کی وجہ سے بھی بچے کا پورا بچپن تکلیف دہ یادوں سے بھر جاتا ہے۔ کبھی کبھی ماں باپ بچوں کے ذہن میں اس طرح اپنا رعب پیدا کر دیتے ہیں کہ بچے ذہنی طور پران سے بہت دور ہو جاتے ہیں، ایسے بچے اگر کسی بھی طرح کے Abuse کا شکار ہوتے ہیں تو اول وہ اس کے متعلق اپنے ماں باپ کو نہیں بتا پاتے، اگر وہ ہمت کر کے کہہ بھی دیں تو ایسے والدین بچوں کے جذبات اور ان کی اذیت کو سمجھنے کے بجائے انہی کو ڈانٹ کر چپ کرا دیتے ہیں، اس کی وجہ سے بچے اذیت کے ایک ایسے بھنور میں اترتے چلے جاتے ہیں جہاں سے شاید وہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں نکل پاتے، ایسے بچے کسی بھی خاندان اور معاشرے میں کبھی بھی اپنے حصے کا تعمیری کردار ادا نہیں کر پاتے، اور اگر وہ معاشرے میں اپنا آپ منوانے کے لیے ڈٹ جاتے ہیں تو انھیں اندرونی طور پر بہت زیادہ اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کبھی کبھی باپ جب سنگل پیرنٹ بن جاتا ہے تو بچے کی ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ ماں کا نہ ہونا بچے کے لیے تکلیف دہ تو ہوتا ہی ہے، ایسے میں باپ کی طرف سے اس طرح کا رویہ اس کی نفسیات اور ذہن سازی کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس بچے کا تعلق باپ سے فطری ہوتا ہے، وہ چاہتے ہوئے بھی اس تعلق کے تقاضوں کی تکمیل کی آرزو سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا،اگرچہ وہ اسے لفظوں میں نہیں بھی کہہ سکے، پھر بھی وہ اس کی بنیادی آرزؤں میں شامل ہوتا ہے۔
Abuse کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے:
physical abuse, emotional abuse, sexual abuse ہمارے یہاں sexual abuse کے حوالے سے بےشک حساسیت پائی جاتی ہے، ہر کوئی اس کی مذمت کرتا ہے لیکن physical and emotional abuse کے حوالے سے ہم انتہائی غیر حساس ہیں۔ اکثر بچے اپنے قریبی تعلق کے ہاتھوں ہی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں باپ بھی بنا سوچے سمجھے اصلاح کے نام پر ایسے رویوں کو اپنا لیتے ہیں جو بچوں کا جذباتی طور پہ استحصال کرتے ہیں، physical abuse کو تو وہ برا ہی نہیں خیال کرتے ،بلکہ اسے بچےکی شخصیت کی تشکیل میں معاون اور ضروری سمجھتے ہیں ۔بےشک اگر یہ ایک حد تک ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہوں، لیکن ایک حد کے بعد یہ رویہ abuse کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق شاذ و نادر ہی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔بچہ اس اذیت کو اس وقت اگرچہ بیان نہ کر سکے، لیکن آنے والی زندگی میں یہ اس کی نفسیاتی صحت کو کئی طرح سے متاثر کرتا ہے، بچوں کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہوتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ یہ کہہ سکیں کہ مجھے اس سے تکلیف ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی رہنمائی جس کے سہارے وہ اپنے احساسات کو سامنے رکھ سکیں اور اپنا بچاؤ کر سکیں، وہ اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں اس کی وجہ سے ان کی زندگی اپنا مقصد کھو دیتی ہے۔ اس طرح کے بچوں کا بچپن بھی تکلیف و اذیت سے بھرا ہوتا ہے۔
پیرنٹنگ ایک باقاعدہ ہنر ہے۔ آج کے دور میں اس کو سیکھے بغیر بچوں کی تربیت کرنا قطعا ًممکن نہیں، آج کے دور کے بچوں کی نفسیات بہت بدل چکی ہے، ان کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیےان کی نفسیات کو از سر نو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔آج کے دور میں اس کے سیکھنے کے بہت سارے ذرائع ہیں، گوگل اور یوٹیوب پرپیرنٹنگ کے حوالے سے بےشمار مواد موجود ہیں، ان کے علاوہ کتابوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی ہمارے یہاں پیرنٹنگ کے ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے ماں باپ اور ارد گرد کے لوگوں کو جیسا کرتے ہوئے پایا، اسے بنا سوچے سمجھے اپنا لیتے ہیں اور کچھ چیزیں اپنے مزاج کے مطابق خود ہی اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، بچوں کی تربیت کرتے ہوئے بچے کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس عدم مطابقت کی وجہ سے بچے کا بچپن اذیت و تکلیف کی نذر ہو جاتا ہے۔
بچے کے لیے سب سے بڑےآئیڈیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں، وہ ان ہی کو اپنا استاد اور رہنما بھی سمجھتاہے، وہ ان کے عمل ردعمل کی تقلید کرنے کی کوشش لاشعوری طور پرکرتاہے۔ ہمارے یہاں اکثر والدین بچوں کے سامنے ہی ہر کسی کے بارے میں اپنی رائے کا بےمحابا اظہار کرتے ہیں،بےبنیاد محبت اور نفرت کی داستانیں سناتے ہیں، بچے پھر اسی کے مطابق خود سوچنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے ان کے اندر تعصب و تنگ و نظری کے پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے،ان کی سوچیں بچپن میں ہی آلودہ ہو جاتی ہیں، وہ لوگوں کے ساتھ وقت گزار کر خود تجربہ کر کے رائے قائم کرنے کے بجائے پہلے سے ہی ایک ججمنٹ سیٹ کر لیتے ہیں ،اس کے مطابق ان کے ساتھ پیش آتے ہیں، اس سے تعلقات غیر متوازن ہو جاتے ہیں جو کہ اختلاف اور بےسکونی کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح کی اور بےشمار مثالیں ہیں ،جہاں بچے بچپن میں ہی دکھوں کے اندھے کنویں دھکیل دیئے جاتے ہیں۔
بچپن میں بچے کے ساتھ کی زیادتی کا اثر ان کے رویوں میں ساری زندگی محسوس کیا جا سکتا ہے تاآں کہ اس سے باہر نکلنے کے لیے شعوری طور پر کوشش نہ کی جائے، یہ اثرات اس قدر گہرے اور اذیت ناک ہوتے ہیں کہ اکثر بڑے ہونے کے بعد اس سے باہر نکلنے کے لیے ماہرین نفسیات سے بھی رجوع کرنا پڑتا ہے، جس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت ہی کم بیداری پائی جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ماہر نفسیات کے پاس جانے والے لوگوں پر پاگل پن کا لیبل لگا دیتا ہے، اس لیبل سے بچنے کے لیےاکثر لوگ ساری زندگی اذیت جھیلتے رہتے ہیں ،جب کہ ماہر نفسیات کے پاس جانے کا قطعا ًمطلب یہ نہیں کہ جانے والا انسان پاگل ہے، نفسیاتی بیماریاں بھی جسمانی بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہی ہیں، ان کا علاج بھی معالج کی ہی رہنمائی میں ممکن ہے۔اس ساری صورت حال میں سب سے پہلے والدین کو اپنی ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے، ماں باپ بننا محض ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنی شخصیت، عمل و ردعمل پہ کام کریں۔

جب آپ شوہر یا بیوی ہونے کی حیثیت سے فیصلے کر رہے ہوں تو اس وقت آپ اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آپ والدیاوالدہ بھی ہیں، آپ کے فیصلے بچے کی شخصیت کو سب سے زیادہ متاثر کریں گے، بچے کی بھلائی و بہتری کے بارے میں سوچنا ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، نا کہ کسی ایک کی، دوسری بات بحیثیت والدین کے آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ آپ بچے کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ذہنی نشوونما پر بھی توجہ دیں، ان کے عادات و اطوار اور رویوں پر کام کریں۔ ڈکٹیٹر شپ والے رویے سے انھیں کنٹرول کرنے کے بجائے ان کے رویوں کے پس پشت کارفرما نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں، انھیں ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کے بجائے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کا فطری رجحان کیا ہے، اپنے بچوں کا موازنہ دوسروں سے کرنے کے بجائے خود ان کے سابقہ رویوں سے موازنہ کریں کہ پہلے کی بہ نسبت ان میں کتنی تبدیلی و بہتری پیدا ہوئی ہے، اس کو مثبت طریقے سے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
ایک بات جس کو ہمارے یہاں کے والدین سب سے زیادہ نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ ہے بچوں سے اپنے جذباتی لگاؤ اور محبت کا اظہار کرنا، بےشک تمام ہی والدین اپنے بچوں سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں لیکن اس کا اظہار وہ معمولی انداز میں بھی نہیں کرتے، اس کی وجہ سے بچے کی جذباتی دنیا میں ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے، وہ لاشعوری طور پر اس کی تسکین کے لیے ایسے رشتوں میں بھی چلے جاتے ہیں جو ان کے استحصال کی وجہ بن جاتا ہے، یہ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے سے غیر مشروط محبت کریں، ساتھ ہی ساتھ اس کا اظہار بھی کریں اور بچوں کو بھی اظہار کرنا سکھائیں ۔یقین مانیے! یہ آپ کو بھی خوشی دے گا۔ آپ کی یہ غیر مشروط محبت اور محبت کا اظہار بچے کے اندر اعتماد پیدا کرتی ہے، جو اسے اپنی بات کہنے اور زندگی میں آگے بڑھنے اور ہر طرح کے غلط رویوں سے مزاحمت کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، بچے کی شخصیت میں اعتماد کی بنیاد گھر سے ہی رکھی جاتی ہے، اگر اسے ہلا دیا جائے تو بچے کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود سر اٹھا کر بات کرنے میں جھجھک محسوس کرے گا ،یہ جھجھک اسے زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہو گی، بچے کو صرف کامیاب زندگی کی خوبیوں کے بارے میں ہی نہ بتائیں ،بلکہ انھیں کامیابی کے ساتھ ناکامی کے ساتھ ڈیل کرنا بھی سکھائیں، ناکامی کوئی برائی نہیں جس کی وجہ سے بچے کو معتوب کیا جائے، ناکامی ایک کوشش کا دوسرا نتیجہ ہے، ناکامی کوئی غیر حقیقی اور غیر اخلاقی شے نہیں کہ اس سے پناہ مانگی جائے،ناکام ہونا برا نہیں بشرطیکہ ناکامی کو مینیج کرنا آتا ہو، اس لیے بچے کو ناکامی کے ساتھ ڈیل کرنا اسے قبول کرنا سکھانا چاہیے، انھیں یہ بتانا چاہیے کہ ضروری نہیں سب کچھ ہمیشہ ہمارے مطابق ہو ،لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم کوشش کر کے اسے اپنے مطابق کر سکتے ہیں۔
بچے والدین کے پاس امانت ہوتے ہیں اور امانت کی حفاظت کرنا فرض عین کے زمرے میں شامل ہے۔بےشک یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے، ہزار طرح کے احتیاط اور کوشش کے باوجود بھی ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں، ان ناخوشگوار واقعات سے نمٹنا اور ان کے نتائج کے منفی اثرات سے بچنے کی کوشش کرنا بھی ازحد ضروری ہے، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی انسان کا بچپن ٹرامٹائز رہا ہو اور اس کی اذیت و تکلیف وہ ابھی بھی برداشت کر رہا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ بےشک ایسے انسان سے ہم کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ ہوا بھول جاؤ، پھر سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرو کیوں کہ جب حادثات و واقعات رویوں کو مسخ کر دیتے ہیں تو اس کے زخم آسانی سے نہیں بھرتے، لیکن زخموں کے ہوتے ہوئے سکون سے رہا بھی تو نہیں جا سکتا ،اس لیے ضروری ہے کہ اس پر مرہم رکھے جائیں تاکہ وہ زخم بھر سکے۔
اگر آپ خود بچپن کے صدمات کی اذیت کی زد میں ہیں اور آپ اس سے نجات چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود ترسی کے احساس سے باہر نکلنے کی کوشش کریں، خود ترسی اور احساس مظلومیت بھی ایک نشہ کی طرح ہوتا ہے ،اس کے ذریعے اکثر لوگ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی وجہ سے لوگ اپنے درد کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسی میں جینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی طرح کے نفسیاتی عوارض پیدا ہوتے ہیں، جو رویوں میں منعکس ہوتے ہیں ،اگر آپ کے بھی اندر خودترسی کا احساس ہے تو سب سے پہلے اس سے باہر نکلنے کی کوشش کریں، ماضی میں ہونے والے حادثات و واقعات کا جائزہ لیں، بہتر ہے کہ آپ کسی ماہر یا مشورہ دینے والے سے بھی رابطہ کریں جو آپ کو اس موقع پر بہتر رہنے کی راہ نمائی کر سکے، کیوں کہ ایک متاثر ذہن کے ساتھ حقیقت تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے، ہمارے یہاں ماہر نفسیات یا ایکسپرٹ لوگوں کی کمی ہے، لیکن ٹکنالوجی نے جہاں بہت ساری آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں یہ بھی آسان ہو گیا ہے کہ آپ اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی بآسانی کسی ایکسپرٹ سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ازخود یا ارد گرد کے لوگوں کی مدد سے اپنی تکلیف سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں تو کسی ماہر نفسیات سے مدد حاصل کرنے سے گریز نہ کریں، آپ کی زندگی آپ کا سکون آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
اس وقت ہم ان نکات پہ غور کر رہے ہیں جن کے ذریعے آپ خود کو بچپن میں ملنے والے صدمات یا زیادتی کی اذیت سے آزاد کر کے ایک پر سکون زندگی گزار سکیں۔ سب سے پہلے آپ خود کو قبول کریں آپ جیسے بھی ہیں جو بھی ہیں خود کو تمام خوبیوں و خامیوں کے ساتھ قبول کریں، جب تک آپ خود کو ایکسیپٹ نہیں کریں گے، خود پرکام کرنا مشکل ہوگا، ہر انسان اپنے اندر کچھ ایسی خوبیاں ضرور رکھتا ہے جو اسے بہت سے لوگوں سے مختلف اور لوگوں میں نمایاں کرتی ہیں، ان خوبیوں کو پالش کر کے آپ اپنی شناخت کو معتبر و مستحکم بنا سکتے ہیں، ہر انسان لاشعوری طور پہ یہ چاہتا ہے کہ اسے سمجھا جائے اسے سراہا جائے یہ، خواہش اگر متوازن دائرے میں رہے تو کچھ بری بھی نہیں، لیکن جب یہ خواہش ہمہ وقت آپ کے ذہن پر سوار رہنے لگے کہ جب تک لوگ سراہیں گے نہیں میں کچھ بھی نہیں، میری کوئی وقعت نہیں ،یہ انتہا پسندی اکثر شخصیت میں ایک خلا ءپیدا کر دیتی ہے۔ آپ کو لوگوں سے پہلے خود کو خود ایکسیپٹ کرنے کی ضرورت ہے، ایک انسان بیک وقت ہر کسی کے لیے یکساں اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر کسی سے اپروول حاصل کرنے کی لاشعوری کوشش سے خود کو آزاد کر لیں، رہی بات خامیوں کو قبول کرنے کی تو یہ بھی ازحد ضروری ہے، کیوں کہ جب تک آپ اپنی خامیوں کو تسلیم نہیںکریں گے اسے بہتر کرنے کی ذمہ داری کو نہیں قبول کر پائیں گے، اس وقت تک آپ خود کو ایک بہتر انسان نہیں بنا سکتے۔
ایک Traumatic personality رکھنے والے انسان کے لیے خود کو ٹراما کی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے حقیقت پسندی کے ساتھ خود کو اور اپنے حالات کو قبول کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، یہیں سے ہی زخم بھرنے شروع ہوتے ہیں۔
مثبت سوچ ایک ایسی صفت ہے، جس کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے، اگرچہ وہ اس کو عملی طور پر برتنے میں زیادہ کامیاب نہ ہو، پھر بھی وہ یہ مانتا ہے کہ مثبت سوچ رکھنا بہت ضروری ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں کا قول ہے: ’’اس دنیا میں سب سے بڑی خیر مثبت سوچ ہے اور دنیا کا سب سے بڑا شر منفی سوچ، یہی میری زندگی کی آخری دریافت ہے۔‘‘
اس جامع قول کی روشنی میں ہم ہر طرح کے مشکل حالات کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں پیدا کر سکتے ہیں، جب زندگی مشکل حالات سے گزر رہی ہو مسائل یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے جا رہے ہوں، ایسے میں انسان بعض اوقات منفی ہوجاتا ہے، خود ترسی اور احساس مظلومیت اپنی ذمہ داری قبول کرنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے، لیکن ایسے میں ہی مثبت سوچ کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اگر آپ ٹراما سے گزر رہے ہیں یا بچپن کے کسی ٹراما کے زیر اثر ہیں تو ایسے میں مثبت سوچ ہی ہے جو آپ کی سوچ کو ایک نیا زاویہ فراہم کر سکتی ہے، کسی کا ایک با معنی قول ہے:
’’ جب ہم مثبت پہلو تلاشنے میں جٹ جاتے ہیں تو منفی پہلو خود بخود پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
بالکل یہ سچ ہے کہ ہمارے ارد گرد منفی و مثبت دونوں ہی پہلو ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، ہمیں بسا اوقات وہی نظر آتا ہے جو ہم دل سے دیکھنا چاہتے ہیں،اس لیے سب سے پہلے آپ اپنی سوچ کومثبت رخ پر لانے کی کوشش کیجیے، پھر آپ کے لیے مسائل سے نمٹنا آسان ہو جائے گا، آپ کا زخم بھرنا شروع ہو جائے گا۔
انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے ،یہی وجہ ہے کہ قدرت نے اس میں خاندان اور قبیلے کے ساتھ جینے کی خواہش رکھی ہے، رشتے انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں، فطری جبلت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا، رشتے ہمہ وقت ہی یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن انسان جب کسی مشکل سے گزر رہا ہو ایسے میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اندرونی کرب سے نجات حاصل کر لیں، ماضی کے ان نقوش سے خود کو آزاد کرا لیں جو آپ کے لیے باعث اذیت ہیں۔ چناں چہ اپنے رشتے کو مزید بہتر اور مستحکم کرنے کی کوشش کریں، غم بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا حل بھی نکالنا آسان ہو جاتا ہے، بےشک انسان کو بعض اوقات دکھ بھی اس کے اپنوں ہی کی طرف سے ملے ہوتے ہیں، لیکن ایسا ممکن نہیں کہ آپ بیک وقت سارے ہی رشتوں سے اس تلخ تجربے کا سامنا کریں۔
غور کریں! ارد گرد آپ کے اپنوں میں ضرور ایسے لوگ ہوں گے جو آپ کے اپنے ہیں، جن کے نزدیک آپ اہم ہیں، ان سے تعلق کو بہتر کرتے ہوئے اپنے دل کا حال اور مسائل ان سے شیئر کریں، جنھوں نے آپ کو دکھ دیا ہے اگر ان سے بات چیت کی جا سکتی ہے تو کوشش کریں ان سے بات کریں، انھیں بتائیں کہ ان کے فلاں رویے سے انھیں کس قدر تکلیف پہنچی ہے،اس طرح بات کرنے سے اکثر اوقات سامنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے، کبھی کبھی لوگ انجانے میں دکھ پہنچا جاتے ہیں ،جب ان سے ڈسکس کیا جائے تو وہ اپنے اس رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اس لیے چپ رہ کر گھٹ گھٹ کر جینے سے بہتر ہے کہ آپ بات کریں ،مسائل پر ماتم کرنے کے بجائے اسے حل کرنے پر فوکس کریں، اس سے دل میں موجود کثافتوں کو کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔زندگی ہر لمحہ گزرتی رہتی ہے، حال ماضی بن جاتا ہے ،ماضی میں ہونے والے سارے ہی واقعات اس قابل نہیں ہوتے کہ انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے، اس لیے تکلیف دہ یادوں کے ساتھ جینے کے بجائے انھیں بھلانے کی کوشش کریں ،زخموں کی کھرنڈ کو بار بار اتارنے کے بجائے ،انھیں بھرنے دیں ،خارش کرنے کی جب خواہش ہو خود پہ ضبط کریں ،اگر ایک بار یہ بھر جائے گا تو خون رسنے بند ہو جائیں گے ،درد کی شدت بھی کم ہو جائے گی، بےشک کچھ درد روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں، لیکن اس درد سے آنے والی خوشیوں کو بوجھل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک بار جی بھر کر رو کر اس درد پہ صبر کر لیں، ضرورت ہو تو کسی ایسے انسان کی مدد حاصل کر لیں، جو آپ کو اس سے باہر نکال سکتا ہو۔
یاد رکھیے!آپ جب تک خود اپنے درد پہ صبر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے درد کی ٹیسیں اٹھتی رہیں گی، اس لیے زندگی میں صبر کر کے آگے بڑھنا سیکھیں۔ہو سکتا ہے کہ آپ نے بچپن میں یا ماضی کے کسی بھی چیز میں بےشمار غم دیکھے ہوں، وہ ٹراما آپ کے سرشت میں کہیں اتر گیا ہو، آپ ہر لمحہ اسی اذیت کے محسوس کرتے ہوں لیکن یہ جان لیجیے کہ درد کوئی بھی ہو اس سے شفایابی ضروری ہے، اگر ایک بار آپ اس سے باہر نکل جائیں گے پھر زندگی آپ کے لیے بہت آسان ہو جائے گی، تکلیف کی انتہا کو پہنچنے کے بعد جب شفایابی ملتی ہے تو پھر چھوٹے چھوٹے درد آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا پاتے، ٹراما کے بعد آپ کی شخصیت کی نشوونما ایک الگ نہج سے ہوتی ہے،آپ کی سابقہ تکلیف آپ کو بہت مضبوط بنا دیتی ہے ،اسے سائیکالوجسٹ post- Traumatic growth کہتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


کبھی کبھی مائیں بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ان سے ان کے باپ کی برائی کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتیں اور کبھی یہی غلطی باپ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جو بچے کے اندر تعصب و تنگ نظری کا بیج بو دیتی ہے ،اس سے وہ پوری زندگی ہلکان ہوتا رہتا ہے، ماں باپ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، لیکن بچے کے ذہنی وجود کو ضرور مسخ کر دیتے ہیں،جس سے وہ سارے زندگی ایک ٹراما سے گزر رہے ہوتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳