چائے نوش فرمائیے !

آئیے، بیٹھیے ، ساتھ چائے پیجیے! وہ کیا ہے ناں کہ چار لوگ کہتے ہیں ’’ انجشہ ‘‘ چائے اچھی بناتی ہے،لیکن دکھ اِس بات کا ہے کہ ان چار لوگوں میں میری ماں نہیں ہے، کیونکہ اُن کو صبح کی چائے تھوڑی میٹھی اور شام کی چائے تھوڑی ہلکی چاہیے ،اور میں نہ میٹھا بولتی ہوں نہ ہی میٹھی چیز بناتی ہوں۔
یہ رہی صبح سات بجے کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ جس میں ’’ اچھے دن‘‘ تو نہیں، لیکن اچھی چائے مل جاتی ہے، وہ بھی امی کے ہاتھوں۔خیر، اِدھر حال بہت بُرا ہے ،سورج میرے گھر کے اوپر صبح چار بجے ہی نکل جاتا ہے، اور رات آٹھ بجے ڈوبتا ہے، مطلب پورے بارہ بجے والی گرمی پسینہ ساتھ ہی رہتے ہیں اور ہر وقت سب کے چہرے پر بارہ بجے رہتے ہیں۔ آج کل صبح دس بجے والی ڈیوٹی بھی ختم ہے، کچھ بزرگ لوگوں کی دعاؤں سے دو دن بارش کیا ہو گئی، اخبار والا گلی ہی بھول گیا ہو جیسے، کب سے ( ہندوستان کی بربادی مودی کے تخیل پر ہے موقوف ) والی کوئی خبر نظر سے ہی نہیں گزری،شاید اس لیے عوام کا تو نہیں البتہ میرا اچھا دن گزر رہا ہے، لیکن یقین کریں اخبار نہ ملنے کا افسوس نہیں ہے، کیونکہ الحمدللہ سے محلے کی ایک خالہ ہیں ،میرا اِتنی صبح خواب بھی اچھی طرح مکمل نہیں ہوتا جتنی صبح ناشتہ اچھی طرح کر کے وہ آ جاتی ہیں بیچاری۔سانس اوپر نیچے ہی رہتی ہے کہ آدھے محلے کی خبر سنا دیتی ہیں وہ،الگ بات ہے کہ اچھے دن کی طرح ان میں ایک بھی اچھی خبر نہیں رہتی، لیکن سیاسی خبریں خوب ہوتی ہیں ،جیسے :ساس بہو کے درمیان کشیدگی ، چنو کی بیٹی کا مقصد بس موبائل ، پورا سامان اور بچوں کے ساتھ سسرال سے مائکے آگئی فلاں کی بیوی ، اسکول کے بہانے سموسہ کھاتی پکڑی گئی ایک لاپرواہ باپ کی بچی وغیرہ۔
بہرحال،جب اپنے حکمران کا لیکچر سن سکتی ہوں تو اُس کے بےچارے عوام کا کیوں نہیں ؟ سن لیتی ہوں دونوں کان بند کر کے۔ امی کہتی ہیں کہ اب بڑی ہو گئی ہو ،شعور کو پہنچ گئی ہو، دور اندیشی بھی کوئی چیز ہے ،مستقبل کی بہتری پر دھیان دو ، اور میں ٹھہری شور یافتہ اولاد اتنی اچھی طرح دھیان دیتی ہوں کہ مستقبل کے لیے محو خیال رہتے ہوئےسوئٹزر لینڈ ،بینکاک وغیرہ گھوم لیتی ہوں ،وہ الگ بات ہے کہ دال میں نمک کی جگہ شکر اور دودھ میں کافی کی جگہ ہلدی ڈال دی جاتی ہے،لیکن الحمدللہ جب سے موبائل ہاتھ کو لگا ہے کوئی بھی الزام میرے سر نہیں آتا، جب بھی آتا ہے اس بےچارے موبائل کے سر، پھر بھی وہ ساتھ دیتا ہے، اب ایسے وفاداروں پر کون قربان نہ ہو؟
مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بےچاری سہیلی نے مشورہ دیا کہ آج کل چھٹی ہے تو آن لائن بزنس ( Work from home)ہی شروع کر دو۔اب میں اس سے اپنی حالت کیا بتاتی کہ بہن! آن لائن تو نہیں بلکہ آف لائن بزنس تو میں کرتی ہی ہوں بس فرق اتنا ہے کہ Work at homeہے میرا،مطلب صبح ہوتے ہی ناشتہ ، جھاڑو ، برتن ، دوپہر کا کھانا ، شام کی چائے ، رات کا کھانا ، درمیان میں امی کے احباب و رشتہ دار وغیرہ کی خدمتِ خلق ، یہ سب کیا ہیں؟ البتہ مجھے آٹا، دال، چاول نمک کے لیے خوار نہیں ہونا پڑتا۔ شکر ہے کہ و قت پر کھانا اور ضرورت کے وقت بہلا پھسلا کر امی سے پڑھائی سے لے کر بالائی خرچ تک مل ہی جاتا ہے۔دل میں ایک بات چبھتی ہے بہت ،شاید آپ کو بھی سن کر دکھ ہو ،پتہ نہیں وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنھیں آفر کے نام پر وقت کے اندر مناسب داموں میں اپنی پسند کے سستے سامان مل جاتے ہیں۔ ایک میں ہوں کہ مجھے پتہ نہیں وقت دغا دے جاتا ہے یا میں؟ وقت پر پہنچ نہیں پاتی، کیوں کہ آج تک ایسے آفر میں آ کر ہمیشہ دھوکہ ہی ملا ،اور پھر شدت سے قیمتی لباس میں ملبوس ’’صاحب‘‘کی شکل یاد آجاتی ہے۔
پتہ ہے آپ کو؟ زندگی میں پہلی بار بازار سے فون کر کے امی سے پوچھا کہ کچھ چاہیے کیا گھر کے لیے؟ کہنے لگی پیسہ تو نہیں لے کر گئی مجھ سے۔ میں نے کہا ارے پیسہ ویسہ چھوڑیے ،ہیں میرے پاس۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ بڑے بول کا سر نیچا ،یہ محاورہ اُس وقت سمجھ میں آیا، جب امی نے ٹماٹر لانے کی فرمائش کی، آنکھیں پھٹی رہ گئیں، مطلب سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ٹھیلے سے ٹماٹر خریدنے آئی ہوں یا برطانیہ کے میوزیم سے کوہِ نور،اور ٹھیلا والا ایسا مسکرا رہا تھا جیسے میوات کی ہمدردی کر کے راہل گاندھی آج کل مسکرا رہا ہے۔
خیر،یہ رشتہ دار بھی عجیب ہوتے ہیں، جب بھی ملاقات کرتے ہیں تو یہی سوال کرتے ہیں کتنا پڑھوگی؟ اب شادی بھی کر لو، اِس عمر میں تو ہم دو تین بچوں کی اماں بن گئی تھیں، اور جب ان کے کسی کام میں مداخلت کر دوں تو یہی رشتہ دار اپنی زبان سے کہتے ہیں ،ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کی کوئی مشورہ دو، زیادہ اماں بننے کی کوشش نہ کیا کرو۔ اب بندہ جیے تو جیےکیسے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سماج میں چار لوگ جن کی ہر بات میں مثال دی جاتی ہے ناں، وہ چاروں میرے اپنے خاندان کے ہی ہیں ،یقین نہ ہو تو مل کر دیکھ لیں۔
سنیے ! میں کیا ہی کہوں خود کے بارے میں، گھر میں اتنی عزت ہے کہ کام کرنے کے لیے بڑی ہو گئی ہوں، لیکن ابھی تک میرے نام پر Parle-G بسکٹ آتا ہے۔ گھر کا طوطا جو ہے اس کی بھی مجھ سے زیادہ عزت ہے، پورے پندرہ دن خالہ کے گھر سے گھوم کر آیا ہے ،اور ایک میں ،پوری چھٹی گزر جاتی ہے،سہیلی کے گھر جانے کو نہیں ملتا۔ طوطا اپنی کان پھاڑنے والی آواز سے پورے دن بولے تو گھر میں لوگ ہنستے ہیں، زبردستی بلاتے ہیں، ایک میں ہوں کہ زبان کیا کھولوں لوگوں کومیری بات گراں گزرنے لگتی ہے ،میری کڑوی آواز!
خیر میرا تو ڈاکٹر نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ بی پی چیک کرتے ہوئے امی سے کہنے لگیں کہ یہ اپنا غصہ کسی پر اتار نہیں پاتی، جس کی وجہ سے اس کا بی پی لو رہتا ہے۔ امی جیسے آنکھوں کے اشارے سے کہہ رہی ہوں، اچھا اب سمجھ آیا کہ کپ پیالی کچن کی کیوں کم ہو رہی ہے آج کل۔
‌بہرحال،میں اپنا درد‌کیا ہی سناؤں ،میری امیدوں پر جتنا پانی گرتا بہتا ہے ناں آنسوؤں کا سیلاب آجائے۔آج تک مجال ہے کوئی ڈاکٹر یہ کہے کہ محترمہ آپ ایک دو مہینہ کچن کی گرمی سے دور رہیں، ورنہ مزید صورت حال بگڑ سکتی ہے۔ اب آپ بھی بیماری کا سوچ رہے ہوں گے، لیکن میں اپنی شکل صورت کی بات کر رہی ہوں معصومو!
وہ کہتے ہیں نا ںکہ سیاست میں آپ کو دلچسپی ہو یا نہیں، سیاست کو آپ میں دلچسپی ضرور ہوتی ہے۔مرتبان میں گِھی رکھتے وقت والدہ حکیمہ فرمانے لگیں کہ گائے کے دودھ کا اصلی گھی ہے، بستر پر جانے سے پہلے آنکھوں میں لگا لیا کرو، میں نے تو لگا لیا لیکن انھیں کیا پتہ ؟بستر پر جانے کے بعد Reels بھی دیکھنی ہوتی ہے اور یہاں تو آنکھ چپک گئی۔صبح امی سے ذکر کیا تو کہنے لگیں کہ موبائل نہیں دیکھ پائی تو دکھ ہے، تمھیںاب امی کی یہ اسلامی سیاست سمجھ نہیں آئی ،موبائل کے لیے براہِ راست بھی منع کرسکتی تھیں، یہ گھی کا مشورہ دے کر ہی کیوں؟ میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ اسلام اعتدال اور کفایت شعاری کو پسند کرتا ہے ،بالکل آپ دیکھیں! میرے اندر اتنی کفایت شعاری ہے کہ دن بھر میں ڈیڑھ GB ہی ملتی ہے، اس میں یوٹیوب سے پڑھنا ، فیس بک استعمال کرنا ، انسٹاگرام پر ریلز دیکھنا ، اسنیپ چیٹ پرStreak maintain کرنا ، ٹویٹر پر High light News دیکھ لینا ، یہ کفایت شعاری و قناعت پسندی نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟
آپ بھی اس بات کو تسلیم کر‌رہے ہوں گے۔ پھر بھی فضول خرچی کا طعنہ ملتا ہے۔خیر، زندگی میں بہت کارنامے ہوئے میرے ساتھ لیکن کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہوا، جس کی تاریخ لکھی جائے، افسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کی طالبہ ہوں لیکن اپنی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ حد ہے، دکھ ہے ، درد ہے ، کسک بھی ہے لیکن یقین کریںزندگی اتنی بارونق ہے کہ میں آئینے کے سامنے خود کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے خود سے ہی مخاطب ہو کر کہتی ہوں :

میری دنیا میں کوئی چیز ٹھکانے پہ نہیں
بس تجھے دیکھ کے لگتا ہے کہ سب اچھا ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. بشریٰ زیدی

    اسلام علیکم۔

    Morning tea کے ساتھ ایک ایسی ہلکی پھلکی

    تحریر دیکھنے کو ملے تو ایسا ہی تاثر چھوڑثی ہے جیسے آخری

    چسکی جس میں تھوڑی سی ثلخی ہوتی ہے قاری کے ذہن

    کوہلکا تو کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ایک سوالیہ نشان

    اس معاشرتی نظام پر بھی لگا دیتی ہے جس میں عورت

    کامقام وہی ہوتا ہے جو یہ معاشرے طے کرتا ہے ا

    اسکی زندگی کا محور گھر اور گھرداری اور اسمیں بھی سب کی

    پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳