محدثات علم حدیث کی ارتقاء میں خواتین کی خدمات

مسلم معاشرے میں خواتین کی سماجی حیثیت اوردینی کاموں میں سبقت پر بے شمار سوالات خود مسلم خواتین کے پاس موجود ہیں ۔یہ بات نئی نہیں ہے، دور نبوی میں بھی بعض صحابیات نے اس نوع کے سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے کہ مردوں کے لیے عبادت کے فلاں فلاں احکام ہیں، جب کہ ہم گھر اور بچوں کے کاموں میں الجھی رہتی ہیں ،ہمیں ثواب کیسے ملے گا ؟یہ سوال ہر ارتقاء پذیر ذہن سے اٹھتا ہے۔
مرد عیدین ، نماز جمعہ، وعظ و نصائح میں شرکت سے استفاده کرتے ہیں اور قبرستان جا کر عبرت حاصل کرتے ہیں ۔رسول اللہ کے زمانے میں جہاد اور آپ ﷺ کی صحبت میں تعلیم و تربیت کے حصول میں سہولت رکھتے ہیں جب کہ خواتین کو یہ سہولتیں حاصل نہیں ۔ آج ا گرچہ تعلیم و تربیت کے ذرائع خواتین کے لیے بھی آسان ہیں، لیکن مساجد میں داخلہ اور جمعہ و عیدین کی سہولیات نہیں ہیں، البتہ بازاروں، شاپنگ مالز یا تجارت کے لیے خواتین کو ساز گار ماحول میسر ہے۔
خبر ملی کہ ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب کی تحقیق :’’ الوفاء بأسماء النساء‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے ۔ اس کتاب نے مسلم خواتین کے حوصلےبلند کیےاور مغربی دنیا میں خواتین کی آزادی سے متاثر مسلم خواتین کے اعتماد میں غیر معمولی اضافہ کیا۔اردو میں یہ کتاب ’’المحدثات ‘‘،’’ علم حدیث کے ارتقاء میں خواتین کی خدمات ‘‘ کے نام سے ہدایت پبلیکیشن نے ہندوستان میں شائع کی ہے۔یہ کتاب کل 408 صفحات پر مشتمل ہے،جس میں جملہ10 ابواب ہیں۔تعارف میں مصنف نے قرآن و سنت کی حجیت ، قرآن و سنت کا خواتین کو بااختیار بنانےاور خواتین کے ان افعال پر مدلل گفتگو کی ہےجن سے ان کی قوت اور حیثیت قائم ہوتی ہے ۔

پہلے باب میں روایت حدیث کی قانونی شرط کو مصنف نے واضح کیا ہے ۔ فاضل مصنف خواتین کے محدثہ ہونے پر واقعہ بیان کرتے ہیں :
’’ربیع بنت سلیمان کے مطابق امام شافعیؒ (متوفی: 204ھ) کا قول ہے: کسی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے بتادیں کہ علماء کے نزدیک وہ کیا ثبوت ہیں جس کے مطابق کسی روایت کی صحت کو پرکھا جائے؟
تو انہوں نے جواب دیا: ’’ فرد واحد کی فرد واحد سے روایت ، بہ شرط ایں کہ اس کا سلسلہ رسول ﷺ تک دراز ہو، یا اس کی سند کسی صحابی تک پہنچے،راوی کا دین مسلم اور معتبر ہو،وہ اپنی صدق بیانی کے لیے معروف ہو،مالہٗ اور ماعلیہ سے واقف ہو، حدیث میں تبدیلی واقع ہونے کے عمل سے واقف ہو،حدیث کے اصل متن میں ترسیل پر قادر ہو۔‘‘
خواتین کے فقہی مسائل کی وجہ سے بھی وہ راوی بنی ہیں ۔ان سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین سے مروی احادیث شرعی احکام کی بنیاد قرار پائیں اور یہ معروف طریقےکے مطابق ہوا۔ ان احادیث کو قبول کرتے ہوئے یہ خدشہ کبھی نہیں رہا کہ یہ خواتین سے مروی ہیں۔قاری جوں جوں پڑھتا جائے، اسلام کی حقانیت، انصاف پسندی پر اس کا دل عش عش کراٹھے ۔حضرت عمر ؓ کے زمانے کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں خواتین کو آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے علم و فہم اور ذکاوت کی بنیاد پر قاضی وقت کے فیصلے پر رائے دے سکتی تھیں ۔
باب دوم میں خواتین کے تعلیم یافتہ ہونے کا رجحان ، نیز بچوں کی تعلیم وتربیت ، خواتین کی علمی مجالس میں شرکت پر واقعات قلم بند کیے ہیں ۔ ایک واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں، جو یہاں اختصار سے بیان کیا جارہا ہے کہ حمراء بنت عبدالرحمٰن تابعیہ، فقیہہ، محدثہ تھیں ،انھوں نے ایک عدالتی فیصلے میں مداخلت کی تھی، جو ایک غیر مسلم شخص سے متعلق تھا اور چونکہ وہ جانتی تھیں ،اس لیے ان کی بات وقت کے قاضی نے تسلیم کی، مقصد یہی تھا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو ۔بات پیش کرنے والے کی آزادی، قبول کرنے والوں کا ظرف اور ہر دور میں خوف خداوندی یہ اس صالح معاشرے کی پہچان تھی ۔اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد کے معاشرے کا موازنہ کیا جائے تو عقل حیران ہوگی کہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ اتنی تیزی کے ساتھ انسانی ذہن نے ناقابل یقین ذہنی مسافت طے کی ہے ۔ مسلمان وحی الٰہی کو اپنے خالق کا قول گردانتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے وحی الٰہی کی حکم عدولی نا قابل تصور تھی۔
قرآن مجید میں عورتوں کا عمومی اور خصوصی حیثیت سے ذکر آیا ہے ۔ اس کی رو سے خواتین کسی بھی طرح مردوں سے کم تر نہیں ۔ ان میں کوئی نقص پایا جا تا ہے نہ وہ کسی ابدی گناہ کی مرتکب ہیں اور نہ گناہ اور بدی پر مائل ۔ اس ضمن میں وہ مردوں کی طرح ہیں ۔ مردوں ہی کی طرح وہ بھی گناہ پر کسی کو راغب کر سکتی ہیں ۔ قرآن مجید خواتین کو مردوں کا تابع مہمل قرار نہیں دیتا، بلکہ ان کے آزادانہ تشخّص کو تسلیم کرتا ہے۔ اس نے ہر عورت سے انفرادی طور پر اس طرح خطاب کیا ہے،جس طرح اس کا خطاب مردوں سے ہے ۔
تحصیل علم کی اقسام ، اس کےمواقع ،اس کے لیے اسفار سے متعلق باب سوم میں لکھتے ہیں کہ عوامی مجالس میںہم درس کے لیے شریک ہواکرتی تھیں ۔ خواتین کے گروہ میں لڑکیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ ام علی بنت ابی الحکم امیہ بنت قیس ابي السلط الغفاریہ سے روایت کرتی ہیں کہ وہ قبیلہ غفار کے ایک وفد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ یہ دور غزوۂ خیبر کا تھا۔ خواتین میدان جنگ میں زخمیوں کی نگہداشت کے لیے جانے کی خواہش مند تھیں۔ رسول اکرم ﷺ نے اس کی اجازت دیتےہوئے فرمایا: ’’اللہ برکت دے۔‘‘اس سے اندازہ کریں کہ خواتین کی حیثیت دین میں اور قرون اولیٰ میں کیا رہی ہے ۔
مسلم الثبوت کے شارح کی رائے ہے کہ ایک معتبر دین دار خاتون کی روایت قابل قبول ہے اور اسے کسی مرد کی تصدیق کی حاجت نہیں۔ اس کے برخلاف شہادت میں مرد کی صراحت نص قرآن سے ثابت ہے۔ ایک واحدخاتون کی روایت کو صحابہ نے قبول کیا ، اللہ ان سے راضی ہوا، اور ان کا یہ فعل قابل تقلید ہے۔ صحابہ نے حضرت بریرہ ؓکی روایت کو ان کی آزادی سے قبل اس طرح تسلیم کیا، جس طرح انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓاور دیگررواۃ کی روایات کو معتبر قرار دیا۔
مرد و خواتین دونوں کی تخلیق کا مقصد یکساں ہے۔اللہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو کاحکم دونوں کو ہے۔ابتداء سے خواتین کی قربانیاں مردوں کے ساتھ ساتھ رہی ہیں۔ہر قسم کے وہ الزامات جو خواتین پر لگائے گئے، اس کی تردید کی۔ نہ وہ برائی پر اکسانے والی ہیں ،نہ وہ پیدائشی گنہگار ہیں ۔موصوف ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب ایک جگہ نقل کرتے ہیں کہ قرآن خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتا ہے۔صحابیات،محدثات و معلمات با اختیار تھیں ۔وہ سماجی اور معاشی میدان میں بھرپور حصہ لیتی تھیں۔ربیع بنت معوذ بیعت رضوان میں شامل تھیں۔قبیلہ عدیّ بن نجار کی سلمہ بنت قیس بن عمر غزوۂ احد و بدر میں شامل تھیں،ام المنذر قبلتین میں شامل تھیں،ہجرت میں شامل تھیں۔ام کلثوم بنت عقبہ مدینےکی ہجرت میں اپنے بھائیوں سے پہلے مدینہ پہنچ گئیں۔‌نہ صرف یہ کہ وہ سماج میں فعال رول ادا کرتی تھیں بلکہ سخت سے سخت اور کڑی آزمائش میں بھی شامل رہی ہیں ۔ ہجرت حبشہ اور بیعت عقبۂ ثانیہ میں بھی خواتین شامل تھیں ۔
اسلامی معاشرے کی تشکیل ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کی بنیاد پر ہے، اس لیے اسلامی معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی خواتین کابنیادی حق ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور خواتین کی علمی حیثیت کو تسلیم کرنے کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ امام مالک (متوفی : 179ھ) نے سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ سے اور انھوں نے اپنی پھوپھی زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت کی ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنانؓ ، حضرت ابو سعید خدریؓ کی بہن نے ان کو بتایا کہ وہ رسول ﷺ کے پاس یہ اجازت لینے گئیں کہ وہ بنو خدرہ اپنے آبائی گھر چلی جائیں،ان کے شوہر کو مفرور غلاموں نے قتل کردیا۔ ان کے پاس گھر نہیں ہے۔ عدت کی مدت گزارنے سے متعلق وہ رسول اللہ ﷺ سے استفسار کررہی تھیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ عدت کے خاتمے تک اپنے مکان میں رہو ،چار ماہ دس دن تک۔عثمان بن عفاّنؓ نے مجھ سے دور خلافت میں یہ واقعہ دریافت کیا ۔
بیٹیوں کی پیدائش پر جنت کی بشارت کی روایت بھی حضرت عائشہ سے مروی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر نے کسی شخص کو یہ کہتے سنا کہ میری بیٹیاں مرجائیں، معاشی تنگی ہے۔
پیارے نبیﷺ بعض سوالات کے جوابات خواتین کو لطیف و بلیغ پیرائے میں دیتے تھے۔ خواتین ایک دوسرے کو سمجھالیتیں ۔ عائشہؓ اور اسماءؓ سے وہ فقہی مسائل سمجھ لیا کرتی تھیں ۔خواتین کی تحصیل علم کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نسلوں کی نگہداشت کرنے، اپنے شوہر کی دین کی راہ میں مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی سماج میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں فعال رول ادا کرسکتی ہیں ۔دورِ تابعین میں اپنی بیٹیوں اور بیویوں بہنوں کی تحصیل علم کے لیے خصوصی کوششیں کیں ۔بعض علماء نے علم دین کے اکتساب کے لیے اپنی بیٹیوں کی شادیاں علماء سے کردیں، تاکہ علم کا حصول بیٹی کے لیے سہل ہوسکے۔
شیخ الاسلام ابوالعباس احمد بن عبداللہ المغزلی الفارسی(معروف بہ:ابن الحطیہ )
نے اپنی بیٹی کو قرأت سبعہ، صحیح بخاری،صحیح مسلم کی تعلیم دی۔ان کی دختر نے ان احادیث کو تحریر کیا اور بالاستیعاب مطالعہ کیا۔سعید بن المسیب ؒ
نے اپنی بیٹی کو احادیث کی سماعت کروائی۔امام مالک بن انسؒ نے مکمل مؤطا اپنی بیٹی کو درس میں پڑھایا، محمد بن جریر الطبری کے شاگرد تھےان کی صاحب زادی محدثہ امۃ السلام نے حدیث کا علم اپنے والد سے حاصل کیا تھا۔شیخ القراء ابو داؤد سلیمان بن ابی القاسم الاندلسی نے اپنے شاگرد سے بیٹی کی شادی کی ،روایت ہے کہ ان کی دختر نے کئی احادیث اپنے والد سے روایت کیں۔انھوں نے اپنے والد کے اساتذہ سے بھی تحصیل علم کیا۔ ان کے شوہر احمد بن محمد ایک انتہائی متقی لیکن نادر شخص تھے۔ شیخ القراء ان کی صفات سے متاثر تھے ، اسی بنا پر انہوں نے احمد سے دریافت کیا کہ کیا وہ ان کی بیٹی سے شادی پر رضامند ہیں؟ نوجوان احمد پر شرم وحیاء کا غلبہ ہوا اور انھوں نے عذر پیش کیا ، جس کے باعث وہ شادی کرنے سے قاصر تھے، لیکن شیخ نے ان کی شادی اپنی بیٹی سے کردی ، بیٹی کو جہیز دیا اور احمد کے گھر رخصت کیا۔تحفة الفقهاء اور دیگر تصانیف کے مصنف امام علاؤالدین سمرقندی (متوفی: 539ھ) کی بیٹی اپنے حسن و جمال کے لیے مشہور تھی ۔ شہزادے اور باثروت اشخاص ان سے شادی کے خواہاں تھے، لیکن شیخ نے ان رشتوں کو نامنظور کیا، کیوں کہ ان کی بیٹی عالم دین تھی اور اس کو تحفۃ الفقہاء از برتھی ۔ شیخ کی خدمت میں ایک طالب علم مقیم تھا، جس نے کچھ عرصہ میں فقہ کے اصول اور ان کی تطبیق پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ اس کے بعد اس نے بدائع الصنائع تحریر کی ، جو کہ شیخ کی تصنیف تحفۃ الفقہاء کی شرح ہے ۔ شیخ اس شرح سے اتنا متاثر ہوئے کہ اپنی بیٹی کی شادی انھوں نے اس طالب علم سے کر دی اور اس کی تصنیف کو بطور مہر قبول کیا۔اس طالب علم نے بطور ممتاز فقیہ شہرت حاصل کی اور وہ الکاسانی کے نام سے موسوم ہیں۔الغرض محدثات پڑھ کر مسلم خواتین پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب مدلل مل سکتا ہے، مسلم خواتین کا حوصلہ بلند ہوتا ہے، علمی میدان میں خواتین کی آزادی اور اس معاشرے میں خواتین کی مسلم حیثیت خواتین میںاعتماد پیدا کرتی ہے ۔موجودہ حالات میں علم حاصل کرنے والی بہنوں کی مغرب سے مرعوبیت کے برعکس اسلامی کردار کے خاکے اپنی شخصیت کو ڈھالنے پر اکساتے ہیں ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عمرفاروق

    ماشاءاللہ بہت فائدہ ہوا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳