چراغ تلے اندھیرا

 ’’مسز افتخار! رمشہ کا ایڈمشن کس اسکول میں کروایا ؟ ‘‘
’’کرسٹ جیوتی کانوینٹ اسکول میں۔‘‘مسز افتخار بڑے ناز سے گویا ہوئیں۔
’’ہمارے اسکول میں کیا برائی ہے بھئی جو آپ نے کرسٹ جیوتی کو ترجیح دی؟ اتنا خوبصورت کیمپس ، ویل ایجوکیٹیڈ اسٹاف اور عمدہ نظم و ضبط۔ ‘‘ میں نے اپنی کولیگ ٹیچر کو سمجھایا۔
’’میڈم! مسئلہ ہمارے اسکول کا اردو میڈیم ہونا ہے۔ دورِ حاضر میں کانوینٹ اسکولز کے طلبہ ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں اور سماج کی نظروں میں ممتاز۔ اچھا سنیے میڈم ! سمیر ٹیوشن کلاسز سے آپ کی اچھی جان پہچان ہے ، کل آپ چلیں گی ساتھ رمشہ کا ایڈمیشن کروانے ؟ دراصل میری ذاتی کلاسزمیں 30 طلبہ ہیں۔ اسکول میں 6 گھنٹے گزار کر ٹیوشن کو جیسے تیسے 2 گھنٹے دے پاتی ہوں۔ ایسی صورت میں رمشہ کو خصوصی توجہ کیسے دے پاؤں گی بھلا؟‘‘
’’مادری زبان کے تئیں اس قدر احساسِ کمتری کا شکار ہونا اپنے ہی پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔‘‘ میں نے تاسف سے سر جھٹکا۔
’’اچھا میڈم! ابھی میرا نہم جماعت میں اردو کا لیکچر ہے۔ آپ کل شام میں تیار رہیں، میں پِک کر لوں گی۔‘‘ مسز افتخار کتابیں سنبھالے اردو لیکچر لینے چل پڑیں۔
میرے ذہن میں منظر بھوپالی کا یہ شعر گونجا:

محبت کا سبھی اعلان کر جاتے ہیں محفل میں
مگر حق مانگنے کے وقت یہ بیگانہ پن کیوں ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳