چائلڈ اسپیشلسٹ و کاؤنسلر ڈاکٹر کنول قیصر سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو [قسط: 1]

انسانی شخصیت اپنے اندر اوصاف و کمال کی افزائش کا بےپناہ امکان رکھتی ہے، جس کو بروئے کار لا کر خود کو ایک بہترین کردار میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جس فطرت پہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کی نشوونما کر کے کسی بھی اعلیٰ عہدے و مرتبے کے ساتھ خود کو ایک بہترین انسان بھی بنائے رکھا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا انسان جو کہ مذہبی اقدار اور اس سے جڑے فرائض کے ساتھ رشتوں سے جڑے تقدس کے تئیں بھی حساس ہوتا ہے جو ماضی کی کہنہ روایات کے ساتھ جینے کے بجائے اس کو بدلنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے، ایسا انسان فقط اپنے آنگن کو ہی روشن نہیں کرتا بلکہ ان راہ گزاروں کو بھی روشنی کی سوغات دے جاتا ہے جہاں سے اس کا گزرہوتاہے۔ اس دنیا میں ایسے لوگ ہمیشہ ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں جنھوں نے اپنے ہر سعی و عمل کو مقصد کے دھاگے میں پرو کر لوگوں کو بہتر انسان بننے کی دعوت دی ہے۔
ان ہی میں سے ایک اہم قابل ذکر شخصیت ڈاکٹر کنول قیصر کی ہے، ان کا تعلق پاکستان کے شہر اسلام آباد سے ہے۔ پروفیشن کے اعتبار سے وہ چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں، ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں گھر کا ہر فرد ہی ڈاکٹر ہے جو کہ بشمول ان کے انتہائی پروفیشنل طرز زندگی رکھتا ہے ،مطلب یہ کہ ایلیٹ کلاس فیملی کےطرز زندگی کے تحت ڈاکٹر کنول کیسر کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ گزرا، جہاں مذہب بس ایک روایت کی طرح زندگی کا حصہ تھا، اس کی حقیقت و ماہیت پر غور کرنے کی فرصت انھیں میسر نہیں تھی۔
27سال پہلے جب انھوں نے قرآن کلاس جوائن کیا تو ان کی زندگی میں ایک زبردست بدلاؤ آیا، الھدیٰ انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن کی کارگذار اور ان کی استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے ان کی شخصیت میں اس انقلابی تبدیلی لانے میں بہت تعاون کیا۔ ڈاکٹر کنول کیسر نےاس ادارے سے ڈپلوماکی ڈگری لی، پھر وہ خود الھدیٰ سے وابستہ کی ایک سرگرم رکن بن گئیں۔
اس وقت ڈاکٹر کنول قیصر ، الھدیٰ کے تحت چل رہے پروگرام’’ہمارے بچے‘‘ کی ڈائریکٹر ہیں، ڈاکٹر کنول قیصر صرف ایک چائلڈ اسپیشلسٹ ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک کاؤنسلر اور تھیراپسٹ بھی ہیں، انھوں نے میڈیکل کی ڈگری کے ساتھ سائیکالوجی اور کاؤنسلنگ کے حوالے سے کئی سارے کورسز بھی کیے،مختلف ایڈکشن سینٹر کے ساتھ وہ کام بھی کررہی ہیں، وہ میڈیکل پریکٹس کرتے ہوئے کاؤنسلنگ، تھیراپیز اور ورکشاپس وغیرہ کرتے ہوئے پچھلے 23 سالوں سے بچوں کو قرآن پڑھا رہی ہیں، اور ان کے والدین کو پیرنٹنگ میں پیدا ہونے والے نئے نئے چیلنجز کے حوالے سے ایجوکیٹ کرتی ہیں ،اور انھیں بتاتی ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو کیسے ایک بہتر انسان اور بہترین مسلمان بنا سکتی ہیں؟ وہ بچوں کی نفسیات کی گہرائی کو سمجھنے کا اعزاز رکھتی ہیں، انھوں نے اس موضوع پہ کئی کتابیں بھی لکھی ہیں جو کہ متعدد اداروں میں نصاب میں شامل ہیں، وہ ایک بہترین Speaker ہیں ،ان کی بےشمار ویڈیوز سوشل میڈیا پرموجود ہیں، انھوں نے ہر عمر کے لوگوں کے لیے ورکشاپس بھی کیے ہیں، انسان کی اندرونی شخصیت سے جڑے ہر پہلو پرقرآن و حدیث اور نفسیاتی علم کی روشنی میں اب تک بےشمار لیکچرز دے چکی ہیں، مختلف آرگنائزیشن کے ساتھ وہ مسلسل کسی نہ کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہی ہوتی ہیں، انھوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو سمجھ کر نہ صرف اپنی زندگی کو صحیح رخ پہ مائل کیا ہے، بلکہ بتوفیق خدا اوروں کی زندگی کو بھی صحیح رخ پر لانے کے لیےانتھک جدوجہد بھی کی ہے ،جو کہ اب تک جاری ہے۔
جب میں نے ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ دیکھیں تو میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی، ان کا انٹرویو کرنا میری شدید خواہش تھی، انتہائی کوشش کے بعد میں اس خواہش کی تکمیل میں کامیاب ہو ہی گئی ،اس کے لیے میں ڈاکٹر کنول قیصر کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروف ترین زندگی سے چند لمحے میرے لیے نکالے،جزاک اللہ خیراً۔
الحمدللہ اس وقت ڈاکٹر کنول قیصر میرے سامنے ہیں، سچ پوچھیں تو میرے ذہن میں سوالات کا انبار لگا ہوا ہے، اور مجھے معلوم ہے کہ میں سارے ہی سوالات نہیں پوچھ سکتی ،کیوں کہ پھر یہ طویل دورانیہ ہم سب کو بوجھل کر دے گا۔ میری کوشش ہے کہ بسہولت جتنے بھی سوالات ممکن ہوں میں ان سے پوچھ لوں، مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس انٹرویو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ،اپنی زندگی کو ایک بامقصد رخ دینے میں مدد ملے گی، آئیے! اب مزید تاخیر کیے بغیر ہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں، مزید ان کے بارے میں ان ہی سے جانتے ہیں۔

 علیزے نجف:

السلام علیکم

ڈاکٹر کنول قیصر :

وعلیکم السلام

 علیزے نجف:

سب سے پہلے تو ہم آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں؟

 ڈاکٹر کنول قیصر :

میرا نام ڈاکٹر کنول قیصر ہے، میرا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے ،اور میں پچھلے تیس سالوں سے بطور چائلڈ اسپیشلسٹ، پاکستان کے راولپنڈی شہر میں پریکٹس کر رہی ہوں۔ تقریباً 26 سال پہلے میں نے قرآن کلاس کو جوائن کیا، جہاں سے میرا ایک اور طرح کا سفر شروع ہوا، جس میں میں نے اپنے اوپر بھی کام کیا اور پھر میں نے کئی پروجیکٹس پر کام کیا، جس کا ایک لمبا سلسلہ رہا ہے ،جو اب تک چلا آرہا۔
اور رہا سوال یہ کہ میں خود کو کس طرح دیکھتی ہوں، تو میں خود کو ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے کوئی بھی انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہے، ہاں یہ بھی ایک سچ ہے کہ جب بھی کوئی انسان کوئی چیز سیکھتا ہے، تو اس ضمن میں سب پہلی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بنایا جائے، اور اللہ سے اپنے تعلق کو بہتر بناتے ہوئے اس کو ہمہ وقت راضی کرنے کی کوشش کرتے رہا جائے، میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس تقاضے کو پورا کرنے میں لگی رہوں، اس کے تحت میں ہمیشہ ایک لرنر کی طرح جینے کی سعی کرتی ہوں، اور ساتھ ساتھ میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ میں سیکھوں اسے میں دوسروں تک پہنچاؤں، تاکہ اچھی سوچ اور اچھے عمل کو فروغ مل سکے ۔

 علیزے نجف:

اپ کا تعلق کس خطے سے ہے؟ فی الحال آپ کہاں قیام پذیر ہیں؟ کیا انسانی شخصیت پر کسی خطے کی خصوصیات بھی اثرانداز ہوتی ہیں ؟

 ڈاکٹر کنول قیصر :

میرا تعلق پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے کہ میں راولپنڈی میں جاب کرتی ہوں اور رہی بات خطے کی خصوصیات کی ،تو بےشک میں اس حوالے سے اپنے آپ کو کافی خوش قسمت خیال کرتی ہوں کہ میں پاکستان سے تعلق رکھتی ہوں، ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے ہمیں یہاں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے خواہ وہ دین پر عمل کرنے کا معاملہ ہو۔ ہم ہر طرح سے اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں، اپنے خیالات کو لوگوں تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں، غرض یہ کہ ہمیں یہاں ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق اس حوالے سے یہ ملک اکثر ممالک سے زیادہ زرخیز ہے، جو کہ ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
اور ہاں! ساتھ ساتھ چیلنجز کا ہونا بھی ایک فطری عمل ہے، شیطان تو ہمیشہ ہی اپنا کام کرتا رہتا ہے، یعنی انسانوں کو بہکانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، ہمیں اس کے مکر و فریب سے کیسے بچنا ہے؟ یہ ہمیں خود سوچنا اور سیکھنا ہوگا۔

 علیزے نجف:

کہتے ہیں انسانی شخصیت کی تعمیر میں ارد گرد کا ماحول بھی گہرے اثرات ڈالتا ہے، آپ اپنے بچپن کے ماحول اور اب کے ماحول میں کیا فرق دیکھتی ہیں ؟

ڈاکٹر کنول قیصر :

بالکل۔ وقت کے ساتھ تبدیلی قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے، جو ہر دور میں رہا ہے۔ میں موجودہ وقت میں اس تبدیلی کو محسوس کرتی ہوں کہ یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ،ہم ہمہ وقت ایک دوسرے سے اسکرین کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں، اسکرین کی دنیا جو کہ ہر طرح کے مواد اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، نتیجۃًہم وہاں مختلف طرح کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے برعکس اگر میں اپنے بچپن کے ماحول کا ذکر کروں تو اس وقت Physical activity زیادہ تھی ،اور بڑوں کے تئیں ادب و احترام والا ماحول تھا اور والدین کو زیادہ اختیارات حاصل تھے، اس وقت کے ماحول میں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا آسان تھا، اگر چہ دین کے تئیں لوگوں کی تحقیقات زیادہ گہری نہیں تھیں، لیکن دین کے بنیادی شرعی تقاضوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، جیسے: نماز و روزے کی جانب سچی رغبت، شرم و حیا اور دیگر اخلاقیات کو کافی اہمیت دی جاتی تھی، ٹیکنالوجی کی زیادہ ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیلی ویژن وغیرہ تک رسائی مشکل تھی، لوگوں کے اندر بزرگوں کی باتوں کو اہمیت دینے کا مزاج تھا جب کہ موجودہ وقت میں اس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ ساری خصوصیتیں ناپید ہوتی نظر آ رہی ہیں، اب لوگوں کے اندر لاشعوری طور پر سرکشی کا مزاج پیدا ہوتا جا رہا ہے اور وہ خود مرکزیت کا بھی شکار ہوتے جا رہے ہیں ،اپنے خیالات پر کام کرنا انھیں پسند نہیں رہا، کہیں نہ کہیں ان کے اندر شدت پسندی کی ذہنیت بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے، کچھ لوگ مذہب کے نام پر شدت پسندی اختیار کر رہے ہیں اور کچھ سیکولرزم کے نام پر مذہب کو غیر ضروری قرار دینے پر اڑے ہوئے ہیں۔

 علیزے نجف:

آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے ؟ موجودہ وقت کے نظام ہائے تعلیم سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟ اگر نہیں ،تو آپ کے نزدیک اس کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے ؟

 ڈاکٹر کنول قیصر :

میں نے میڈیکل کے شعبے سے تعلیم حاصل کی ہے اور چائلڈ اسپیشلسٹ کے طور پر اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہے، اس کے علاوہ میں نے الھدیٰ انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں سے مختلف ڈپلوماز اور کورسز کیے ہیں ،جیسے کہ سائیکالوجی اور کاؤنسلنگ تکنیک کے حوالے سے اور ایڈکشن ڈپارٹمنٹ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کام بھی کیا ہے۔جہاں تک موجودہ وقت میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ پاتے نظریے کی بات ہے ،تو دیکھیے!موجودہ وقت میں ہمارے یہاں کے تعلیمی نظام میں جس چیز کو مرکزی توجہ حاصل ہے ،وہ گریڈز ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تقریباً پوری دنیا میں ایسے ہی گریڈز کی ریس نظر آ رہی ہے۔اب لوگوں کی توجہ معیار تعلیم سے ہٹ کر فلاں فلاں یونیورسٹی کا بڑھتا اسکوپ اور اس کے ذریعے جاب ملنے کا امکان اور اس سے حاصل ہونے والا پیکج ہے ، اب یہی کچھ لوگوں کا مطمح نظر بنتا جا رہا ہے ،اس کی وجہ سے اگرچہ ہم اپنی آئی کیو پروگریس تو بہتر بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن ہماری ایموشنل انٹلیجنس پستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے، اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ہم عملی زندگی کو برتنے کا سلیقہ ہی بھولتے جا رہے ہیں۔
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے ارد گرد ایسے لوگ جو کہ ڈگریوں کے اعتبار سے مجھ سے بھی زیادہ پڑھے لکھے ہیں، لیکن نہ وہ اسٹریس مینیجمنٹ جانتے ہیں اور نہ Anger management جانتے ہیں، اور نہ ہی انھیں Relationship building technique کا پتہ ہے ۔کسی ایکسپرٹ نے ایک بار مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا جو کہ مجھے کافی معقول بات لگی کہ یہ جو علم ہے یہ One click away ہے ،ہم صرف ایک کلک سے دنیا بھر میں کسی بھی کونے میں جا کر کوئی بھی علم پڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت جو تعلیمی ادارے ہیں اس وقت انھیں ضرورت ہے کہ کردار سازی کو مرکزی اہمیت دیں، اور لوگوں کو Life skills سکھائیں اور انھیں Communication skills سکھائیں ،تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ان کے حل تلاش کر سکیں۔(جاری)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

3 Comments

  1. فیروزہاشمی

    عمدہ انٹرویو، اگلی قسط کا انتظار ہے۔
    فیروزہاشمی

    Reply
  2. Naseem Sultana

    Alhumdulilah bahoot hi accha aur inspiring interview tha masha allah

    Reply
  3. zubaida

    bht hi khubsurT aur dimag kahnewala interview agey ki qust ka intezaar rahega

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳