سوال:
اگر بیوی خلع چاہتی ہے تو کیا اسے نکاح ختم کرنے کے لیے کچھ معاوضہ ادا کرنا پڑے گا؟ اس سلسلے میں مزید دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1- کیا زیورات، پراپرٹی یا دوسری چیزیں، جو شوہر کی کمائی سے ہوں اور بیوی کے قبضے میں ہوں، کیا انھیںعورت کی طرف سے شوہر کو واپس کرنا ہوگا؟
2- کیا زیورات، پراپرٹی یا دوسری چیزیں، جو بیوی کی کمائی سے ہوں اور شوہر کے قبضے میں ہوں؟ کیا شوہر انھیں بیوی کو واپس کرے گا؟
جواب:
اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو شریعت اس کو اجازت دیتی ہے کہ وہ شوہر سے علیٰحدگی کا مطالبہ کرے اور شوہر کو چاہیے کہ اسے منظور کرلے۔ اصطلاح میں اسے’’ خلع‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا بیان ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ (سورۃالبقرہ: 229 )
(اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں (زوجین) حدودِ الٰہی پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیٰحدگی حاصل کرلے۔)
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں خلع کے بعض واقعات پیش آئے تھے۔ ان میں آپؐ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ عورت کو شوہر کی طرف سے جو مہر ملا ہے اسے وہ واپس کردے۔ (بخاری : 5276)
اس بنا پر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ شوہر نے عورت کو مہر میں جو کچھ دیا تھا، خلع کی صورت میں اس سے زیادہ واپس لینا اس کے لیے جائز نہیں ہے، لیکن بعض فقہاء کے نزدیک چوں کہ قرآن مجید میں خلع کی صورت میں عورت کی طرف سے صرف دینے کی بات کہی گئی ہے، کوئی مقدار متعین نہیں کی گئی ہے، اس لیے معاوضہ کچھ بھی طے ہو سکتا ہے۔نکاح کے موقع پر عورت کو شوہر کی طرف سے زیورات یا دوسری چیزوں کی شکل میں جو تحائف ملتے ہیں، علیٰحدگی کی صورت میں ان کو واپس لینا شریعت کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہے، قرآن مجید کی درج بالا آیت کا ابتدائی ٹکڑا یہ ہے:
وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئاً(سورۃالبقرہ: 229)
([طلاق کے وقت]ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔)
قرآن میں دوسری جگہ ہے:
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً أَتَأْخُذُونَہُ بُہْتَاناً وَإِثْماً مُّبِیْناً(سورۃالنساء : 20)
(اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کرکے واپس لو گے؟)
اور حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
الَّذِی یَعُودُ فِی ھِبَتِہِ کَالکَلبِ یَرجِعُ فِی قَیئِہِ (بخاری : 2589)
(جو شخص کوئی تحفہ دے کر واپس لیتا ہے ،وہ اس کتّے کےمثل ہے جو قے کرکے اسے دوبارہ چاٹ لے۔)
ان آیات اور حدیث سے استنباط کرتے ہوئے فقہاء نے کہا ہے کہ شوہر کی طرف سے بیوی کو جو چیزیں: زیورات، زمین جائیداد، پراپرٹی وغیرہ دی گئی ہوں ان کو واپس لینا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی پراپرٹی بیوی کے نام محض رجسٹری کے مصارف میں تخفیف کے لیے کروائی گئی ہو اور شوہر کہتا ہو کہ میں نے بیوی کو اس کا مالک نہیں بنایا تھا تو اسے وہ واپس لے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی کے زیورات، پراپرٹی یا دوسری چیزیں شوہر کے قبضے میں ہوں تو محض قبضہ کی وجہ سے وہ ان کا مالک نہیں سمجھا جائے گا اور بیوی کی طلب پر انھیں واپس کر دینا اس کے لیے ضروری ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی چیز دوسرے کو دے کر اسے اس کا مالک بنا دیا گیا ہو تو اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ چیز دیتے وقت صراحت نہ کی گئی ہو تو برادری کے عُرف و رواج کا اعتبار کیا جائے گا۔اگر عُرف میں تحائف ملکیت کے طور پر دیے جاتے ہیں تو انھیں واپس لینا جائز نہ ہوگا، لیکن اگر وہ صرف استعمال کے لیے دیے جاتے ہوں اور ان پر دینے والے کی ملکیت باقی رہتی ہو تو ان کو واپس لینا جائز ہے۔
٭ ٭ ٭
ویڈیو :
شوہر کی طرف سے بیوی کو جو چیزیں: زیورات، زمین جائیداد، پراپرٹی وغیرہ دی گئی ہوں ان کو واپس لینا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی پراپرٹی بیوی کے نام محض رجسٹری کے مصارف میں تخفیف کے لیے کروائی گئی ہو اور شوہر کہتا ہو کہ میں نے بیوی کو اس کا مالک نہیں بنایا تھا تو اسے وہ واپس لے سکتا ہے۔
0 Comments