دانہ پانی

تکبر اور عاجزی ،انسان کی دو ایسی خصلتیں ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ انسان کا مقام طے کرتی ہیں۔ جہاں عاجزی انسان کی ساری خامیوں کو ڈھانپ دیتی ہے ،وہیں تکبر ساری نیکیوں کو نگل جاتا ہے۔ عمیرہ احمد کی کتاب ’’دانہ پانی‘‘ انسان کی ان ہی دو خصلتوں کےاردر گردبنی گئی ایک کہانی ہے،جو مختلف لوگوں کے مختلف کردار اور ان کرداروں کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ عمیرہ احمد اسے دانہ کے تکبر اور پانی کی عاجزی کی داستاں کہتی ہیں۔ 
عمیرہ احمد پاکستان کی مشہور قلم کار اور اسکرین رائٹر بھی ہیں ۔ عمیرہ احمد کی پہلی کہانی  ’’زندگی گلزار ہے‘‘1998 ءمیں شائع ہوئی، جو انہوں نے محض اپنی  تحریر ٹھیک کرنے کے لیے لکھی تھی۔ اس کی مقبولیت کے سبب انھوں نے باقاعدہ ڈائجسٹ اور میگزینز کے لیے لکھنا شروع کیا ۔ان پچیس سالوں میں انھوں نے تقریباً تیس کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے بیش تر کہانیاں ڈراموں کی شکل میں بھی موجود ہیں۔ ’’میری ذات ذرّۂ بےنشاں‘‘ اور ’’پیرِ کامل‘‘سے انھیں بے پناہ شہرت ملی اور عمیرہ احمد کی یہ شہرت پاکستان کی سرحد کو پھلانگتے ہوئے غیر ملکی قارئین تک بھی پہنچ گئی۔ آبِ حیات، الف، ایمان امید اور محبت، عکس،حاصل اور لاحاصل ان کی کچھ مشہور کتابیں ہیں۔
دانہ پانی کی کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں’’جھوک جیون‘‘ میں بُنی گئی ہے،جہاں کےچوہدری اور ماشکی دو طبقے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ گامو ماشکی ان پڑھ اور غریب ہے، جو سارے گاؤں میں پانی پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔ اسے حق باہو کے کلام کے علاوہ کچھ نہیں آتا، جسے وہ ہر خوشی میں اور ہر غم میں پڑھتا ہے۔ وہ اور اس کی بیوی اللہ وسائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کہانی میں پانی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف تاجور ایک مالدار پیر کی بیٹی اور جھوک جیون کے چوہدری کی بیوی ہے، جو غرور اور تکبر لیے کہانی میں دانہ کاکردار ادا کرتی ہے۔
شروعات میں کہانی کی رو اچھی چلتی ہے۔ کہانی کا مزہ تب خراب ہو جاتا ہے جب یہ موضوع سے ہٹ کر ایک عشقیہ ناول میں بدل جاتی ہے۔ عمیرہ احمد کی بیش ترکہانیوں کی طرح گامو کی بیٹی موتیا بے انتہا خوبصورت لڑکی ہے، جس کے جیسا حسن سات گاؤں میں نہیں ہے۔ تاجور کے بیٹے مراد اور موتیا  کے اس طوفانی عشق کی کہانی بالکل ہی کامن اسٹوری لائن والی ادھورے عشق کی کہانی ہے۔ ہر وقت حق باہو کا کلام پڑھنے والا گامو اور دس سال اولاد کے لیے صبر کرنے والی اللہ وسائی کفر کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے آپ کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ کہانی نہ دانہ کی تھی نہ پانی کی، نہ صبروشکر کی اور نہ ہی محبت کی بلکہ یہ کہانی صرف تاجور کی تھی۔
تحریر کی زبان بالکل سادہ ہے، اور کہانی کافی حد تک Predictableہے۔ کہانی کا اختتام غیر واضح ہے۔ اگر عمیرہ احمد اس کہانی کے ساتھ کوئی تجربہ کرنا چاہتی تھیں تو کم از کم میری نظر میں یہ تجربہ(Experiment) ناکام ہے۔ Onetime Read کے طور پر یہ کہانی پڑھی جا سکتی ہے ،لیکن اگر آپ روایتی ناولوں سے ہٹ کر کچھ پڑھنا چاہتے ہیں تو کسی اور ناول کی طرف رخ کیا جا سکتا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. ستارہ بنت عبیداللہ

    بہت اچھا تبصرہ ہے۔ دانہ پانی کا کانسیپٹ کیا تھا اور یہ کہانی کیسے قارئین کے دل سے اتری ۔ پوری طرح بیان کیا ہے بشری آپ نے۔ آئندہ کے لئے امید کی جا سکتی ہے کہ اچھا کونٹینٹ پڑھنے کو ملے گا ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳