تشدد پر مبنی ویڈیوز اور انسانی نفسیات
زمرہ : ادراك

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو اور ڈیجیٹل میڈیا پر ہونے والی گفتگو کبھی کبھی ذہن کو جھنجوڑ کررکھ دیتی ہے ۔معصوم سے بچے کو جس انداز سے اسکول میں نفرت کا شکار بنایا جارہا ہے یا humiliateکیا جارہا اسے دیکھ کر دماغ کی چولیں ہل گئیں ۔
مستقل ایسی جارحیت کی ویڈیوز آئے دن وائرل ہوتی ہیں۔منی پور میں برہنہ عورتوں سے مارچ کراتی ہوئی ویڈیو ، یا اعلی ٰذات کے شخص کا کسی کو کمتر ذات کا سمجھنا، مزدوری مانگنے والے بچے پر پیشاب کرنا یا چلتی ٹرین میں معمولی سیاسی گفتگو پر اپنے ساتھی بشمول دوسرے معصوم لوگوں کو شوٹ کردینا ۔
یہ سوشل میڈیا کے کینوس پر بکھری ہوئی درد انگیز کہانیاں ہیں ۔ان جرائم کی وجوہات کیا رہیں؟ بنیاد مذہب ہے، سیاست ہے یانسل پرستی ؟ بہ ہرحال، یہ ظالم اور مظلوم کی دماغی کیفیت ہے ،ظالم و مظلوم بحیثیت انسان دونوں کی حالت قابل رحم ہے ۔نفرت کے نام پر انجیکٹ کیا گیا زہر کیسے معصوم بچوں کو کریمنل اورجرائم پیشہ بنارہاہے ،اس کو سمجھنا ضروری ہے ۔یہ ایک طرح کا سیڈ ازم ہے، سیڈ ازم کی تاریخ بہت قدیم ہے۔
رومن کیتھولک رومن ریپبلک میں نہتے قیدیوں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا۔ اسٹیڈیم میں موجود تماشائی، جو کہ عموماً نچلے طبقے کے ہوتے تھے، جوش و وحشت کے جنوں آمیز نعرے بلند کرتے تھے اور نہتے انسان کی تکہ بوٹی ہوتے دیکھتے تھے۔ اس وحشت اور بربریت کے نظارے کو آخر وہ کیوں دیکھتے تھے؟ یہ سوال آج زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس محروم طبقے کے پاس دل بہلانے کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ ان کی تفریح بس یہی خونی وحشت آمیز تماشا تھی۔ قیدیوں کی سزاؤں کو پبلک کی تفریح کا سامان بنانے اوران کی چیخوں سے حظ اٹھانےکے طرز عمل سےانسان نے اپنی حیوانی جبلت کو ابھار کر اپنی محرومی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔وہ قیدیوں کے ناخن نوچ کر ان کی چیخوںسے تسکین پاتے، پبلک اس درندگی کا نظارہ کرتی اور لطف کشید کرتی ۔
آج بھی یہ سیڈ ازم ہمارے اطراف موجود ہے۔ ایک غیر انسانی سر گرمی جو انسانوں سے لطف کشید کرنے اور محرومیوں کے خیال سے نجات پانے کے لیے ایک ابنارمل سرگرمی کہلاتی ہے ،اسے sadism کہتے ہیں۔
پہلے sadism سیڈازم کو سمجھنا ضروری ہے ۔دیویا جیکب فارم ڈی نے اپنے ریسرچ آرٹیکل میں بیان کیا ہے کہ sadism کی تعریف سب سے زیادہ براہ راست خواہش اور ارادے سے کی جاتی ہے کہ دوسروں کو (زبانی یا جسمانی طور پر) تکلیف دی جائے اور جب ان کی تکلیف کا اظہار ان کے اعضاء و جوارح سے ہوتو اس سے لذت کشید کی جائے ۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود لذتی کے لیے دوسرے کو تکلیف پہنچائی جائے۔سیڈسٹ افراد کی تماش بینی یا دوسروں کی تکلیف سے لذت محسوس کرنے کے اس مرض کو سمجھنے کے لیے ان کے مینٹل میک اپ یا ان کی محرومی کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔
اداسی کے شکار لوگ عام طور پر طاقت اور کنٹرول کی خواہش رکھتے ہیں ،جب ان کے دسترس میں یہ سب نہ ہو،تو وہ بیشتر سیاسی آقاؤں کی غلامی کی تھکن نکالنے کے لیے سیڈازم کا سہارا لیتے ہیں، ان کے لیے حیوانی لذت کا انتظام ان کے آقا فراہم کرتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ نفرت کا ہیپناٹزم ہے ۔
اس خواہش کی بنیادی وجوہات میں یہ عناصر شامل ہیں:
(1) غربت اوراحساس محرومی
( 2) ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرپانےکے بے بسی
( 3) گھریلو تشدد یا بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی
( 4) ذاتی ناکامیاں
اس سلسلے میں sadism سیڈازم کا شکار ہوکر عوام یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ انھیں ظلم کی جس راہ پر لگایا گیا، یہ ایک مرض ہے شخصیت کا منفی کردار ہے۔ اس میں ایک فرد سے لے اجتماعی سطح تک یہ نمایاں تبدیلیاں رویے میں پیدا ہوتی ہیں ،جو درج ذیل ہیں:
جہالت و لاعلمی سب سے بڑی وجوہ ہیں، دلیل کی کمی ،جب خطرہ پہنچانے ارادہ یا کسی کو پہنچاتے دیکھنے کا ارادہ ہو ،دوسرے کو نقصان پہنچانے سے خوشی محسوس ہورہی ہو ، ایسے میں ندامت کی حس ختم ہوجاتی ہے، لوگوں کی تکلیف یا ان کی جنسی سرگرمیاں ددیکھ کر لطف اندوز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔بہت سے لوگوں کودوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنا پسند ہوتا ہے ۔ دوسروں کو غلامی میں رکھنا ،ذلیل کرنے والے مہمل اور نازیبا طرز تخاطب اختیار کرنا بھی ان ہی امراض میں سے ہیں۔
ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا اور Reel culture نے ہر انسان کو سیڈازم کا شکار بنادیا ہے ۔خواتین کاپاک ڈراموں میں کسی ظالم ساس یا اس کے شوہرکے مظالم کاشوق کے ساتھ دیکھنا بھی سیڈازم کی ایک علامت ۔بگ باس میں لوگوں کےایبیوز اور گالی گلوچ کو گھنٹوں بیٹھ کر دیکھنا، وائرل ویڈیو میں منفی اور نفرت بھرے رویے بھی ہمیں بہت مایوس کررہے ہیں ۔
معصوم بچے کے ساتھ اسکول کےوسرے بچوں سے تشدد کروانا ہر فرد کے لیے تکلیف دہ ہے،لیکن ہمارے بچے بڑے سبھی تشدد کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ان محرومیوں سے نکلنے یا ان محرومیوں کا شکار افراد کو بازآباد کرنے کے لیے مثبت چیلنج اور ترقی کی راہ ہموار کرنا یا تعلیم کی راہ پر لگانا ضروری ہوتا ہے، تاہم حکومتیں اپنی حکومت کی بقا کے لیے لاعلم اور نااہل عوام چاہتی ہیں ،اسی لیے انھیںمثبت ترقی کی راہ دکھانے کے بجائے انھیںمذہبی دشمنی اور نفرت کی راہ پر لگادیتی ہیں ۔

سیڈازم کی چار اقسام ہیں:

(1)sadism Spineless
(2) Tyrannical sadism
(3)Enforcing sadism
(4)Explosive sadism
زبردست نفس پر کنٹرول کرکے یا اپنی مصروفیت کو بڑھاتے ہوئے اس مرض کا علاج خودفرد بھی کرسکتا ہے۔افسوسناک رویے کے زیادہ تر معاملات میں کسی شخص کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مشاورت اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداس شخصیت کو مکمل طور پر ٹھیک کرنے کے لیے، مریضوں کو طویل مدتی علاج سے گزرنا چاہیے۔ علاج کے ساتھ مریض کی تربیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ تھراپی اور مشاورت سے عدم تعاون اس کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔اداسی کا علاج کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ انھیں یہ دکھایا جائے کہ ان کے متاثرین واقعی ان کے اعمال سے متاثر نہیں ہیں۔ہم نفرت کے اس بازار میں نفرت پر مبنی ویڈیوز کو فاروڈ کیے بغیر ہم ،اس پر قلم اٹھائیں ۔بچوں کے جنس زدہ واقعات اور نفرتوں پر بات کونے والوں روکنے کی کوشش کریں ۔
سوشل میڈیا یا یوٹیوب پر مستقل ریل دیکھنے والے افراد میں بڑے چھوٹے بچے سبھی شامل ہیں،جو آئے دن جنسی ویڈیوز،humiliate کرنے والے اور بچوں کو assault کیے جانے والےویڈیوز جو خاص اسی مقصد سے بنائے جاتے ہیں،اس میں پر تشدد موویز اور فلم بھی شامل ہیں۔جیسے:کیرالہ اسٹوری،کشمیر فائل،بہتر حوریں۔
دیکھنے والے انھیں دیکھتے ہیں،تاہم مستقل لطف کشید کرنے دو بڑے نقصانات ہیں۔نمبر ایک،انسانی زندگی بے لطف ہوجاتی ہے،شخصیت مجروح ہوتی ہے،آنکھیں کرائم دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔انسان سوچنے سمجھنے اور سماجی تعلقات استوار کرنے کی تکنیک سے خالی ہوجاتا ہے،پھر تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔
بچوں اور بڑوں سے Empathy لیول ختم ہورہا ہے،دوسروں کے دکھ اور درد وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں۔یوں بھی دیکھا گیا کہ ایکسڈنٹ ہوجانے پر مدد کو دوڑنے کے بجائے ویڈیو بنانے پر لوگ اکتفا کرنے لگے۔
ان حالات میں بھی جب کہ ساری دنیا sadism کا شکار ہے،کچھ لوگوں نے سیلف کنٹرول کی تکنیک سیکھی ہے،چندریاں جیسے سائنٹسٹ سیلف کنٹرول کے ذریعہ تعمیری کام انجام دے رہے ہیں۔ sadism ایک پرسنالیٹی ڈس آرڈر ہے۔اس سے نکلنے کے لیے شعوری کوشش لازم ہے ۔
(1) سیلف کنٹرول کی تکنیک کو سیکھنا چاہیے،اس کےلیے بہت سے ویڈیوز مل سکتے ہیں یا کسی کاؤنسلر کی مدد سے آپ ان فضولیات سے خود کو روک سکتے ہیں ۔
(2)بچوں کو ریل دیکھنے،پرتشدد اور جنسی ویڈیوز سے روکنے کے لیے تعمیری سرگرمیوں میں مصروف رکھنا چاہیے، جیسے:چلڈرن سرکل گروپ سے جوڑنا چاہیے۔ایک گوشے میں موبائل لے کر بیٹھا ہوا بچہ ،sadism کا شکار ہونے میں دیر نہیں لگائے گا ۔
(3)گیجٹس کے استعمال سے روکنے کے لیے کاؤنسلر سے تھراپی کے ذریعہ زیادہ استعمال پر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔
(4)افراد سے ملاقاتیں بڑھانے سے بھی اس طرح کی سرگرمی ذہن کو مصروف رکھتی ہے.نوموفوبیہ (Nomophobia)سے بھی خود کو روکا جاسکتا ہے۔
(5)گھر میں موجود کسی بزرگ کی خدمت یا اجتماعات میں شرکت اور مصروفیات بھی اس ایڈکشن کو ختم کرنے میں معاون بن سکتی ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

8 Comments

  1. نام *روبینہ کوثر

    Behtreen information hai insani nafsiyaat ki…. You tube pr bhi satisfying & relaxing vdos k naam pr kaat peet tod phod btate hai.. Jis se bacho me relaxation ka amal bajaye banao k bigad ki taraf ho jata hai….

    Reply
    • Humera

      Mashallah great…
      Awareness ke liye behtareen information….let’s not fall prey in the hands of politicians and make a new India where peace,love, respect and justice prevails…. inshallah

      Reply
      • خان مبشرہ فردوس

        Shukrun jazila ya okhti

        Reply
    • خان مبشرہ فردوس

      YouTube ne to bachchon ko kahin ka nhi choda

      Reply
  2. مدیحہ عنبر

    جزاک اللہ خیر ۔ بہترین رہنمائی ❣️
    انسانی آنکھ اپنی حساسیت کھو رہی ہے۔ یوں بدلتی ہوئی ویلیوز اور اجتماعی رویے غماز ہیں انہیں کیسا کانٹینٹ دکھایا جارہا ہے
    اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      درست کہا مدیحہ انسانی آنکھ اپنی حساسیت کھورہی ہے

      Reply
  3. تسنیم فرزانہ بنگلور

    بہترین مضمون…..

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      شکریہ تسنیم صاحبہ

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳