ملت کا تعلیمی ایجنڈا : چند تجاویز [قسط : 2]
زمرہ : اکادمیا

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی مسلم ملت اپنے مقام و مرتبے کو اسی وقت حاصل کرسکتی ہے اور اس ملک میں اپنا مطلوبہ کردارتب ہی ادا کرسکتی ہے جب وہ علم کے اصل مقصد سے آشنا ہوجائے اور علم کی دوئی کو ختم کردے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل پروگرام وضع کیا جاسکتا ہے:
ملت میں علم و تعلیم کے صحیح شعور کو بیدار کرنے کے لیے مختلف النوع پروگرام کیے جائیں۔ مثلاً جمعہ و عیدین کے خطبات، سرپرستان طلبہ کے پروگرام، تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کے پروگرام، مضامین کا اجراء، کتابوں کی اشاعت، مختصر و طویل ویڈیو، سوشل میڈیا کے ذریعے شعور کی بیداری، وغیرہ۔
مدراس اسلامیہ کے ذمہ داران کے مسلسل پروگرام، تاکہ علم کی دوئی کو مدارس اور معاشرے سے ختم کیا جائے۔
مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داران پر دینی تعلیم و تربیت کو واضح کیا جائے، تاکہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔ اس کے لیے ان اداروں میں خدمات انجام دے رہے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے، تاکہ وہ دینی تعلیم و تربیت کے ہمہ جہت پروگرام جاری رکھ سکیں۔ایسے مسلم طلبہ جو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کے لیے جزوقتی مکاتب یا ویک اینڈ (Week end)اسلامی کلاسوں کا انتظام کیا جائے۔
جزوقتی مکاتب کا ایک مکمل خاکہ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ نے ترتیب دیا ہے جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک ایسے تعلیمی نظام کو اختیار کریں جو ملک کے دستوری و قانونی حدود میں رہتے ہوئے عصری و دینی علم کا حسین امتزاج پیداکرے۔ جہاں ممکن ہو ان اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور دینی مدارس میں عصری علوم کا اہتمام کیا جائے۔ اگر یہ انتظام اسکولوں اور مدارس میں ممکن نہیں ہے تو اسکولوں اور مدارس سے ہٹ کر دینی و عصری تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں۔ عصری اسکولوں کے طلبہ کے لیے الگ سے دینی مکاتب ہوں اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے الگ سے عصری علوم کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں۔
ذیل کی سطور میں ہم ان دونوں طرح کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دو پروگراموں کا تعارف کرائیں گے۔
پہلا پروگرام: عصری اسکولوں کے لیے جز وقتی دینی مکاتب
موجودہ دور میں مسلم بچوں کی دینی تعلیم و تربیت ایک چیلنج بن کر ابھری ہے۔ ہمارے ملک میں مسلم طلبہ تین طرح کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں:
ایک وہ اسکول جو حکومت کے زیر انتظام ہیں، انھیں سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ اسکول جو پرائیویٹ ادارے چلاتے ہیں۔ انھیں غیر سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اسکولوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جسے مسلم انتظامیہ چلاتی ہے،دوسری وہ ہے جسے غیر مسلم انتظامیہ چلاتی ہے۔ تیسرے دینی مکاتب و مدارس ہیں، جہاں خاص طور پر دینی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ان تینوں طرح کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا انتظام اور اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اول الذکر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا کوئی باضابطہ نظم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ دستور ہند کے مطابق سرکاری اسکولوں میں کسی مخصوص مذہب کی مذہبی تعلیم کا انتظام سرکار نہیں کرسکتی۔ البتہ طلبہ کی معلومات کے لیے مذاہب کے کلچر اور عقائد کو پڑھایا جاسکتا ہے۔ ہاں، اردو بحیثیت زبان پڑھائی جاتی ہے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اپنی دل چسپی کی وجہ سے طلبہ کی دینی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن اس طرح کا اہتمام بہت کم سرکاری اسکولوں میں کیا جارہا ہے۔ جن اسکولوں کو مسلم انتظامیہ چلاتی ہے، ان میں تھوڑی دینی تعلیم، دینی تصورات، اذکار، قرآنی سورتوں اور احادیث کو یاد کرادینے کا ( حفظ کرادینے کا ) سسٹم رائج ہے اور اسی کو دینی تعلیم کہا جاتا ہے۔
مسلم معاشرے کے ایک طبقے میں ایسے اسکولوں کی مانگ موجود ہے جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ’’ان کے اسکول میں دنیوی اور دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود ہے۔‘‘ اب اس طرح کے جملے اسکولوں کے اشتہارات کی زینت بن رہے ہیں۔ جن اسکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کیا جارہا ہے، ہم اسے غنیمت سمجھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انتظامیہ کے ان اقدامات کو سراہتے ہیں۔ تاہم ہمیں اس سسٹم کی کم زوری کو بھی سمجھنا چاہیے۔ جن اقدامات کو یہ اسکول دین و دنیا کی تعلیم کا حسین امتزاج قراردیتے ہیں، وہاں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ تر حفظ کو محور بنا کر ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کی اصل روایات میں تحفیظ قرآن اور حافظے کو اصل اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت تزکیہ، تربیت، فہم اور معرفت کے پہلوؤں کو حاصل کرنے کی ہے ،جو ایک جداگانہ تدریسی و تربیتی نظام چاہتا ہے۔ افسوس کہ یہ نظام موجودہ تعلیمی روایات سے مفقود ہوگیا ہے۔
اسکولوں اور مدارس کی درجہ بندی میں ایک گروپ دینی مدارس کا بھی ہے۔ اسلامی تعلیمی نظریے کے تحت دینی مدارس کی اہمیت، سیکولر تعلیم کا انتظام کررہے اسکولوں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ علم کے ایک بنیادی مقصد یعنی ’’معرفت الٰہی‘‘ کی تعلیم کا انتظام ان مدارس میں اسکولوں کی بہ نسبت قدرے بہتر ہوتا ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ علم کی دوئی کا شکار ہیں۔ دینی مدارس نظریاتی طور پر نہ سہی، عملًا جس رویے کو اور تدریسی عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں، اس میں آفاق و انفس کی تعلیم کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس مضمون میں اس پر گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔

جز وقتی مکاتب کا وژن

ہم نے اوپر ایک مختصر جائزہ اس بات کا پیش کیا ہے کہ مسلم نوخیز نسل کی دینی تعلیم کا ہمارے ملک میں منظر نامہ کیا ہے؟ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ اسکولوں میں دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلم بچوں کی کثیر تعداد اسلام کی بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے اور جوں جوں زمانہ گزرتا جارہا ہے، دینی تعلیم سے محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک جانب دینی تعلیم و تربیت کی کمی اور دوسری جانب ملت کی نوخیز نسل کو درپیش چیلنج بڑے شدید ہیں۔یہاں ہم صرف دو چیلنجوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
پہلا چیلنج انفرادیت پسندی کا ہے۔مابعد جدیدیت کے دور میں انفرادیت پسندی (Individualism) ایک بڑا فتنہ ہے۔ یہ اتنا شدید ہے کہ بعض اسلامی اسکالر اسے شرک بھی قرار دیتے ہیں۔ انفرادیت پسندی، فرد کو اللہ کی بندگی سے بھی دور کردیتی ہے۔ آج کے نوجوان نے اپنی سوچ کو اپنی ذات کی حد تک محدود کرلیا ہے۔ اس کی انفرادیت پسندی نے اسے خود شناسی سے بے نیاز کردیا ہے۔ چناں چہ وہ مادی فوائد و وسائل، آسائش کے ذرائع اور اشیاء کے حصول میں اپنے آپ کو گنوا رہا ہے۔ نہ اسے صلہ رحمی سے کوئی واسطہ ہے، نہ رشتے ناتوں سے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو روحانی زندگی سے جوڑنے کی کوئی فکر کرتا ہے۔ اس پہلے چیلنج کی وجہ سے خاندانوں کے تانے بانے بکھر رہے ہیں۔ سماجی رابطے اور تعلقات کی معنویت معدوم ہورہی ہے۔ اب تو بچے صبح اپنے والدین کو سلام فیس بک پر بھیجتے ہیں۔ ماں باپ کا احترام اور ان کی خدمات کا مفہوم ’’مدرس ڈے اور فادرس ڈے‘‘کی حد تک سمٹ رہا ہے۔ بچے بھی اب اپنی ’’پرائیویٹ لائف‘‘میں کسی کی بھی مداخلت کو پسند نہیں کرتے، بلکہ اس مداخلت کو اپنے اوپر ظلم سمجھنے لگے ہیں۔
دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ موجودہ مسلم نسل خود پسندی اور خود پرستی میں ملوث ہوکر نظریۂ توحید سے دور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ رویہ انسان کو الحاد کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔ آج پوری دنیا میں الحاد فرد اور سوسائٹی کو اپنے شکنجے میں جکڑتا جارہا ہے۔ نوجوان نسل غیر محسوس طور پر الحاد کی جانب راغب ہوتی جارہی ہے۔ ادھر چند برسوں سے کچھ مسلم نوجوان انٹرنیٹ پر’’ایکس مسلم‘‘کے گروپ کے تحت اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں۔ علانیہ طور پر تو چند نوجوان ہی ایسے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد الحاد کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پرمائل ہورہی ہے۔ دراصل نظریۂ الحاد مابعد جدیدیت کا ایک اہم نظریاتی ہتھکنڈہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ نئی نسل کو روحانی دنیا سے پوری طرح منقطع کردینا چاہتی ہے اور جب فرد روحانی دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیتا ہے اور روحانی دنیا کو دیو مالائی داستان سمجھنے لگتا ہے، تو پھر اس کے اخلاقی نظام کا محور تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سماج میں اخلاقیات مادیت سے جڑ گئی ہیں۔ فرد انھی اخلاق کو اپنانا چاہتا ہے، جن سے اسے مادی فائدہ اور دنیاوی سرور حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا اخلاقی نظام روحانی دنیا کے محور پر گھومتا ہے۔ اسلام جس روحانی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے وہ نظریۂ توحید پر قائم ہے۔
یہ تو حال ہے موجودہ عالمی اخلاقی بحران کا۔ تیسرا بڑا چیلنج ہمارے ملک کے حالات کا ہے۔ ہمارے ملکی حالات نے جو چیلنجز کھڑے کیے ہیں، وہ بظاہر سیاسی محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد، اخلاقی بگاڑ پر ہی قائم ہے۔ اس بگاڑ کا اظہار سیاسی میدان میں ہورہا ہے۔ موجودہ سیاسی چیلنجز مسلم نوجوانوں کو بے چین کررہے ہیں۔ مسلم نوجوان اسے ہندو مذہب سے جوڑ کر بھی دیکھتا ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے ہندو مذہب کی تعلیمات، شخصیات اور مذہبی تحریکات کابہت کم واسطہ ہے۔ بلکہ اس کا جنم ہندو نیشنلزم کے بطن سے ہوا ہے۔ لیکن عام طور پر مسلم نوجوانوں کو اس کا شعور بہت کم ہے۔ ہندو نیشنلزم کے موجودہ رویے میں اخلاقی بگاڑ اور مادہ پرستی کا اثر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مادہ پرستی ہی فرد میں یہ شوق اور اکساہٹ پیدا کرتی ہے کہ ہر ممکن ذریعے کا استعمال کرکے طاقت و قوت اور راحت و سرور حاصل کیا جائے۔ چناں چہ سماج میں اکثریت اب اس مرض کا شکار ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلم اذہان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہندو طبقہ ان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے جو غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے، جس کا ازالہ تعلیم و تربیت سے ہی کیا جاسکتا ہے ،اور اس چیلنج کا مقابلہ مسلم نوجوان اپنے بنیادی کردار میں تبدیلی پیدا کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ اس تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن ہی سے ہونا چاہیے۔ اگر پرائمری اسکول کی سطح پرہی حالات کے تجزیے کے بعد بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی کردار سازی نہ ہو تو پھر مستقبل میں مسلم ملت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسئلے کا حل ری ایکشن، غصہ، گروہ بندی، ’’ وہ اور ہم‘‘کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار اور سماج میں اسلام کے سفیر بننے سے ممکن ہے۔
ایک اور ذیلی چیلنج اسلاموفوبیا کا ہے۔ اسلاموفوبیا طلبہ کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اب اسکولوں میں ایسی حرکات و سکنات دیکھنے میں آتی ہیں ،جو مسلم طلبہ کو کبھی مایوس بھی کرتی ہیں اور کبھی ان کے جذبات بھی بھڑکاتی ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات ہمارے اسکولوں میں ہورہے ہیں۔ ان چیلنجز کے پس منظر میں ہمیں ایک متوازن، باہمت، ذہین، باشعور اور نظریۂ توحید کا ادراک رکھنے والی نسل کو تیار کرنا ہے۔ یہ کام محض طلبہ کو عبادات کے لیے تیار کرنے سے پورا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بچوں کی ایسی تربیت ہو کہ دین ان کی فکر و شعور میں داخل ہوجائے اور دین ان کی خودی کا حصہ بن جائے۔ اس کے بعد طلبہ اس فکر و شعور کی روشنی میں اپنی عملی زندگی گزاریں، اپنی ثقافت کو ترتیب دیں، اپنی جمالیاتی حس کی تکمیل کریں اور سماج میں رابطوں کو استوار کریں۔ اس کے لیے ملک بھر میں جز وقتی مکاتب کی ضرورت ہے۔
جزوقتی مکاتب کا ایک بڑا جال کیرلا میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن ملک کی دیگر ریاستوں میں جزوقتی مکاتب کی تعداد بہت کم ہے۔ ’’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘‘یہ چاہتا ہے کہ ملک بھر میں باشعور نسل کی تیاری کے لیے جزوقتی مکاتب کا ایک جال پھیلا دیا جائے۔ اس لیے کہ جن چیلنجزکا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کا مقابلہ موجودہ دینی تعلیم کے نظام سے پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن ہاں، اس طرح کے ادارے جہاں بھی قائم ہیں، وہ ہمارے تعاون اور تائید کے مستحق ہیں۔

مکاتب کہاں قائم کیے جائیں؟

جن مکاتب کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ایسے جزوقتی مکاتب مسجدوں میں قائم کیے جاسکتے ہیں، کسی ہال میں، اسکولی اوقات کے بعد اسکولوں میں، اسلامی سینٹرز میں یا پھر گھروں میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر گھروں میں گنجائش ہو تو زیادہ طلبہ کو اس میں داخلہ دیا جاسکتا ہے یا پھر ایک خاندان کے بچے ہی اس میں شریک ہوسکتے ہیں،بلکہ اگر ایک چھوٹا خاندان ہے اور ان کے ایک یا دو ہی بچے ہیں تو ان کے لیے بھی ایک گھر میں اس نظام کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی دست یاب جگہ سے لے کر بڑے ہال تک کہیں بھی ایسے مکاتب کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ جزوقتی مکاتب ہیں، صبح یا شام ان کا انعقاد ہوگا۔ اس لیے جہاں مسجد کی سہولت دستیاب نہیں ہے، وہاں ایسی جگہوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے، جہاں سہولت کے ساتھ مکاتب کی کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکے۔ اسی طرح اس کی کوئی قید نہیں ہے کہ یہ صرف شہروں میں قائم کیا جائے۔ اس نظام کو شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔ چاہے مال دار طبقات کے محلے ہوں یا پھر غریب بستیاں،ہر جگہ اس کے قیام کی گنجائش موجود ہے۔

کس عمر کے بچوں کے لیے یہ نظام ہوگا؟

اس نظام کا تعلق عمر سے کم اور بچوں کی تعلیم سے زیادہ ہے۔ ویسے اس کی جو کتابیں ترتیب دی گئی ہیں، انھیں چار یا پانچ سال کی عمر سے پڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر طلبہ آٹھ یا دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن انھیں اب تک دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکا تو ایسے طلبہ کے لیے بھی اس کورس کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم بالغان کے سینٹرز میں بھی بالغوں کو یہ کورس پڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کورس کا تعلق عمر سے نہیں، بلکہ طلبہ کے سیکھنے اور اس میں اپنے آپ کو پوری طرح لگادینے سے ہے۔

کورس کی میعاد

کورس کی کوئی متعین میعاد نہیں ہے۔ طلبہ کے سیکھنے کی صلاحیت پر یہ کورس محمول ہے۔ اگر طلبہ کورس کو تیزی سے مکمل کرلیتے ہیں تو وہ پورے کورس کو ایک سال میں بھی مکمل کرسکتے ہیں۔ فی الوقت اس کی چار کتابیں ہیں، جنھیں ترتیب کے ساتھ پڑھایا جانا چاہیے۔ بعض اسکولوں کی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ ان کتابوں کو کورس میں شامل کیا جائے۔ ان کے لیے یہ مشورہ ہے کہ یہ کتابیں ’’یو کے جی ‘‘سے پڑھائی جاسکتی ہیں۔ پہلی کتاب’’یوکے جی ‘‘کے لیے، دوسری کتاب ’’گریڈ وَن‘‘کے لیے، تیسری کتاب ’’گریڈ ٹو‘‘کے لیے اور چوتھی کتاب ’’ گریڈتھری‘‘کے لیے۔ ابھی ’’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘‘نے چار کتابیں ترتیب دی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کورس کو مزید بڑھایا جائے۔

کتابوں کا تعارف

 اسلامی درسی کتابوں کو علماء کرام اور ماہرین نے ترتیب دیا ہے۔ کتابوں کی تیاری میں طلبہ کی نفسیات، دینی ضرورتوں، موجودہ دور کے تقاضوں اور تربیتی پہلوؤں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ان کتابوں میں مندرجہ ذیل مضامین شامل ہیں:
ناظرہ قرآن، عقائد، اخلاقیات، عبادات، فقہ، سیرت، اسلامی تاریخ اور موجودہ سماجی زندگی۔
ان کتابوں میں نظریاتی باتوں کے علاوہ عملی کام بھی طلبہ کے لیے دیے گئے ہیں۔ ان عملی کاموں کے ذریعے یہ مقصود ہے کہ طلبہ میں اخلاقیات کو عملی طور پر پیدا کیا جائے۔

تدریسی عمل

ان کتابوں کو کیسے پڑھایا جائے؟ اس کی ویڈیو زیوٹیوب پر دست یاب ہیں۔ کتابوں میں دیے گئے کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے سے آپ ان ویڈیو زکو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معلمین و معلمات سے گزارش ہے کہ وہ اس خاص تدریسی عمل کو اختیار کریں جو یوٹیوب پر دکھایا گیا ہے۔ ویسے ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے اسلامیات، جزوقتی مکاتب کا اہتمام کررہے م،علمین و معلمات کے لیے ہر سال ٹریننگ پروگرام کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ انھیں تدریسی عمل کی جدید ٹیکنکس سکھائی جائیں۔

مکاتب کے اخراجات

یہ سوال فطری ہے کہ جہاں یہ مکاتب قائم کیے جائیں گے ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مکاتب کے قیام کے لیے جو بنیادی ضرورتیں ہیں، انھیں کوئی ادارہ، مسجد کمیٹی یا اہل خیر حضرات اپنے ذمے لیں یا پھر انفرادی طور پر کوئی اسے قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ ان اخراجات کی ذمہ داری اٹھائے۔ ویسے ابتدائی اخراجات بہت کم آتے ہیں۔ بنیادی اخراجات کے بعد مکاتب میں داخلے کے لیے اور کتابوں کی خریداری کے لیے مقام کے اعتبار سے فیس طے کی جائے۔ اس فیس سے جملہ اخراجات اور معلمین کی تنخواہ کا انتظام کیا جائے۔

امتحانات

ہر کتاب کی تکمیل کے بعد امتحانات کے لیے اس کا نظم ’’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘‘ کی جانب سے کیا جائے گا۔ کام یاب طلبہ کے لیے سرٹیفکیٹس جاری کیے جائیں گے۔ بعض مقامات پر اور حسب ضرورت و موقع آن لائن ٹیسٹ کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اسلامیات کے جزوقتی مکاتب کے قیام میں دل چسپی رکھنے والے حضرات مندرجہ ذیل ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہی۔ نیچے دیے گئے ای میل کے ذریعے بھی مراسلت کی جاسکتی ہے:

فون نمبر: 9818409191
[email protected]

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳