قافلے ٹھہرے ، نہ قدموں کی صدا ٹھہری ہے

مفکر اسلام مولانا مودودیؒ سن1903ءمیں پیدا ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں نے بھارت میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت کو شکست دیکر ملک کی عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا تھا۔ انگریزی سامراج نے اس زمانے میں نہ صرف ملک پر قبضہ کیا بلکہ مسلمانوں کی شریعت کو ختم کردیا۔(صرف مسلمانوں کا پرسنل لاء رہنے دیا۔)
دوسرا اہم کام یہ کیا کہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو سلب کرلیا ،اور تیسرا ان کے نظام تعلیم کو فوراً تبدیل کردیا۔انگریزی سامراج نے ملک پر قابض ہوتے ہی سب سے پہلے یہی تین کام انجام دیے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ انگریزی نظام مسلط ہوگیا۔حالات کی یہ سنگینی ایک طرف تھی، تو دوسری جانب مسلمانوں کے سر پر کئی خطرات بھی منڈلا رہے تھے،بہت سے نئے فتنوں نے جنم لیا ، کہیں فتنۂ قادیانیت نے سر اٹھایا تو کہیں منکرین حدیث کا فتنہ ،کہیں الحاد کا فتنہ تو کہیں اشتراکیت کا فتنہ ،شدھی کرن کی تحریک نے بھی اسی دوران سر اٹھایا اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو بچانا مشکل ہوگیا۔
ایسے حالات میں جو شخصیتیں دینی و ملی فریضہ کو انجام دینے میں پیش پیش تھیں، ان میں مولانا ابو الکلام آزاداور مولانا محمد علی جوہر کا نام نمایاں ہے ،ساتھ ہی علامہ اقبالؒ بھی اپنے مایۂ ناز فکری اثاثے کو ضبط تحریرمیں لا کر ملت کی فکری و نظریاتی رہنمائی میں مصروف عمل تھے ۔جب مغربی تہذیب خم ٹھونک کر دنیا پر چھانے کے لیے تیار نظر آئی تو علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے اس تہذیب نو کے غلبہ سے ملت اسلامیہ کو بچانے کے لیے اپنے قلم کی دھار سے اس رخ کو موڑنے کا کام کیا ۔اقبال اس صدی میں نہ صرف ایک عظیم شاعر اسلام تھے بلکہ بالغ نظر مفکر ،بلند پایہ فلسفی اور اسلام کے سچے ترجمان و معمار تھے ،جنھوں نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید میں نمایاں کردار ادا کیا ۔اقبال نے اس تہذیب نوی پر کاری ضربیں لگاتے ہوئے کہا کہ

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

ان حالات میں اقبال کی نگاہ دور بیں کسی ایسے مرد مومن کی تلاش میں تھی جو اس فرسودہ نظام کےبالمقابل اسلام کے نظام عدل و قسط کو پیش کرسکے۔ایسے حق پرست کے نمودار ہونے کا خواب اقبال نے آنکھوں میں سجایا جو زمانہ کا امام بن سکے ۔بالآخر برسوں کی جستجو کے بعد اقبال کی نگاہ ِاقبال نے مولانا مودودی علیہ الرحمہ جیسا امام برحق ،اور بلند افکار و نظریات کے حامل نوجوان کو ڈھونڈ نکالا ۔
اس زمانے میں شدھی کرن کی تحریک کے روح رواں سوامی شردھا نند نامی ایک شخص کو ایک مسلمان نے بڑھ کر قتل کردیا ،اس قتل کے بعد مسلمانوں کو بدنام کیا جانے لگا، پورے بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کا ایک زبردست سیلاب امڈ آیا ۔غیر مسلمین کی جانب سے اسلام کے فریضۂ جہاد پر پھبتیاں کسی جانے لگیں اور اسلام کو بدنام کرنے کا ایک بڑا ایشو ہاتھ آگیا ۔اس سراسیمگی کے عالم میں مولانا محمد علی جوہر نے خطبہ ٔجمعہ کے دوران یہ فرمایا کہ کاش کوئی اٹھے اور اسلام کے صحیح تصور جہاد کو رقم کرے ۔اس صدا پر لبیک کہنے والا جو نوجوان تھا ،وہ وہی اقبال کا منتخب کردہ اقبال مند مودودی علیہ الرحمہ ہے ،جنھوں نے محض23 سال کی عمر میں 1926ءمیں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘جیسی ایک شہرۂ آفاق کتاب لکھی، جس میں جہاد کے قرآنی تصور کو بیان کیا ۔یہیں سے مولانا مودودی کی انقلابی زندگی کا آغاز ہوا ۔
1932ءسے 1938ء،یہ پانچ سال کا دورانیہ مولانا مودودی کی زندگی کا اہم دور ہے، جس میں مولانا کی ولولہ انگیز صدا’’ ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے شروع ہوئی ۔اس میگزین کو اول دن سے بلا مبالغہ مولانا کی فکری بنیاد یا عظیم مشن کا نام دیا جاسکتا ہے ۔اپنے مجلے’’ ترجمان القرآن‘‘ میں مولانا نے ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا :’’دیوانوں کی ضرورت‘‘اس میں ایک ایسی اجتماعیت کی ضرورت کو واضح کیا جو اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہو،اور اس کی پہلی کڑی ادارہ دار الاسلام کا قیام ہے۔ 1938ء میںتحریک دارالاسلام میں چار لوگ رفیق کار بنے، جن میں مولانا صدر الدین اصلاحی اور چودھری نذیر صاحب وغیرہ شامل تھے ۔ اسی دورانیہ میں مولانا مودودی اور علامہ اقبال کی ملاقات کو تاریخ کا ایک اہم موڑ کہا جاسکتا ہے، جس میں عزم و ثبات سے سرشار دو حق کے متوالے ایک نبوی تحریک کا خواب آنکھوں میں سجائے ہم خیال و ہم نوا بیٹھے تھے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال ؒنے مولانا مودودی سے دوران گفتگو ایک ایسی اجتماعیت کی ضرورت کو ظاہر کیا جو خالص اسلام کی ترجمان ہو، اقبال علیہ الرحمہ نے کہا کہ مسلم لیگ کے نام پر تشکیل پانے والی اجتماعیت اسلام کی ترجمان نہیں بن سکتی ،اس لیے خالص اسلامی مشن کی علمبردار ایک تحریک تشکیل دی جائے ۔
چنانچہ اس ملاقات کے بعد مولانا مودودی نے ایک کتاب: ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘کے عنوان سے لکھی، جس میں ایک اسلامی تحریک کی ضرورت کو ظاہر کیا ۔اس کتاب میں درج اس ضرورت کو جن اشخاص نے قبول کیا انھوں نے’’ ترجمان القرآن ‘‘کے دفتر میں اپنے اپنے خطوط مولانا مودودی کے نام روانہ کیے ،اور اس پر اپنی شمولیت کا عندیہ ظاہر کیا ۔چنانچہ ترجمان القرآن کے پرچہ میں یہ اعلان جاری کیا گیا کہ 25اگست 1941ء =یکم شعبان کو اس تحریک کا آغاز کرنے کےلیے ایک اجتماع کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔

اہل جنوں کی آمد

25 اگست= یکم شعبان کو پچھتر افراد ہندوستان کے گوشے گوشے سے اسلامیہ پارک لاہور کی مبارک مسجد کے سامنے ترجمان القرآن کے دفتر میں جمع ہوئے ۔ (تاسیسی ارکان کی ساری فہرست دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودی کے غیر معمولی اثرات پورے ہندوستان پر مرتب ہوچکے تھے۔ ) اس دن ہر ایک نے اپنا تعارف دیا، اور تحریک سے متعلق تبادلۂ خیال ہوا ۔26 اگست =دو شعبان کو لوگ پھر اجتماع گاہ میں جمع ہوئے ۔مولانا مودودی کے ایک تاریخی خطاب سے اجتماع کا آغاز ہوا ۔ خطاب سے پہلے مولانا نے اجتماع کے پس منظر کو واضح کیا ،جو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔مولانا نے کہا کہ اس طرح آج آپ لوگوں کا جمع ہونا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں کہ ایک زور دار موج اٹھی اور جمع ہوگئی بلکہ یہ میری تیرہ سالہ کوششوں کا نتیجہ ہے ،جو میں نے ترجمان القرآن کے نام سے شروع کی تھی ۔ اس جملہ کے اندر مولانا کے سچے خوابوں کی تعبیر ہے ، ایک موج کے دریا بننے کی طاقت کا پیغام ہے ، اور آج 80 سال ہوئے یہ دریا رواں دواں ہے جو 26 اگست 1941کو لاہور کے اس تاسیسی اجلاس سے بہہ نکلاتھا۔ آج بھی اس میں اٹھنے والی ہر موج مثالی، اور ہر لہر سوز دروں سے بلند فوارہ بننے کی طاقت رکھتی ہے۔الحمدللہ

راہ دشوار ،سحر دور، گھنی شب لیکن
قافلے ٹھہرے ، نہ قدموں کی صدا ٹھہری ہے

 چھبیس اگست تاسیس جماعت سے لےکر اب تک، الحمدللہ بانی جماعت مودودی کا کارواں نہ رکا ہے نہ رکے گا ،یہ آواز مشن کے سچے محسن کی آواز تھی، اس لیے صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ

’’وہ‘‘ اکیلا ہی چلا تھاجانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

(حوالہ جات: ترجمان القرآن ،مضمون :آباد شاہ پوری ، روداد جماعت اسلامی حصہ اول،کتاب: تاریخ دعوت و جہاد،تقریر :ایس امین الحسن )

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


آج 80 سال ہوئے یہ دریا رواں دواں ہے جو 26 اگست 1941کو لاہور کے اس تاسیسی اجلاس سے بہہ نکلاتھا۔ آج بھی اس میں اٹھنے والی ہر موج مثالی، اور ہر لہر سوز دروں سے بلند فوارہ بننے کی طاقت رکھتی ہے۔الحمدللہ
راہ دشوار ،سحر دور، گھنی شب لیکن
قافلے ٹھہرے ، نہ قدموں کی صدا ٹھہری ہے
چھبیس اگست تاسیس جماعت سے لےکر اب تک، الحمدللہ بانی جماعت مودودی کا کارواں نہ رکا ہے نہ رکے گا ،یہ آواز مشن کے سچے محسن کی آواز تھی، اس لیے صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ
‘‘وہ’’ اکیلا ہی چلا تھاجانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

Comments From Facebook

1 Comment

  1. نام *تحسین عامر

    بڑے ہی سخت حالات میں، انتہائی قربانیوں کے بعد ایک منظم صالح اجتماعیت . قائم ہوئی۔الحمدللہ۔ خوشی ہوتی ھیکہ ہم اس اجتماعیت کا حصہ ہیں۔
    اللہ کریم اسے ہر اندرونی و بیرونی شر سے محفوظ رکھے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳