دھندلکے کے اس پار سے
آتی ہے اک صدا
جب رؤئے زمیں پہ کہیں
یہاں کے کئی مکیں
دلِ سوختہ کو سمیٹے
کسی ناکام شام کے مناظر میں کچھ کھوجتے ہیں
شاید کہ کوئی ساز مسرتوں کا سنائی بھی دے کہیں۔
ایک آس کی کرن کو دھندلکے کے اس پار
نگاہوں کے بے سکوت سمندر میں ٹمٹماتے ہوئے تم دیکھ سکتے ہو
مسرتوں کے راز کھوجتی ان نگاہوں کو تم دیکھ سکتے ہو
تم دیکھ سکتے ہو کہ وہ دور سے آتی ایک صدا بے چین نگاہوں کی یاسیت میں اپنا وجود ڈھونڈتی ہے
تم دیکھ سکتے ہو کہ ان منتظر نگاہوں میں واضح ہے چونک جانے کا اثر
صدا ہے کہ نوائے زندگی ہے ؟
چشم یاس میں دوڑی ہے زندگی کی رمق
بنا دل وہ آتش کدہ کہ جس میں
سرد جذبات زیر آتش سلگتے رہے
دیر تلک شب خموشاں میں
وہ دو رازدار آنکھیں
ان آنکھوں میں ہے تمام عمر کی سرگزشت
سرگزشت جس کے چند سطور مٹتے جارہے ہیں
ان مٹتے نقوش میں ہے دیباچہ ٔحیات کا
گم گام وہ گم راہ زندگی
مٹتی گئی۔
ژولِیدَہ سر شکستہ وجود، یہ نظّارۂ تخریب کاری
ہے تجدیدِ ذات کا پہلا قدم
تم دیکھتے ہو کہ
شب یاس کی سرکتی ساعتیں
لکھا رہی ہیں نیا دیباچہ حیات کا
کہ جس میں ہے مقصد زندگی کے کچھ ان مٹ نقوش
صدائے بلند زندگیٔ نو کا نوشتہ ساتھ لائی
یخ بستہ وجود میں زندگی لوٹ آئی
٭ ٭ ٭
0 Comments