ٹی ٹائم
زمرہ : ٹی ٹائم

الو

مولانا ابوالکلام آزاد نے جب مشہور زمانہ اخبار ’’الہلال‘‘ کا اجراء کیا تو اس میں کچھ تند و تیز تحریریں لکھ ڈالیں، جو ناز ک مزاج قارئین کو پسند نہیں آئیں۔
چنانچہ ایک صاحب نے مولانا کو خط میں لکھا:
’’مولانا صاحب! اپنی تحریروں سے آپ اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
مولانا نے جواب میں فرمایا:
’’جناب! آپ نے درست کہا۔میری تحریر سے اگر ایک بھی ’’الو‘‘ سیدھا ہو جائے تو شکر کروں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔‘‘

ملکیت

محمد بن عُروہ یمن کے گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے۔ لوگ استقبال کے لیے امڈ آئے۔لوگوں کا خیال تھا کہ نیا گورنر لمبی چوڑی تقریر کرے گا ۔محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی۔ وہ جملہ یہ تھا:
’’لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت ہے، اس سے زیادہ لےکر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے۔‘‘
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا۔ محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا۔ جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورا کرکے واپس پلٹ رہے تھے ،لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے۔ لوگوں کا جم غفیر موجود تھا، امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے،لیکن محمد بن عروہ نے اس وقت بھی صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی۔ وہ جملہ یہ تھا:
’’لوگو! میری یہ سواری میری ملکیت تھی، میں واپس جا رہا ہوں، میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

شفا بخش

چور نے چینی کی بوری چرائی اور حادثاتی طور پر کنویں میں گر گیا۔ لاش نکالی گئی تو کنویں کا پانی میٹھا تھا۔ ساتھ ہی قبر پر چڑھاوے چڑھنے لگے اور کنویں کا پانی شفا بخش قرار پایا۔

شکل

افریقی ملک صومالیہ میں سموسے پر پابندی ہے کیونکہ وہاںموجود’’ الشباب گروپ‘‘ کے مطابق اس کی شکل عیسائیوں کے ایک مذہبی علامت سے ملتی جلتی ہے۔

تحریریں

نسیم حجازی کے ناولوں کے بارے میں کسی نے مولانا مودودی سے ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے جواب دیا :
’’ان ناولوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مسلمان باپ اپنی مسلمان بچیوں کے سامنے بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے، اور انھیں پڑھ کر سنا سکتا ہے۔‘‘
نسیم حجازی کے بھتیجے ظفر حجازی بتاتے ہیں کہ میری موجودگی میں لاہور سےاسلامی جمعیۃ طلبہ کے چند نوجوان چچا جان سے ملنے آئے۔ ایک نوجوان نے ان کا ہاتھ چومتے ہوئےکہا:
’’حجازی صاحب !ہماری شیرازہ بندی ضرور مولانا مودودی کے ہاتھوں ہوئی ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری رگوں میں دوڑنے والا خون گرم صرف آپ کی تحریریں کرتی ہیں۔‘‘
نسیم حجازی مسکرائے اور کہا:
’’برخوردار! ایک فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا۔ مولانا مودودی کی تحریریں پڑھ کر نسیم حجازی تو پیدا ہوسکتا ہے، مگر نسیم حجازی کی تحریریں پڑھ کر شاید کوئی مولانا مودودی پیدا نہیں ہوسکتا۔‘‘

پاسنگ مارکس

 برصغیر ہندوپاک میںمیٹرک کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا، اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں ،اس لیے ہمارے پاس ’’پاسنگ مارکس‘‘ 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم اب بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

پچیس لفظوں کی کہانی
 بوجھ

آفاقی صاحب کےلیے بیٹی ہمیشہ بوجھ رہی۔ آج سالوں بعد ملے، پوچھا: ’’رہ کہاں رہے ہیں ؟‘‘ ’’ بیٹوں نے گھر سے نکال دیا تھا، اب بیٹی کے یہاں ہوں۔‘‘

-احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Tasleem

    Masha Allaah
    Bahot khub hai ye
    Shifa wala Pani aur ullu sidha karna ….
    Masha Allaah

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳