محبت دراصل ہے کیا چیز؟محبت وہ کہ جس میں انسان اپنے محبوب کی پسند کو اختیار کرتا چلا جاتا ہے، اور اسی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے، اس کی اتباع کرنا چاہتا ہے۔ محبت میں اتباع اورپیروی کی جاتی ہے۔ہر آن یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ میری کسی ادا اور کسی فعل سے میرے محبوب کو تکلیف نہ ہو، اور میرا کوئی فعل و عمل میرے محبوب کی ناراضگی کا سبب نہ بنے۔اسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میرے لاشعور میں حفیظ جالندھری کا شعر نمودار ہوا:
محمد(ﷺ) کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور پوری انسانیت سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔(بخاری و مسلم)
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی ٰعنہ کا ایمان رسولﷺ سے عقیدت،محبت اور اتباع کا معاملہ بہت ہی اعلیٰ قسم کا تھا۔ ایک ایک عمل و ادا سے جاں سپاری و جاں نثاری کا ثبوت دیا۔ آپ ﷺ سے محبت کے تقاضوں میں یہ بھی ہے کہ کسی بھی طرح آپ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں ان کے اوپر لعنت کو مسلّط کررکھا ہے،اور ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘
لہٰذا ،اگر کوئی آپ ﷺ کو تکلیف پہنچائے تو اسے بہر صورت روکا جانا چاہیے۔اسلام کی تاریخ رسول اللہ ﷺ کے دیوانوں کی محبت آمیز داستانوں سےپر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص محمدﷺ سے محبت رکھتا ہے اور مسلمان ہونے کا لازمی تقاضا حُبِّ رسولﷺ ہے۔بقول علامہ اقبال:
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت کا وہی معیار معتبر ہے جس میں ہم قدم بقدم آپ ﷺ کی اتباع کرنے والے ہوں۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ سنت رسول پر عمل سے عبارت ہو۔اطاعت کے بغیر محبت کا دعویٰ صرف ایک ڈھونگ اور فریب ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللٰه
ُ(اے نبیؐ ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔)(سورۃ آل عمران، آیت: 31)
محمدﷺ اپنی امت سے محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے محبت کا ہر حق ادا کیا، یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری وقت میں بھی امت کی فکر کی ،میدان حشر میں بھی سارے نبی ’’نفسی نفسی‘‘ کہیں گے مگر خاتم النبیین محمدصلی اللہ علیہ وسلم امتی امتی کہیں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال وہ نہیں جو محب کے ہونے چاہئیں۔ چند ظاہری اعمال ایمان کا اصل معیار بن چکے ہیں اور بڑے بڑے اخلاقی اعمال نا قابلذکرہو گئے ہیں۔ ہر کوئی اپنا مفاد اپنا بچاؤ سب سے پہلے رکھتا ہے ، چاہے اخلاقیات کتنی بھی پامال کیوں نہ ہو جائیں۔ لوگوں سے نفرت، کینہ، بغض، عداوت، چغل خوری، جھوٹ، الزام تراشی، بہتان، حسد اور تکبر کا شکار ہوتے ہیں، مادیت کے دوڑ میں ہر شخص لگا ہوا ہے اور مغرب سے مرعوب نظر آتا ہے۔ اگر احتساب کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارا ہر قول اور فعل محبت کے دعوے سے دور چلا گیا ہے۔ جس شمع کو تھام کر رہنا چاہیے تھا وہ پیچھے رہ گئی اور ہم کہیںہیں اور نکل آئے ہیں۔
رہ گئی رسمِ اذاں رُوحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
حاصلِ کلام یہ کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو جزو زندگی بنا کر اپنے قول،فعل اور عمل کے ذریعے اس کا ثبوت دیا جائے۔ ان تمام اعمال سے بچا جائے جس کے ذریعہ حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کمی کا امکان ہو۔ عقائد، عبادات، معاملات، روحانیات، اخلاقیات، معاشیات،سیاست ؛الغرض تمام پہلو جس کا انسان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی سے تعلق ہو ،ہر جگہ اسوۂ رسول ہمارے پیش نظر ہو،کیونکہ یہی معیار محِبِّ رسولﷺ سے مطلوب ہیں۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
٭ ٭ ٭
0 Comments