درس قرآن
زمرہ : النور

أََعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ  ۙ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ ۞اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ ۞

ترجمہ

(اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔پس صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو ،ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے ،
تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جا نا ہے ،ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،
اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔)(سورۃ البقرہ،آیت: 155تا157)

انسانی زندگی میں قدم قدم پر آزمائش ومصائب ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و مصائب سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا ستایا جانا اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا شہید کیا جانا ؛یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔لہٰذا ہر مسلمان کوچاہیے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اذیت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے ۔
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
’’بہت موٹی سی بات ہے، جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب( اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے ،تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ وہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا(استقبال کرتے ہیں ) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو )صبر و استقلال سے کام لیں اور جزع و فزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ جانےدیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ آمدشدہ مصیبت بے صبری سے ٹلنے والی نہیں ۔‘‘
چونکہ انسان کو اس زندگی میں مختلف پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے، وہ ان مصائب کو کیسے برداشت کرے اور کس طرح ان مسائل سے چھٹکارے اور نجات کی راہ اپنائے؟ان مصائب کو برداشت کرنے اور ان کو آسان تربنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لیے ہر وقت یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیادار الامتحان ہے، یہ دائمی گھر نہیں ہے، یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارالجزاء ہے، وہاں بدلہ ملے گا۔مزدور صبح سے شام تک محنت و مشقت، کسان کاشتکاری کر کے تمام تکالیف، سردی کی شدت،دھوپ کی حدت اور عمل کی محنت اس لیے برداشت کرتا ہے کہ مزدور کو شام ڈھلنے پر اجرت کی امید اور کسان کو کٹائی کے وقت پھل کی توقع ہوتی ہے۔مومن بھی دین پر عمل کی راہ میں مصائب کی بھٹیوں میں اپنے آپ کو اس لیے جلاتا ہے کہ اسے گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوکر دخول جنت کی توقع ہوتی ہے، آخرت کے آرام وراحت اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے مصائب، بلکہ یہاں کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی نعمت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
اللہ کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے،اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ’’قید خانہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانے میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔جب مومن آزمائش سے صبر کے ساتھ گزر جاتا ہے تو اس کے فکر و عمل میں صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تکلیف اور آزمائش سے گزر کر ہی انسان کندن بنتا ہے۔ جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ دار ہو گا، اسے اسی قدر ابتلاء و آزمائش سے گزرنا ہو گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔‘‘(الصحیح للبخاری ، کتاب المرضی )
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کو جو تکلیف ،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘
(الصحیح للبخاری ، کتاب المرضی)
خلاصہ یہ کہ آزمائش میں صبر کے ذریعے شخصی ارتقاء ،فکروعمل میں پختگی اور استقامت کا حصول ہوتا ہے، مزید اجر وثواب کا باعث بھی اور بندہ جب صبر و عزیمت و استقامت کے مقام کو پالیتا ہے تو مصائب کی آمد پر بے ساختہ پکار اٹھتا ہے :
’’ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ

(وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے۔)
اس سے پہلی آیت میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں، وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :میں نے سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق :

’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّااِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ 

 پڑھے اور یہ دعا کرے:

 ’’اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ‘‘

(اے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ۔)
تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بہتر کون ہو گا؟ وہ تو پہلے گھر والے ہیں جنھوں نے حضور پر نور صلی اللہ تعالی ٰعلیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ بہر حال میں نے یہ دعاکہہ لی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عطا فرما دیا۔ (جو کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت بہتر تھے۔)(مسلم، کتاب الجنائز)
حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت آئی اور وہ اسے یاد کر کے:

 ’’اِنَّا لِلٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘  کہے،

اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اُس پر نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن دیا تھا جس دن مصیبت پہنچی تھی ۔‘‘
(مسند احمد)

 ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے ’’اِنَّا لِلٰهِ وَ اِنَّااِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔ عرض کیا گیاکہ کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا: ’’جی ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔‘‘

عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ کُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَيْرًا لَهُ

(حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مومن بندہ کا معاملہ بھی عجیب ہے، ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے خیر ہی ہے۔‘‘(مسْلِم،احمد)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ خوشخبری سناتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے عنایات ہوں گی ۔ یہاں صابرین کے لیے لفظ صلوات استعمال کرکے گویا صابرین کو ا ن عنایات میں شریک کردیا گیا ، جو اللہ اور اس کے فرشتے نبیوں پر بھیجتے رہتے ہیں ۔ کیا ہی بلند مقام ہے !کیا فیضان رحمت ہے کہ خود اللہ گواہ ہے کہ مصائب میں صبر کرنے والے ہی دراصل صحیح معرفت رکھتے ہیں اور صحیح راہ پر گام زن ہیں ۔
مصائب وشدائد ، قتل وشہادت ، جان ومال کا نقصان ، بھوک و افلاس اور خوف وخطر اور دوسری مشکلات ،اللہ ان تمام مصائب اور مشکلات کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں ، جب کہ دوسری طرف صرف ایک بات ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات ، اس کی جانب سے رحمت کے مستحق ہیں اور یہ اعلان کہ دنیا میں یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

اللہ کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے،اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ‘‘قید خانہ’’ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانے میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔جب مومن آزمائش سے صبر کے ساتھ گزر جاتا ہے تو اس کے فکر و عمل میں صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تکلیف اور آزمائش سے گزر کر ہی انسان کندن بنتا ہے۔ جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ دار ہو گا، اسے اسی قدر ابتلاء و آزمائش سے گزرنا ہو گا۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. شیخ فیضان نبی

    بہت ہی عمدہ تحریر۔ حوصلہ بڑھانے والی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳