UCC لمحے فکر

1937ء میںمسلم جماعت کے اصرار پرشریعت ا یپلیکیشن ایکٹ(Shariyat Application Act)منظور کیا گیا۔جب 1952ءمیں دستورِ ہند نافذ ہوا تو اس میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی،ضمیر کی آزادی اور ثقافتی آزادی دی گئی اور یہ بنیادی حق (Fundamental Right)قرار پایا۔
اگر ہم دستور کی دفعات25,26,29 دیکھیں تو بنیادی طور پر یہ چیز منظور کی گئی،لیکن اِسی دستورِ ہِند میں رہنما اصول کے تحت دستور کی دفعہ 44بھی ہمیں نظر آتی ہے، جس میں یہ کہا گیا کہ حکومت اِس ملک میں پورے ملکی سطح پر تمام مذاہب کے لوگوں کے لیےیکساں سول کوڈ(UCC)لانے کی کوشش کرے گی۔ اُس وقت اُس اسمبلی میں جب یہ مسئلہ زیر بحث تھا، اُس اسمبلی میں شریک مسلمانوں نے یکساں سول کوڈ(UCC)کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ یا تویکساں سول کوڈ (UCC)کو ختم کیا جائے یا مسلمانوں کو اِس سے مستثنی قرار دیا جائے، لیکن اُس موقع پر مسلمانوں کویہ یقین دلایا گیا کہ کوئی بھی حکومت مسلمانوں کی مرضی کے بغیر اِس ملک میںیکساں سول کوڈ(UCC) لانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ہی یہ مسئلہ مختلف حکومتوں کےذریعہ سامنے لایاجاتا رہا کہ پورے ملک کے لیے حکومت یکساں سول کوڈ  (UCC) لائے گی۔
یہ مسئلہ ملکی سطح پر مسلمانوں کے لیے بے چینی کا باعث اُس وقت بنا جب1972ءکی حکومت میں اِندرا گاندھی کی حکومت نےمتبنّی بِل (Adoption Act)منظور کرنےکے لیے پیش کیا اور جس میں یہ کہا گیا کہ تمام مذاہب کے بچوں کو اگرگود لیا جائے گا اِنھیں متبنّی بنایا جائے گا تو اِن کی حیثیت حقیقی اولاد کی ہوگی، اور وراثت میں اِن کے وہی حقوق ہوںگے جو حقیقی اولاد کے ہوتے ہیں۔اُس وقت مسلمانوں کی طرف سے غم و غصّے کا اظہار کیا گیا،احتجاج کیا گیا،اور ملکی سطح پر تمام مکاتبِ فکر کی مسلم جماعتیں اور ان کے ذمّہ داران جمع ہوئے،ایک بہت بڑا اجلاس ہوا اوراُس موقع پرآل اِنڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ(All India Muslim Personal Law Board)کے قیام کا فیصلہ ہوا،لیکن جیسے ہی ممبئی میں مسلمانوں کی طرف سے یہ مشترکہ آواز اُٹھائی گئی ،وزیرِ اعظم نے یہ اعلان کیا کہ یہ حکومت یکساں سول کوڈ (UCC)کو لانے کی کوشش نہیں کرے گی،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی جو عدالتیں ہیں، چاہے وہ ہائی کورٹ(High Court) ہو یا سپریم کورٹ(Supreme Court)،اِن میں یہ مسئلہ مختلف عنوانات کے تحت زیرِ بحث ہے،چاہے وہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا دیگر مذاہب سے متعلق،کہیںنہ کہیں کسی نہ کسی طریقے سے حکومت سے مطالبے ہوتے رہتے ہیں کہ وہ اِس ملک میں یکساں سول کوڈ(UCC) کو لاگوکرے۔
﴿یکساں سول کوڈ(UCC) کی جو وکالت کی جاتی تھی، اِس کے پیچھے دو بنیادیں تھیں، پہلی تو یہ کہ دستورِ ہند کے اندر دفعات14,15اور21میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی طبقات قانون کی نگاہ میں برابر رہیں گے،دوسری یہ کہ مذہب،نسل،جنس اور مقامِ پیدائش کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں ہوگا تفریق نہیں ہوگی ،اور ہر شخص کو یہاں پر شخصی آزادی حاصل ہوگی، زندگی گزارنے کامساوی حق ملے گا۔
Gender Justiceکے نام پریہاں پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ مسلم عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے،وراثت میں اُنھیں برابری کا حق نہیں ملتا،شہادت میں بھی اُن کی گواہی آدھی مانی جاتی ہے،یہ کہا جاتا رہا کہ جنس کی بنیاد پر سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اوریکساں ںسول کوڈ (UCC) نافذ ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے ہیں، اُن میں اگر ہم دیکھیں تو یہ کہا گیا ہے کہ دستورِ ہند کی دفعہ25میں مذہب و ضمیر کی آزادی کی بات کہی گئی اورFundamental Rightکی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذہبی آزادی کا تعلق عقائد اور عبادات سے ہے۔آپ وہ عقیدہ رکھیں جو آپ کے مذہب کا ہے، اور آپ اپنا مذہبی طریقۂ کار بھی اختیار کیجیے یہ آپ کاFundamental Rightہے، لیکن تعدّدِازواج،عائلی قوانین یا پرسنل لاز میں حالات کے حساب سے تبدیلی آتی رہتی ہے، اِس لیے مسلمانوں کا اِس کی مخالفت کرنا نامناسب ہے۔
خیر، یہ بات اُس وقت کی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ نام نہاد ہی سہی،Secular Governmentتھی۔1965ءمیں جب ہِندو کوڈ بِل منظور کیا گیا تھا، اُس وقت ہِندوؤں کے مختلف  طبقات کی طرف سے مخالفت کی گئی ی،اورہ کہا گیا کہ ہِندو کوڈبِل نہ لایا جائے، ہمارے یہاں کے تنوع(Diversities)کو باقی رکھا جائے، تب ہِندو طبقات کو یہ کہہ کر یقین دلایا گیا کہ جس طرح آپ کے لیےہِندو کوڈ بِل لایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے لیے بھی ﴿یکساں سول کوڈ(UCC) لایا جائے گا اُنھیںاِس کاحصہ بنایا جائے گا۔
اِس ملک میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہےاور اقتدار میں آنے سے قبل ہی بی جےپی نے ان تین باتوں کو اپنا منشور(Manifesto)بنایا:
پہلی یہ کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر،دوسری یہ کہ دستورِ ہند کی دفعہ370کی منسوخی، یعنی دستور کی دفعہ370کے تحت کشمیر کو جو اِسپیشل اِسٹیٹس(Special Status)دیا گیاہے اس کو ختم کرنا،اور تیسری یہ کہ اِس ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لیےیکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرنا۔بہرحال ،بی جےپی کے منشور میں یہ تین باتیں بہ تدریج مسلسل طور پرآتی رہیں۔ظاہر ہے کہ اِن کے منشور کی پہلی دو باتیں پوری ہوگئیں۔اِنھوں نے بابری مسجد کے مقام کو حاصل کرکے وہاں پر رام مندر کی تعمیر شروع کردی، اور ساتھ ہی جب وہ اقتدار میں آئی تو دستورِ ہند کی دفعہ370کو بھی منسوخ کر دیا،اب باقی ہے اِس ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لیےیکساں سول کوڈ(UCC)نافذ کرنا۔
اب ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی بی جے پی تمام مذاہب کے لوگوں کے لیےیکساں سول کوڈ(UCC) کو لانا چاہتی ہے؟ تو ہمیں اِسے اِس پہلو سے دیکھنے کی کوشش کرنی ہےکہ بی جے پی کا بنیادی مسئلہ یہ    بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کی جو دینی شناخت یا مذہبی شناخت ہے، اُس کو ختم کرنا چاہتی ہے اور بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ اُن کامسلمانوں کا جوپرسنل لاء ہے ،یہ مسلمانوں کو ایک شناخت(Identity) فراہم کرتاہے، اُن کی ثقافتی اور مذہبی آزادی کی ایک علامت(Symbol) ہے ،اور اُن کے اس پرسنل لاء میں بعض ایسی چیزیں ہیں جو اِس ملک کے دیگر مذاہب یا طبقات کے لیے اپنے اندر ایک کشش(Attraction) رکھتی ہے۔ بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ اگر ہم یکساں سول کوڈ(UCC) لا کر مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ختم کردیں تو اُن کی دینی شناخت ختم کرنے کے راستے میں ایک قدم آگے کی طرف بڑھ جائیں گے ۔
اگر وہ اِس ملک میںیکساں سول کوڈ(UCC) لاتے ہیں تو پہلےتو یہ کہ اِس کا ایسا مسودہ تیار کرنا جو قابلِ قبول ہو، یہ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ تمام مذہبی لوگوں کے لیے جو اپنی اپنی ایک مذہبی شناخت رکھتے ہیں، یا ان کے مذہبی قوانین اور کچھ ریتی رواج ہیں۔اِن کو چھیڑنا اور ایک طرح کی بے چینی پورے ملک میں پیدا کرنا، یہ اُن کے لیے بالکل مناسب نہیں ہوگا ،تو بی جے پی کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کےپرسنل لاء کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
اب شاید ہمارے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ بی جے پی نے اُتراکھنڈ اور گجرات کی اسمبلی کے ذریعے یکساں سول کوڈ(UCC)پر کمیٹی کیوں بنائی اور اُس کو کیوں تفویض(Assignment)کیا کہ وہ یکساں سول کوڈ(UCC)کا مسودہ تیار کرکے پیش کرے،اور پھر چند دن پہلے راجیہ سبھا کے اندرپرائیویٹ ممبر بِل(Private Member Bill)بھی لایا گیا جوبی جے پی کے ہی ایک ممبر نے داخل کیا۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت یکساں سول کوڈ(UCC) کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہے، لیکن وہ راجیہ سبھا کے اندرپرائیویٹ ممبر بل پیش کرکے ہمیں یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ(UCC)کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور ریاستی حکومتیں بھی اِس معاملے میں پیش رفت کر رہی ہیں۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر یکساں سول کوڈ(UCC) لانا ہے تو پورے ملک کی سطح پر لانا ہوگا ،وہ کوئی ریاستی اسمبلی نہیں لا سکتی بلکہ اِسے پارلیمنٹ(Parliament) لا سکتی ہے، اور اگر حکومت اِس معاملے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اِسےپرائیویٹ ممبر بِل پیش کرنے کے بجائے لوک سبھا کے اندریکساں سول کوڈ(UCC) پر ایک بِل پیش کرنا چاہیے تھا۔اِسی درمیان حکومت بار بار لاء کمیشن(Law Commission) سے بھی یہ کہہ رہی ہے کہ وہ کوئی مسودہ تیارکرکےدے ،اِس سے پہلے غالباًجب نریندررمودی کی حکومت تھی، لاء کمیشن نے اِس سلسلے میں مسلم جماعتوں سے ملاقاتیں کی تھیں، اور اُن سے کچھ سوالات کیے تھے اِن مسلم جماعتوں کی طرف سے الحمدللہ کافی مدلل جوابات دیے گئے۔اُس کے بعد لاء کمیشن کی یہ رپورٹ آگئی تھی کہ اگلے10 سال تک یکساں سول کوڈ(UCC) لانے کا ضرورت نہیں ہے۔ابھی لاء کمیشن کا کوئی چیئرمین(Chairman) بھی نہیں ہے، لیکن حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ کوئی مسودہ تیار کرکے دے۔
یہ جتنے بھی اقدامات ہورہے ہیں، بی جے پی ہی کر یا کروا رہی ہے۔راجیہ سبھا کے اندرپرائیویٹ ممبر بِل پیش کرنا یا اُتراکھنڈ اور گجرات کی اسمبلیوں میں اس طرح کی کمیٹی بنانا۔ اس میں دو چیزیں ہیں،ایک تو یہ کہ لوگوں کو ،بالخصوص ہِندو طبقات کو یہ یقین دلایا جائے کہ بی جے پی اس معاملے میں سنجیدہ ہے یعنی یکساں سول کوڈ(UCC) لانا چاہتی ہے۔دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بی جے پی ہم سےمسلمانوں سےیہ چاہتی ہے کہ ہم یکساں سول کوڈ(UCC) کی فوری طور پر مخالفت کرے اور اِس سے یہ ثابت ہوکہ ﴿یکساں سول کوڈ(UCC) لانے سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، وہ صرف مسلمان ہے، اور یہاں کی ہِندو اکثریت کویہ احساس دلایا جائے کہ بی جے پی مسلمانوں کی دینی شناخت ختم کرنے کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔
اب یہ جو خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ بی جے پی نے راجیہ سبھا میں بِل کیوںپیش کیا؟ اِس لیے کہ پارلیمنٹ میں اگر کوئی بِل پیش کیاجائے لیکن لوک سبھا میں اِس بِل کی مدّت ختم ہوجائے تو اس بِل کی مدّت ختم ہوجاتی ہے، قانون اگر نہیں بنتا تو وہ بِل ختم ہوجاتا ہے، لیکن اگر راجیہ سبھا میں کوئی بِل پیش کیاجائے تو چونکہ راجیہ سبھا مسلسل چلتی رہتی ہے ،اُس کی مدّت ختم نہیں ہوتی، اُس میں کوئی بھی بِل پیش کیاجائے تو وہ بِل تب تک باقی رہتا ہے جب تک کہ اُس بِل کو منظور نہ کیا جائے۔اِس لیے بی جے پی نے راجیہ سبھا کے اندر بِل پیش کیا۔بی جے پی مسلمانوں کوایسا دکھانا چاہتی ہے کہ وہ اِس معاملے میں بہت سنجیدہ ہے،اِس لیےکہ یہ حکومت اِس معاملے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے کیوں کہ وہ یکساں سول کوڈ(UCC) کو مسئلہ بناکراِس پر ہمارامسلمانوں کا رِی ایکشن(Reaction) دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم اِس کی اگر مخالفت کرتے ہیں تو کیسے؟احتجاج کرکے؟کیا سڑکوں پر آکر؟مہمات چلا کر؟ریلی نکال کر؟
یہ حکومت ہمیں نظر میں رکھنا چاہتی ہے،ہمارے مسائل کے بارے میں معاشرے کو بتانا چاہتی ہے،حتی کہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ ہم اِس ملک کے لوگوں کے ساتھ مل کر چلنا نہیں چاہتے۔ بہرحال، یہ اُن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کا اِس مسئلہ پر یا حکومت کے اِس عمل پر ان کا کیا ردّعمل ہوتا ہے۔
تو اب مسلمانوں کوکیا کرنا چاہیے؟ہمیں اِس مسئلے کومذہبی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ،کیوں کہ یہ بات بالکل واضح رہے کہ یہ مسئلہ یکساں سول کوڈ(UCC) ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ہمارے لیے ہی نہیں ،ملک کے دیگر مذاہب یا طبقات کے لوگوں کے لیے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ ایسے میں ہم سڑکوں پر نہ آئیں،جذباتی نہ بنیں،اِس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔اِسے علماءودانشوران پراورمسلمانوں کے لیے چوں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کےنام سے الحمدللہ ایک متحدہ پلیٹ فارم دستیاب ہے، تو اِس کے ذمّہ داران پر چھوڑ دیں۔یہ جذباتی ہونے اور سڑکوں پر لانے کا مسئلہ نہیں ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیاگیاکہ حکومت تو چاہتی ہی یہی ہے کہ مسلمان جذباتی ہو، احتجاج کرے ،اِس مسئلےکو ریلی اور دھرنے کے ذریعے سڑکوں پر لائے۔
یہ ہوش مندی سے، علمی سطح پر لڑی جانے والی لڑائی ہے۔ہمارے جو ادارے ہیں،جو تنظیمیں ہیں وہ اپنے طریقے سے لاء کمیشن کو مضمون لکھ کر اپنی بات ظاہر کریں۔یاد رکھیے کہ ایک بہت بڑا جھوٹا پروپیگنڈہ(Propaganda)ملک کے سامنے کیا جارہا ہے کہ ایک ملک میں دو قانون کیسے ہو سکتے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عقل و ذہانت کے لحاظ سے جاہل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک ملک میں دو قانون کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں اتنے قوانین کا ذخیرہ کہیں موجود نہیں جتنے قوانین کا ذخیرہ ہندوستان میں ہے۔تو جہاں اتنے قوانین کا ذخیرہ ہو وہاں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ایک ملک میں دو قانون کیسے ہوسکتے ہیں ؟
ہم حکومت کو اسلامی شریعت کے تحّفظ کا ذمّہ دار نہ بنائیں ،ہم خود اسِ کے ذمّہ دار ہیں۔اسلامی شریعت کا تحّفظ ہماری ذمّہ داری ہے۔ اگر ہم اپنےگھر میں اسلامی شریعت رائج کریں ،اُس پر عمل کریں تو کون ہے جو ہم پر یکساں سول کوڈ (UCC) نافذ کرکے ہم کو مجبور کرسکے؟قانون تو اپنی جگہ رہے گا، ہمیں کسی نے روکا ہے اسلامی شریعت کے مطابق اپنے گھر کو سنوارنے سے؟
جب ایک مسئلہ آتا ہے تو ہم جذباتی ہوتے ہیں،احتجاج کرتے ہیں، مہمات چلاتے ہیں،ریلی نکال کر سڑکوں پر آتے ہیں، لیکن عمل کے میدان میں بالکل پیچھے۔ہمیں اپنے دل میں مضبوط ارادہ کرنا ہوگا کہ ہم اسلامی شریعت پر عمل کریں گے۔اگر ہمیں کوئی چیز معلوم نہ ہوتو قرآن سےمعلوم کریں گے۔ شریعت کی پابندی کریں گے اور جتنے شریعت کے قوانین ہیں، انھیں اپنے گھر میں نافذ کریں گے۔اگر ہماری زندگی شریعت کے مطابق گزرنے لگے تو قانون ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ہمیں اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں، خاص طور پر قوانینِ شریعت کے سلسلے میں جو بد گمانیاں و غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، اُن پر ہم تحقیقی انداز میں بولنے یا تحریر کرنے کی کوشش کریں گے ،اور ساتھ ہی اسلامی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں گے،دنیا کے سامنے پیش کریںگے۔ یہ ہمارےاہم کام ہیں، کیوں کہ یہ ہی ہمارا فریضہ اور یہ ہی تو نصرتِ دین ہے۔

٭ ٭ ٭


سب سے اہم بات یہ کہ بی جے پی ہم سےمسلمانوں سےیہ چاہتی ہے کہ ہم یکساں سول کوڈ(UCC) کی فوری طور پر مخالفت کرے اور اِس سے یہ ثابت ہوکہ ﴿یکساں سول کوڈ(UCC) لانے سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، وہ صرف مسلمان ہے، اور یہاں کی ہِندو اکثریت کویہ احساس دلایا جائے کہ بی جے پی مسلمانوں کی دینی شناخت ختم کرنے کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳