تعلیم کی راہوں کے مسافر

 ’’آفاق!‘‘ امی کی آواز وہ سن سکتا تھا، لیکن ان سنی کرگیا، اور اپنی بیاض پرمزید جھک گیا،وہ فرش پر اپنی کتابیں اور بیاضیں پھیلائے دوزانو بیٹھا تھا، اور پوری طرح بیاض پر جھکا ہوا تھا ،ساتھ ہی اس کا اسکول بیگ رکھا تھا، اطراف میں نیلے، سیاہ اور سرخ پین کے ساتھ پنسل، ربر، شارپنر، رولر اور کمپاس بکس کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔
’’آفاق! ‘‘امی اس کے قریب آئیں۔
’’کب سے آوازیں دے رہی ہوں تمھیں۔‘‘
’’کیا ہوا امی؟‘‘ اس نے مصروف سے انداز میں پین سے بیاض پر کچھ لکھتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! اور کتنی دیر لکھوگے؟ جب سے اسکول سے آئے ہو، ہوم ورک ہی کررہے ہو۔ نہ یونیفارم چینج کیا نہ کھانا کھایا۔ چلو اٹھو شاباش! پہلے منہ ہاتھ دھو لو اور کھانا کھاؤ،باقی ہوم ورک بعد میں کرلینا۔‘‘
’’نہیںامی! مجھے بھوک نہیںہے۔‘‘
’’ کیسے بھوک نہیں ہے؟ روزانہ تو دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی کھانے کا حکم جاری کرتے ہو۔‘‘
’’مجھے بہت لکھنا ہے ابھی۔ یہ میں ورڈس میننگ لکھ رہا ہوں،اس کے بعد پوری ورک بک بھی کمپلیٹ کرنی ہے۔‘‘
’’ہاں تو کرلینا ورک بک کمپلیٹ۔ پہلے کھانا تو کھالو۔ فریش ہوکر پھر سے ورک بک لے کر بیٹھ جانا۔ صبح سے کھانا نہیں کھایا تم نے۔ لکھنے کے لیے انرجی بھی تو چاہیے ناں!‘‘
’’نہیں امی!میں بعد میں کھالوں گا۔‘‘
’’اتنا بھی ہوم ورک کو سر پر سوار نہیں کرلیتے بیٹا! ٹھہرو ذرا، میں تمھارے ٹیچر سے بات کرتی ہوں۔ اتنا ہوم ورک دیتے ہیں بچوں کو۔‘‘ آخری فقرہ انھوں نے آہستہ سے کہا، اتنا ہلکا کہ آفاق سن نہ سکے۔
’’یہ سرفراز بڈھے کا ہے امی! اگر ایک بھی پیج باقی رہا ناں تو وہ مجھے بہت ماریں گے۔‘‘
’’استغفراللہ آفاق !یہ کیا بات کہی ہے تم نے ؟‘‘امی نے برہمی سے اسے دیکھا۔

 ’’اس طرح بات کرتے ہیں اپنے ٹیچر کے بارے میں؟‘‘
’’امی !میرے ہاتھوں میں درد ہو رہا ہے لکھ لکھ کر۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھ اپنی امی کو دکھائے۔ ہتھیلی اور انگلیوں پر پین کی سیاہ، سرخ اور نیلی لکیریں بن گئی تھیں۔
’’دیکھیں ذرا! انھیں پھر بھی رحم نہیں آتا۔ اتنی زور سے مارتے ہیں۔ کلاس کے سارے بچے انھیں سرفراز بڈھا ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’آفاق!‘‘ امی حیرت اور بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’دو دن پہلے عمر نے اپنی ورک بک کمپلیٹ نہیں کی، تو سرفراز سر نے اسے اپنے موٹے ڈنڈے سے اتنا مارا، بے چارا رورہا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا اس کو مار کھاتا دیکھ کر میں نے اپنی باری آنے تک جلدی جلدی کمپلیٹ کرلیا، ورنہ میری بھی خوب دھلائی ہونی تھی۔‘‘ کہتے ہوئے آفاق کی حرکات و سکنات اور چہرے کے تاثرات قابل دید تھے۔
’’اور پتہ ہے امی؟ اس دن سر نے ہمیں اتنا ہوم ورک دیا تھا، کہا تھا کہ ابھی تک جتنا پڑھایا ہوا ہے اتنا پورا ورک بک میں لکھ کر لانا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے بھی انھیں سزا دے دی، پرسوں وہ گاڑی سے گر گئے۔ اچھا ہوا، بچوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں ناں! ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کل وہ اسکول نہیں آئے تو سب بچے بہت خوش ہورہے تھے۔ آج بھی نہیں آئے تھے،لیکن اب کل وہ ضرور آئیں گے، اور ورک بک بھی چیک کریں گے،اس لیے آج ہمیں پورا کرلینا ہے۔ گرے بھی تو انھیں احساس نہیں ہوگا،پھر بھی نہیں چھوڑیں گے۔ سرفراز بڈھا۔‘‘ آفاق بڑبڑایا۔
’’آفاق!‘‘ امی نے غصیلی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
’’تمہارے ابو بھی تمھیں کبھی مارتے ہیں، تو کیا تم انھیں بھی اسی طرح بڈھا کہتے ہو؟‘‘ امی ڈانٹتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
’’بولو۔‘‘آفاق نے جواب نہیں دیا۔
’’آفاق! تم بہت بدتمیز ہوگئے ہو۔ آنے دو تمہارے ابو کو، بتاتی ہوں انھیں تمھاری بدتمیزی۔‘‘ امی نے سختی سے کہا۔
’’جو بچے اپنے ٹیچرز کو برے ناموں سے یاد کرتے ہیں، وہ پڑھ نہیں سکتے۔‘‘
’’میں نے کہا تھا انھیں کہ میری طبیعت خراب تھی اس لیے ہوم ورک نہیں کیا، پھر بھی وہ مارتے ہیں۔ چھڑی سے مارتے ہیں تو میرے ہاتھ لال لال ہو جاتے ہیں۔‘‘وہ بلند آواز میں غصے سے کہہ رہا تھا۔
’’بس بہت ہوگیا۔ اب تو میں تمھارے ابو سے تمھاری شکایت کروں گی ہی۔‘‘امی بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ان کا بیٹا اتنا بدتمیز کب سے ہوگیا تھا۔ اللہ اللہ اتنی بے ادبی!
’’آفاق!بیٹا وہ تمھارے ٹیچر ہیں،اور ٹیچر کی عزت کرنی چاہیے۔‘‘آفاق منہ پھلا کر بیٹھا ہوا تھا۔
’’بیٹا !وہ اتنی محنت سے تمھیں پڑھاتے ہیں۔ کلاس کے تمام بچوں کو، مختلف مزاج کے بچوں کو ایک ساتھ برابر اہمیت دیتے ہوئے درس دینا، کوئی چیز سیکھ جانے تک سکھانا، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔‘‘
’’اس میں کون سی بڑی بات ہے؟‘‘
’’بڑی بات ہے آفاق! ہر بچہ الگ مزاج کا ہوتا ہے۔ سب کے مزاجوں کو سمجھتے ہوئے انھیں بالکل اسی طرح کا پروٹوکول دینا۔ ان کے مزاجوں کو برداشت کرتے ہوئے ان کی تربیت کرنا۔ یہ بڑی بات ہے۔ والدین اور اساتذہ یہ عظیم کام انجام دیتے ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے بیٹا!‘‘ امی نرمی سے کہہ رہی تھیں۔
’’ہمارے دور میں تو یہ ہوتا تھا کہ ہم تو اپنے اساتذہ کے گھروں کے کام بھی کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ فرض نہیں ہے، لیکن اس دور میں استاد کا رعب، دبدبہ، عزت و احترام اتنا ہوتا تھا کہ سبزی ترکاری لانی ہو یا سودا سلف، ضرورت پڑنے پر استاد کے گھر وہ بھی پہنچا دیا کرتے تھے۔
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں سے اپنے ذاتی کام نہیں کہتے، پھر بھی شاگرد عزت و احترام دینے میں بخیل ہیں۔‘‘
’’امی! لیکن وہ بہت زور سے مارتے ہیں۔ یہ دیکھیں، میری ہتھیلی لال لال ہوچکی ہے۔‘‘ آفاق نے اپنی سرخ ہتھیلی پھر سے دکھائی۔
’’آفاق!استاد تمھارے اپنے لیے مارتے ہیں۔تمھارے کچھ نہ سیکھنے سے، یا ہوم ورک نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اگر تمہارا سیکھنا، تمھاری قابلیت انھیں مقصود نہ ہوتی تو وہ تمھیں اپنے حال پر چھوڑ دیتے۔ کبھی نہ مارتے، نہ ڈانٹتے۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمھارے نعمت‘‘
’’امی صرف سرفراز سر ہی نہیں، نبیلہ سر بھی اتنے ہی Strict ہیں۔ وہ بھی اتنے زور سے ڈانٹتے ہیں۔ کلاس میں کسی نے تھوڑی بھی شرارت کی تو مرغا بنا دیتے ہیں۔‘‘
“نبیلہ سر؟‘‘امی کے پوچھنے پر آفاق کھل کھلا کر ہنس پڑا۔
’’ان کا نام نبیل ہے، لیکن جیسے ہی وہ کلاس سے باہر جاتے ہیں، ہم انھیں نبیلہ سر کہتے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے انھیں چڑاتے بھی ہیں۔‘‘
’’آفاق مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرا بیٹا اتنا بگڑ گیا ہے۔ اساتذہ کو برے القاب یا غلط ناموں سے پکارنا اچھی بات نہیں ہے۔ جو اپنے استاد کی عزت نہیں کرتا، دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی۔‘‘امی اسے سمجھا رہی تھیں۔
’’تمھیں معلوم ہے، محمد ﷺ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلم بنا کر بھیجے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ جب درس دے رہے ہوتے تو صحابۂ کرامؓ بغور آپ ﷺ کو سماعت فرمارہے ہوتے، اور اس طرح بیٹھتے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ یعنی جب وہ ایک اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں تشریف فرما ہوتے تو ان کے سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوتیں۔ یہ تھا احترام۔‘‘ آفاق بغور سن رہا تھا۔ امی نے ایک اور واقعہ اس کے گوش گزار کرنا چاہا۔
’’خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم تشریف لاتے تو وہ ان کی تعظیم میں فوراً کھڑے ہوجاتے۔ ایک دن درباریوں نے عرض کیاکہ یا امیر المؤمنین اس طرح رعب سلطنت جاتا ہے۔ ہارون رشید نے جواب دیاکہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے، پھر یہ جانے کے ہی قابل ہے۔‘‘امی کو سنتے ہوئے آفاق نے دیوار سے پشت ٹکا دی۔ امی نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’امام برہان الدین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ ایک طالب علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، جب تک کہ وہ علم، اہل علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔میں تمھیں ایک واقعہ بھی سناتی ہوں۔ایک دفعہ حضرت زید بن ثابتؓ جو ایک بڑے عالم دین تھے، ایک نماز جنازہ ادا کرکے فارغ ہوئے، اور سواری پر سوار ہونا چاہتے تھے کہ عبداللہ بن عباسؓ آگے بڑھے اور سواری کی رکاب تھام لی۔ زید بن ثابت ؓنے کہاکہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی! آپ ایسا نہ کریں۔ ابن عباس ؓنے فرمایاکہ جی نہیں! میں یہ رکاب ضرور پکڑوں گا، کیونکہ علماء اور بڑوں کا یہ حق ہے کہ ان سے ایسا ہی برتاؤ کیا جائے۔‘‘ امی نے اس کی بکھری چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’یہ ادب ہوتا ہے بڑوں کا۔‘‘رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ ٔکرامؓ نے بھی استاد کی عزت و تکریم کی مثالیں پیش کیں۔
’’کیا رسول اللہ ﷺ بھی اپنے Students کو مارتے تھے؟‘‘ یک لخت آفاق نے استفسار کیا۔
’’نہیں،اللہ کے رسول ﷺ کسی کو نہیں مارتے تھے۔ کیونکہ ان کے Students شرارت ہی نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ جو بھی کام انھیں کہتے، وہ فوراً حکم کی تعمیل میں اسےبجا لاتے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرامؓ میں بہت محبت تھی۔ایک Teacher طالب علم کی مدد، رہنمائی و معاونت کرتا ہے۔ایک Teacher (استاد)، Talented(با صلاحیت)، Educated (تعلیم یافتہ)، Administrator (منتظم)، Caring (شفیق)، Helpful (مددگار)، Encouraging (حوصلہ افزا)، اور Responsible (ذمہ دار) ہوتا ہے۔‘‘
’’یاہ! یہ ٹیچر کا فل فارم ہے ناں؟اب ہمارے اسکول میں ٹیچرز ڈے منانے والے ہیں۔ میں اس دن یہی سناؤں گا۔ یس۔‘‘ آفاق پرجوش نظر آرہا تھا۔
’’لیکن امی! ٹیچرز ڈے کیوں مناتے ہیں؟‘‘دفعۃًاس نے پوچھا۔
’’ہوں! تم ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کے بارے میں جانتے ہو؟‘‘
’’اوہوں۔‘‘ آفاق نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن آزاد بھارت کے دوسرے نائب صدر تھے۔اس کے بعد وہ دوسرے صدر بھی منتخب ہوئے۔ وہ ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے تعلیم اور فلسفہ کے میدان میں ہندوستان میں کامیابی کے ساتھ کام کیا، اور تعلیم کے میدان میں نمایاں فرائض انجام دیے۔ انھیں کئی نوبل پرائز بھی ملے۔ جب وہ صدر جمہوریہ تھے، اس دوران ان کے کچھ Students اور دوستوں نے ان سے درخواست کی کہ انھیں ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کا یوم پیدائش سیلیبریٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ جواباً انھوں نے لکھا کہ میرے یوم پیدائش منانے کے بجائے اگر 5 ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ فخر ہوگا۔اس کے بعد سے آج تک ہم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کےیوم پیدائش کو یوم اساتذہ کے طور پر مناتے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔ امی میری کلاس میں کسی کو بھی یہ اسٹوری نہیں معلوم۔ میں ٹیچرز ڈے پر یہ اسٹوری بھی سناؤں گا۔‘‘
’’ویری گڈ! ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنے اسٹوڈنٹس کو بہت محنت سے پڑھاتے تھے۔ جیسے تمھارے اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ اساتذہ عقل و دانش سے اپنا علم اسٹوڈنٹس کو ٹرانسفر کرتے ہیں۔ آفاق! اس دنیا میں والدین اور اساتذہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جو پوری محنت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرے۔ بچوں کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا بھی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ ادب سے پیش آئیں۔ بیٹا! بڑوں کا احترام ہر حال میں لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ ہم میں سے نہیں، جو چھوٹوں سے شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام و توقیر نہ کرے۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا آفاق!‘‘
’’ٹھیک ہے امی! لیکن رسول اللہ ﷺ مارتے نہیں تھے۔ ہمارے ٹیچرز مارتے ہیں۔‘‘ آفاق نے منہ بسور کر کہا۔امی کو بے اختیار ایک شعر یاد آیا:
کچھ وہ کھنچے کھنچے رہے، کچھ ہم تنے تنے
اسی کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
موجودہ دور میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ یونہی ہوگیا ہے۔‘‘
’’اوکے۔ میں تمھارے ٹیچرز سے بات کروں گی۔ چلو اٹھو شاباش !اب کھانا کھالو۔‘‘
’’ہاں امی! بہت بھوک لگ رہی ہے۔ میں یونیفارم چینج کرکے آتا ہوں،اور منہ ہاتھ بھی دھو لیتا ہوں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر دوڑتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ امی کی مسکراتی نگاہیں اس کا تعاقب کررہی تھیں۔ پھر انھوں نے سر جھٹک کر اس کی کتابیں سمیٹنا شروع کیں۔
’’استاد صرف ایک بچے کا نہیں، صرف ایک کلاس کا نہیں، صرف ایک اسکول کا نہیں، بلکہ قوموں کا معمار ہوتا ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو ماریں نہیں، نہ بہت زیادہ ڈانٹیں، بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔کسی پودے کو محبت سے سینچا جائے تو صرف وہ خود مضبوط تناور درخت نہیں بنتا، بلکہ اپنے ساتھ کے درختوں کی بھی پھلنے پھولنے میں مدد کرتا ہے۔ محبت سے گوندھا گیا خمیر، ہمیشہ خوشبو دار ہوتا ہے۔بچوں کی تربیت کی مٹی میں بس پیار کی کھاد شامل کرلیں، وہ پائیدار ی کاباعث بنتا ہے، اور شاگرد بھی استاد کا احترام، عزت و توقیر اور تعظیم و ادب کرنا سیکھ جائے تو یہ اوصاف اس کے لیے کامیابی کی راہیں ہموار کرسکتے ہیں، کیوں کہ ادب و احترام کے بغیر علم تو حاصل ہوسکتا ہے لیکن فیضان علم نہیں۔استاد اور شاگرد اگر چاہیں تو قوموں کی حالت بدلنے پر قدرت رکھتے ہیں۔‘‘ امی سوچ رہی تھیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. افروز جبین

    ماشاء اللہ بہت بہترین تحریر
    موجودہ دور کے اساتذہ اور طلباء کے بےحد مفید

    Reply
    • قدسیہ رفیق

      شکراً جزیلا

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳