قندیل (آخری قسط)

وہ اسے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔ ہانیہ کو اس نے کوئی پزل پکڑادیا، اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔
’’اب بتاؤ۔‘‘
’’میرے شوہر کا Lungs Cancerکی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا۔‘‘
’’اوہ! آئی ایم سو سوری…‘‘ چند لحظوں کے وقفے کے بعد اس نے پوچھا۔
’’ٹریٹمنٹ نہیں کروایا ان کا؟‘‘
’’آخری اسٹیج تھا، اور سرجری کے لیے اتنے پیسے نہیں تھے۔‘‘
’’ارے! تو بغیر سرجری کے آیورویدک اور نیچروپیتھی میں Lungs Cancerکا علاج ہے۔‘‘
’’کیا؟ آخری اسٹیج پر؟‘‘ حرم کی بات پر قندیل نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ہاں۔ تمھیں نہیں پتہ؟حالانکہ میں ایلوپیتھی کی ڈاکٹر ہوں، لیکن میں خود نیچرو پیتھی اور آیورویدک کو اپناتی ہوں۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’اف! تم کسی سے پوچھ تو لیتیں۔‘‘حرم نے تاسف سے اسے دیکھا۔
’’ہمارے خاندان میں کوئی بھی اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے۔‘‘
’’اوہ!لیکن تم یہ کام کیوں کررہی ہو؟‘‘
’’گھر میں آمدنی کا کوئی ذریعہ باقی نہیں تھا۔ بینک کی رقم دواؤں میں لگ چکی تھی۔ جو رقم بچی تھی، اس سے ان چند ماہ میں گزارا ہوگیا۔پھر سب کچھ ختم ہوگیا۔گھر میں فاقوں کی سی حالت ہوگئی۔ اماں نے میرے منع کرنے کے باوجود اپنے بڑے بیٹے سے بات کی تھی۔لیکن ان کا جواب قابل توقع تھا۔ بھائی صاحب تو مدد کے لیے راضی ہوگئے تھے، لیکن ان کی بیوی نے سختی سے انکار کردیا۔ انھوں نے بھائی صاحب سے بہت لڑائی کی۔ میں پہلے ہی کسی کا احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔میں نے اماں کو کسی اور سے مدد مانگنے سے سختی سے انکار کردیا۔لوگوں نے کہا کہ میں سلائی کروں، اس سے آمدنی ہوجائے گی،لیکن مجھے سلائی بھی نہیں آتی تھی۔بہت سوچ بچار کے بعد میں نے اس کام کو چنا۔کسی کے گھر میں کپڑے یا برتن دھونے سے تو اچھا ہے کہ میں یہ کام کرکے اپنا گھر چلاؤں۔ کھاناویسے بھی میں اچھا بنا لیتی ہوں۔‘‘
’’تمھاری کوالیفکیشن کیا ہے؟ کہاں تک پڑھی ہو تم؟‘‘ حرم نے اس سے پوچھا۔
’’دسویں تک۔‘‘
’’بس؟ اتنا ہی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اوہ! تم ایک کام کرو۔ کل سے یہاں نہ آیا کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ قندیل نے خوفزدہ ہوکر اسے دیکھا۔
’’میں ابو سے تمھارے لیے بات کرتی ہوں۔ ہم ویسے بھی بہت جگہ ڈونیٹ کرتے ہیں۔ تمھارے لیے بھی Monthly Allowance(ماہانہ وظیفہ)مقرر کردیں گے۔یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اتنے بڑے خزانے میں سے کچھ دینا بڑی بات نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں حرم! میں کسی کی بھیک نہیں لے سکتی۔ میں خوددار ماں باپ کی خوددار بیٹی ہوں۔ میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پسند کرتی تو آج اس گھر میں نوکرانی نہیں بنی ہوتی۔ یقین کرو حرم! ہمارے حالات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ میں سڑکوں پر بھیک مانگنے نکل جاتی۔‘‘
’’نہیں… ایسے نہ کہو قندیل… اللہ نہ کرے کہ تم پر یہ وقت آئے۔مجھ سے تمھاری یہ حالت دیکھی نہیں جارہی۔‘‘
’’اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلا رہی ہوں۔ یہی بہت ہے۔ اللہ اور دے گا ان شاء اللہ۔اس سے زیادہ کی خواہش نہیں ہے۔ ان حالات میں بھی میری بوڑھی ماں بڑھاپے میں کھانے کے لیے ترس تو نہیں رہیں، میرے بچے آج کسی اور بچے کوحسرت بھری نگاہوں سے تو نہیں دیکھ رہے۔‘‘قندیل نے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا، جو پزل کو جوڑتی خوش ہورہی تھی۔
’’قندیل!تم دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتیں؟‘‘
’’حق سے بتاؤ! مجھے میرے بچوں اور اماں کے ساتھ کون قبول کرے گا؟ اور اب میں اپنی زندگی صرف اپنے بچوں اور اماں کے لیے جینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’قندیل! اس دور میں دسویں پاس لڑکی کو اس کے علاوہ کوئی کام مل بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’میں اسی میں گزارا کرلوں گی۔‘‘
’’ساری زندگی؟ کچھ اندازہ ہے کتنے سال زندگی باقی ہے؟ پہاڑ جیسی زندگی ہے۔‘‘
’’مجھے دسویں کے آگے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی حرم! لیکن اچانک حالات ایسے بن گئے… اس لیے…‘‘
’’ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر لڑکی کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ تم کوئی کورس تو کرلیتیں۔‘‘
’’کہا ناں… ہمارے گھر میں لڑکیوں کا کالج جانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔‘‘
’’اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا ہے، اوراپنے گھر کی لڑکی اس طرح لوگوں کے گھروں میں نوکرانی بنی رہے، یہ بہت اچھا سمجھا جاتا ہے؟‘‘
’’حرم ہر کوئی تھوڑی نوکرانی بنتی ہے۔ میں تو مجبوری…‘‘
’’مجبوری… کیا مجبوری قندیل؟ آج ہر دوسرے گھر میں ملازمہ ہے۔کیوں؟‘‘حرم اس سے پوچھ رہی تھی۔
’’بے شک آج کے دور میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کالج غیر محفوظ ہے، اکثر کالجز مسلم لڑکیوں کے لیے نہیں رہے، لیکن لڑکیوں کے لیے آن لائن ایجوکیشن کے ہزاروں مواقع ہیں۔کیا تم آن لائن نہیں پڑھ سکتی تھیں؟ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا، سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے،یہی تو خرابی ہے معاشرے کی۔ آج عورتوں سے متعلق کئی دن Celebrateکیے جاتے ہیں۔ International Women’s Day, International Day of the Girl Child, International Day of Rural Woman, International Day of Elimination of Violence against Women لیکن Strengthen of Womenکے لیے کوئی دن نہیں منایا جاتا، جس میں عورتوں کے معاشی استحکام کی طرف توجہ دلائی جائے۔ حالانکہ International Women’s Dayکا مقصد ہی یہ تھا کہ خواتین کو سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدان میں کامیاب بنایا جائے۔ لیکن اس مقصد سے ہٹ کر ہم آج دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں Women’s Dayپر صرف خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریروں اور تقریروں میں بڑے پیمانے پر صرف ’’خواتین کے حقوق‘‘ اور ’’سماج میں خواتین کا کردار‘‘ ان ہی موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔پرزور طریقے سے اسی پر تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔مسلمان اسی کی یاددہانی کرواتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی بہت کم تقاریر اور بہت ہی کم تحریروں میں خواتین کی خود انحصاری پر بات کی جاتی ہے۔آج مسلم خواتین کے آل راؤنڈر ڈیولپمنٹ (ہمہ جہت ارتقاء) کی طرف کوئی توجہ نہیں دلا رہا۔تمھیں پتہ ہے؟ کل ہی میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے، سن 2022ءکی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بھکاری عورتوں کی تعداد ایک لاکھ پچھتر ہزار اور مردوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے۔ نیشنل ریشیو53.13فی صد مرد بھکاریوں اور 46.87فی صد خواتین بھکاریوںکا ہے، اور مسلمانوں میں یہ تناسب 43.61فی صد مرد بھکاری اور 56.38فی صد خواتین بھکاری ہیں۔مسلمان مردوں کے مقابلے میں مسلمان عورتوں کی تعداد بھکاری زیادہ ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ لاچار ہیں، بے بس ہیں، صرف اور صرف ناخواندگی اور نااہلی کی وجہ سے۔ مسلمانوں کی کل آبادی کا 42.72فی صد ناخواندہ ہے۔مسلم خواتین میں ناخواندگی کی شرح 48.11فی صد تک ہے۔ہر کوئی مرد کو Independent(خود منحصر) دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ایک خاتون کو ہر کوئی Depend(منحصر) رکھنا چاہتا ہے۔میرے ابو ہمیشہ کہتے ہیں قندیل!کہ ہر لڑکی کو کم از کم ایک ہنر تو ضرور سیکھنا چاہیے، تاکہ وہ مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے، اور پہلے میں اس بات پر اتنا دھیان نہیں دیتی تھی،لیکن اب تمھاری حالت دیکھنے کے بعد میں اپنے ابو کی اس بات سے سو فی صد اتفاق کرتی ہوں۔تم ذرا سوچو! کہ اگر تم زیادہ نہ بھی پڑھی ہوتیں، صرف ایک اسکل یا ایک ہنر سیکھ لیا ہوتا، یا کوئی ایک چھوٹا سا کورس کرلیا ہوتا، تو تمھیں اپنے شوہر کے کینسر کے علاج کے لیے کسی سے پیسے مانگنے کے لیے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ تم خود سے کچھ کرکے کماسکتی تھیں،اور خود ان کا علاج کرسکتی تھیں۔ ان کی زندگی اگر اللہ نے اتنی ہی لکھی تھی تو پھر وہ چلے جاتے،لیکن اگر تم نے کچھ سیکھ لیا ہوتا تو تمھیں آج یہاں یہ کام نہ کرنا پڑتا۔ ان کے جانے کے بعد تم معاشی مسائل سے دوچار نہ ہوتیں۔ تم آج کہیں اور ہوتیں۔میرے ابو ہمیشہ مجھ سے کہتے ہیں قندیل !کہ اس دور میں ڈگری سے زیادہ اسکل فائدہ مند ہوتی ہے، اس لیےہر لڑکی کو چاہیے کہ وہ تعلیم ضرور حاصل کرے اور اپنے آپ کو ہنر مند بنائے۔‘‘حرم نے بغور اس کو دیکھا۔
’’یہ لو پانی پیو۔‘‘ حرم نے قندیل کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا۔ رونے سے اس کی ناک اور آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔
’’قندیل! میری مانو تو تم سلائی سیکھ لو۔جس نے بھی تمھیں یہ مشورہ دیا تھا، صحیح تھا۔ تم پڑھنا نہیں چاہتیں، کم از کم یہ تو کر سکتی ہو۔ اس کے ذریعے اپنے آپ کو خودمنحصر بنا سکتی ہو۔اس سے تمھیں تمھاری اماں کو زیادہ دیر تنہا چھوڑنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ تم کہہ رہی تھیں ناں، وہ بوڑھی ہیں، تم انھیں زیادہ وقت اکیلا نہیں چھوڑ سکتیں، تم یہ کرلو۔کسی اچھے انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لو۔ میں فیس ادا کروں گی۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن تم بعد میں مجھے واپس کردینا۔‘‘حرم نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے کہا۔
’’قرض سمجھ کے رکھ لو۔ جانتی ہوں تم بہت خوددارہو۔‘‘قندیل مسکرادی۔
’’آؤ میں تمھیں اپنے ابو سے ملواؤں۔‘‘حرم کے ابو سے؟ ملے یا نہ ملے؟ قندیل تذبذب کے عالم میں کھڑی ہوگئی۔اس نے اپنا بڑا سا پرس وہیں چھوڑ دیا، اور ہانیہ کی انگلی پکڑے حرم کے عقب میں چل دی۔
وہ منظر آج بھی مجھے یاد ہے۔ اس وقت حرم نے جس شخص سے مجھے ملوایا، وہ ایک نہایت ہی رقیق القلب اور عظیم انسان ہیں۔ جب میں ان سے ملی تو انھوں نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ دھیمے لہجے میں مجھ سے کہا :
’’بیٹی! جن مشکل حالات سے تم گزری ہو، اب نہیں گزروگی۔ آج سے دو سال بعد تمھاری حالت بالکل مختلف ہوگی ان شاءاللہ۔‘‘
حرم کے والد بہت بڑے بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وہ رفیقوں کے رفیق ہیں۔ انھوں نے میری جو رہنمائی کی، میں اس کے لیے ان کی شکر گزار ہوں۔ کیونکہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے، لیکن انھوں نے پوری ٹہنی کے ذریعے میری مدد کی۔
’’آج وطن عزیز میں جو حالات رونما ہوچکے ہیں، اس میں خواتین کا با اختیار ہونا نہایت ضروری ہے۔ خواتین کو Self Sufficient یا Self Employed ہونا چاہیے۔‘‘
’’خیر، لیکن بیٹا آپ کو جب بھی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو، بلاجھجک فوراً مجھ سے رابطہ کریں۔‘‘ انھوں نے نرمی اور شفقت کے ساتھ کہا۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے چند کاروبار کے نام بتائے جو دسویں پاس لڑکیاں بھی کرسکتی ہیں۔ جیسے:
1) بوتیک اور ٹیلرنگ کا کاروبار
2)کیٹرنگ یا فوڈ بزنس
3) بیکری
4) دستکاری کی اشیاء فروخت کرنا
5) تخلیقی کارڈ بنانے کا کاروبار
6) پیک شدہ/کھانے کے لیے تیار کھانے کی اشیاء فروخت کرنا
7) بیوٹی سروسز وغیرہ۔پھر انھوں نے ان کاروباروں کو شروع کس طرح کیا جائے؟ اس سمت میری مکمل رہنمائی فرمائی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکے واپسی کے لیے اپنا پرس لینے حرم کے کمرے میں گئی۔ تب اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’تمھاری ایک ہی بیٹی ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ایک بیٹا بھی ہے، عبدالاحد۔‘‘
’’کبھی اسے بھی ملوانے لانا۔اب تو آنا جانا لگا رہے گا ویسے۔‘‘ کہتے ہوئے وہ دراز کی طرف بڑھی، اور اس میں سے اپنا والٹ نکالا۔ والٹ میں سے چند نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
’’یہ لو۔ہانیہ اور عبدالاحد کے لیے۔‘‘میں نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ میں انکار کرنے ہی والی تھی کہ حرم نے کہا:
’’بھئی خالہ کی طرف سے رکھ لو۔ میں کچھ نہیں سنوں گی۔‘‘اس کے بہت اصرار پر میں نے پانچ ہزار روپے رکھ لیے۔یہ رقم مجھے بہت بڑی محسوس ہورہی تھی۔میں نے حرم کا شکریہ ادا کیا، اور اس سے ہاتھ ملانے لگی۔ لیکن حرم نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ میں اسے خدا حافظ کہہ کر اپنی بیٹی کو لیے اس کے کمرے سے نکل گئی۔مجھے اپنی اندھیر زندگی میں اب روشنی کی کرن نظر آرہی تھی۔ اپنا مستقبل تابناک دکھائی دے رہا تھا، اور یہ میری دوست حرم اور اس کے والد کی وجہ سے تھا۔ اس کا نام حرم تھا، لیکن اس نے قندیل کے فرائض انجام دیے تھے۔کسی کی زندگی میں روشنی کرنے کے۔ خوشیاں بھرنے کے لیے۔
حرم کے والد کے مشورے پر میں نے سلائی سیکھنا شروع کیا۔ ساتھ ہی ساتھ ان سے قرض لے کر سلائی کا کاروبار بھی شروع کردیا۔ اب میرا ایک چھوٹا سا بوتیک ہے۔ جو الحمدللہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ اس سارے دورانیے میں حرم میری ہر ممکن مدد کرتی رہی۔ اس کے والد بھی میری قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے۔ اب بھی کرتے ہیں۔
میں قسطوں میں ان کا قرض ادا کررہی ہوں۔ میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں ان کا قرض جلد از جلد ادا کردوں۔ کہ قرض لوٹانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
’’غنی کا (قرض کی ادائیگی میں) تاخیر کرنا ظلم ہے۔‘‘
آج میں کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار کررہی ہوں۔ میرا گھر اب بہتر حالت میں ہے۔بچے اسکول جاتے ہیں۔ اماں ہمیں دیکھ کر خوش ہوتی رہتی ہیں۔ دعائیں دیتی ہیں۔میں آپ سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ، ہمت نسواں، مدد خدا۔آپ صنف نازک ہیں، تو اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں۔ بلکہ آپ اپنے آپ میں ایک مکمل طاقت ہیں۔ آپ صنف مضبوط ہیں۔کسی موڑ پر تھک کر بیٹھ جانے والوں کو کامیابی نہیں ملتی۔ کامرانی انھیں کا مقدر ہوتی ہے جو راستے تلاش کرتے ہیں۔ جیسے بھی حالات ہوں، اللہ پر توکل، کوشش پیہم، مثبت سوچ اور خود اعتمادی آپ کو زندگی میں کبھی ہارنے نہیں دے گی۔ اپنے اندر چھپے خوف کا گلا گھونٹ دیں۔ آپ کے باہر کی رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔ اور پر خطر راستے آسان ہوجائیں گے۔ جب بھی زندگی میں اندھیرے نظر آنے لگیں، بس صبر، حوصلہ، امنگ، جدوجہد، اور یقین کی قندیل جلائیں، رب العالمین کا فضل، رحمتیں اور مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس زمین پر مددگار بھی پیدا کردیتا ہے۔ پھر زندگی میں روشنیاں اور خوشیاں آنے میں وقت نہیں لگتا۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳