چندریان منصوبے میں خواتین سائنس دانوں کا حصہ

 بات وطن سے محبت کی ہو یا تعلیم میں آسمان چھونے کی، عورتیں ہر جگہ کوشش اور محنت سے اپنا لوہا منوا ہی لیتی ہیں۔جی ہاں! ہم بات کر رہیں ہیں ہندوستان کے چندریان 3 کی آئی ایس آر او کی اُن عورتوں کی جنھوں نے اپنی گھریلو زندگی کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ چاند پر پہنچنے کی ذمہ داری لے لی تھی اور اس کو بخوبی نبھایا بھی۔
بات تب کی ہے جب دو سال قبل بھارتی سائنس دانوں نے کامیابی کے ساتھ ایک سیٹلائٹ مریخ کے گرد مدار میں ڈالا، ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں خواتین کو خوبصورت ساڑیوں میں ملبوس بالوں میں پھولوں کے ساتھ جنوبی شہر بنگلور میں واقع انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) میں جشن مناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔آئیے! جانتے ہیں ان کی جدوجہد کے بارے میں، جس میں سب سے پہلا نام،مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشہ سے تعلق رکھنے والی ثنا علی کاہے۔ثناکا اسرو کے ستیش دھون اسپیس سینٹر میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ کے طور پر انتخاب ہوا۔ ثنا علی کی اس کامیابی سے مقامی لوگوں میں خوشی ہے ، لوگ ثناکو مبارکباددے رہے ہیں اور نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ودیشہ شہر کے نخاس محلہ میں رہنے والے ساجد علی کی بیٹی ثنا علی کا انتخاب ٹیکنیکل اسسٹنٹ کے عہدے پر ہوا ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام رکھنے والی ثنا علی نےایس اے ٹی آئی کالج سے تعلیم حاصل کی اور اسی کالج سے ایم ٹیک کی ڈگری حاصل کی۔ ثنا علی کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے، جس کے سبب انھیں اپنے تعلیمی سفر کے دوران کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو خوب پڑھائیں، ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں ان کی مدد کریں تاکہ وہ دنیا میں ملک اور والدین کا نام روشن کرسکیں۔واضح رہے کہ ثنا علی کے والد ساجد علی ایس اے ٹی ای کالج میں ڈرائیور تھے، بعد میں وہ لیب اسسٹنٹ کی پوسٹ پر رہے۔ انھوں نے قرض لیکر بیٹی کو پڑھایا۔ کبھی کبھی ایسا وقت بھی آیا کہ ثنا کی والدہ کو اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے اپنے زیورات گروی رکھنے پڑے،لیکن پیسوں کی تنگی کو بیٹی کی پڑھائی کے آڑے نہیں آنے دیا۔ والدین کی مضبوط قوت ارادی اور عزم نے ثنا علی کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا اور آج ان کا انتخاب انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے ستیش دھون اسپیس سینٹر میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ کے طور پر ہوا ہے۔
ان کے علاوہ ندنی ہریناتھ، ڈپٹی آپریشن ڈائریکٹر کے طور پر منتخب ہوئیں، اور اپنے سفر کے بارے میںبتاتے ہوئے کہاکہ میری والدہ ریاضی کی استاد ہیں اور میرے والد ایک انجینیئر ہیں، جنھیں فزکس کا بہت شوق تھا اور ایک خاندان کے طور پر ہم سب کو سٹار ٹریک اور سائنس فکشن بہت پسند تھا اور ہم ایک ساتھ بیٹھ کر اسے ٹی وی پر دیکھتے تھے۔یقیناً اس وقت اُنھوں نے کبھی خلائی سائنس دان بننے کا نہیں سوچا تھا،لانچ کے دوران، ہم گھر سے صبح آتے، دن رات گزارتے، شاید اگلی دوپہر تھوڑی دیر کے لیے گھر جاتے اور کچھ گھنٹے کے لیے کھانا کھاتے اور واپس آتے،لیکن اس جیسے اہم مشن کے لیے ہمیں اس طرح کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ہم نے بہت ساری راتیں بے خوابی میں گزاریں۔ ہمیں ترقی کے ساتھ ساتھ ڈیزائن اور مشن میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ فوری حل لے کر آرہا تھا، اس میں جو جدت لائی گئی وہ کلیدی تھی۔

 چند مہینے کام اور گھر میں توازن رکھنا بہت مشکل تھا،اس وقت یہ ایک دوڑ کی طرح لگتا تھا۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ صبح 4 بجے اٹھتی تاکہ پڑھائی کے دوران اس کی مدد کر سکوں، اس نے اپنے امتحانات میں بہت اچھا مظاہرہ کیا، ریاضی میں 100 اسکور کیا۔ آج، وہ میڈیکل اسکول میں ہے اور واقعی اچھا کر رہی ہے ۔
اسی فہرست میں دوسرا نام ریتو کریدھل کا ہے، دو چھوٹے بچوں کی ماں، محترمہ کریدھل کہتی ہیں کہ کام اور زندگی میں توازن برقرار رکھنا آسان نہیں تھا لیکن مجھے اپنے خاندان، اپنے شوہر اور اپنے بہن بھائیوں سے بہت حوصلہ ملا۔شمالی ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پرورش پانے والی ایک چھوٹی بچی کے طور پر، محترمہ کریدھل آسمان پر نظر رکھنے والی ایک ایسی شوقین لڑکی تھیں جو چاند کے سائز کے بارے میں سوچتی تھیں کہ یہ کیوں بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ تاریک جگہوں کے پیچھے کیا ہے۔ . سائنس کی ایک طالبہ جو فزکس اور ریاضی سے محبت کرتی تھی، اس نے ناسا اور اسرو کے پراجیکٹس کے بارے میں معلومات کے لیے روزانہ اخبارات کی چھان بین کی، خبروں کے تراشے جمع کیے، اور خلائی سائنس سے متعلق کسی بھی چیز کے بارے میں چھوٹی چھوٹی تفصیل پڑھی۔ اپنی پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے بعدمیں نے اسرو میں نوکری کے لیے درخواست دی اور اس طرح میں ایک خلائی سائنس دان بن گئی۔وہ کہتی ہیںکہ اب 18 سال ہوچکے ہیں اور محترمہ کریدھل نے اسرو میں کئی پروجیکٹس پر کام کیا ہے، بشمول باوقار مریخ مشن، جس نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو روشنی میںنہا دیا ہے۔
ایک اور اہم نام اسی فہرست میں، انورادھا ٹی کے، اسرو سیٹلائٹ سینٹر میں جیوساٹ پروگرام ڈائریکٹر کا آتا ہے۔اسرو میں یہ سینیئر ترین خاتون خلا میں مواصلاتی سیٹلائٹ بھیجنے میں مہارت رکھتی ہیں جو زمین کے مرکز سے کم از کم 36,000 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ اسرو کے ساتھ پچھلے 34 سالوں سے کام کرنے والی سائنس دان نے پہلی بار خلا کے بارے میں اس وقت سوچا جب وہ نو سال کی تھیں۔جب انہوں نے 1982 ءمیں اسرو میں شمولیت اختیار کی تو اُن کے انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں صرف چند خواتین تھیں یا اس سے بھی کم،وہ کہتی ہیںکہ میرے بیچ میں، پانچ سے چھ خواتین انجینئرز اسرو میں شامل ہوئیں۔ ہم باہر کھڑے ہوتے ہر کوئی ہمیں جانتا تھا۔ آج، اسرو کے 16,000 سے زیادہ ملازمین میں سے 20-25% سے زیادہ خواتین ہیں اور ہم اب کچھ خاص محسوس نہیں کرتے۔وہ ہنستی ہیں اور کہتی ہیں، اسرو میں جنس کوئی مسئلہ نہیں ہے، بھرتی اور پروموشنل پالیسیاںہماری صلاحیت اور جذبۂ معاونت پر منحصر ہیں۔ کبھی کبھی میں بھول جاتی ہوں کہ میں یہاں ایک عورت ہوں۔ آپ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتاکہ آپ ایک عورت ہیں،یہاں سب برابر ہیں۔ ان کے ساتھی اُن سے متاثر ہوتے ہیں اور اس بات سے بھی اتفاق کرتی ہیں کہ کام کی جگہ پر زیادہ خواتین کا ہونا دوسری خواتین کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہو سکتا ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳