ذہنی امراض کو جادو سمجھنا بھی ایک المیہ (قسط:1)

مالیخولیا اور شیزوفرینیا ایک ایسا ذہنی مرض ہے جس میں انسان اپنا ذہنی توازن کھو کر کچھ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، جسے بالعموم ہمارے معاشرہ میں سحرزدہ یا آسیب زدہ تصور کیا جاتا ہے۔مالیخولیا جسے انگریزی میں (Melancholia) اور اْردو میں سوداویہ یا قدیم عربی اصطلاح میں مراق کہا جاتا رہا ہے۔ دراصل ایک مستقل اداسی اور گہری پژمردگی کا نام ہے،اور اس بیماری کے حامل مریض کے پٹھے،گردن اور چہرے کے مسلز مسلسل تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ مریض کے تخیلات میں زبردست بے ترتیبی (Disorder)پیدا ہو جاتی ہے۔ تشویش اور مایوسی اس بیماری کے حامل مریض کی بنیادی علامات ہیں ۔
اس بیماری کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک جذبات کی عدم سیرابی یعنی محبت میں ناکامی جسے(Heartbroken Syndrome)کہا جاتا ہے، احساسِ کمتری جسے(Inferiority Complex)کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچپن میں والدین کی عدم توجہی اور شق الایمان یعنی (Creedlessness)، دوسرا بنیادی سبب وفورِ ذہانت (Excessive Intelligence)ہے ۔ وفورِ ذہانت سے مراد معلومات کا وہ وسیع ذخیرہ ہے جس کی بے ترتیبی تعینِ نہج (Determination of Gestalt) کی بجائے انسان کو کنفیوژن کا شکار کر دیتی ہے۔
شیزوفرینیا (Schizophrenia) جسے عربی اور اردو میں انفصام کہا جاتا ہے۔ دراصل ایک ایسی روحانی بیماری ہے جس میں مریض موجود اور غیر موجود میں فرق نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی میں اسے فصم سے مشتق اسمِ صفت انفصام سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کے معنی منقسم ہو جانے کے ہیں کہ اس بیماری میں مریض حقیقت اور توہم میں منقسم ہو جاتا ہے ۔ اس بیماری کا حامل مریض ایسے جاندار کی صدا سننے کا دعوٰی کرتا ہے جو فی الحقیقت موجود نہیں ہوتے۔
مستقل تنہائی اور توہم اس بیماری کی بنیادی علامات ہیں، اس بیماری کا بنیادی سبب جہالت اور ضروری معلومات کی عدم دستیابی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ انسان تخیل کے ذریعے کسی مطلوبہ نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس رستے میں مطلوبہ بنیادی معلومات کی عدم دستیابی اسے تیقن (Conviction) کی بجائے توہم(Superstition) تک لے جاتی ہے، جس کے سبب وہ خطائے حس (Hallucination) کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ خطائے حس کی کیفیت میں مبتلا مریض کو غیر موجود نظر آنے لگتے ہیں یا پھر وہ غیر موجود آوازیں سن سکتا ہے ،جبکہ فی الحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے، مگر خطائے حس کے سبب اسے ایسا معلوم پڑتا ہے۔

 پرانے زمانے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں جنات کا گھس جانا یا پھر جادو ٹونے کا شکار ہونے والے افراد کا بے ہنگم و بے ترتیب حرکات کا مرتکب ہونا یا چیخنا چلانا بھی دراصل شیزوفرینیا کی علامات تھیں ۔ سوداویہ اور انفصام میں بنیادی فرق یاد رہے کہ سوداویہ غیر ضروری معلومات کی بے تربیتی کے سبب فکر کے بے ہنگم ہو جانے یا جذبات کی عدم سیرابی سے نمودار ہوتی ہے، جبکہ شیزوفرینیا ضروری معلومات کی عدم دستیابی اور توہمات کے شکار ہو جانے کے سبب ہوتی ہے۔
( دیکھیے: مالیخولیا اور شیزوفرینیا، از:ڈاکٹر نعمان نیئر کلاچوی، 22 دسمبر 2017 ء، dailypakistan.com)
مذکورہ بالا بیان کردہ صورت حال اعصابی تناؤ اور مسلسل ڈپریشن کی باعث وقوع پذیر ہوتی ہے، جس کا اصل سبب رب کائنات کی ذات پر توکل کا نہ ہونا ہے ،کیونکہ فرمان باری تعالی ہے :

 و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ

(اور جس کی اللہ کفایت کرے اسے کائنات کی کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی۔)
ڈاکٹر سید عمران مرتضی اپنے ایک لیکچر میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے25 فی صد انسان ذہنی امراض کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہر چار فرد میں سے ایک ذہنی مریض ہے ،اور پاکستان کی 14 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 6 کروڑ افراداس مرض سے دوچار ہیں،اور ملک ہندوستان میں بھی صورت حال اس سے کچھ مختلف نہیں۔
ایسے مریضوں کے لیے امریکہ میں تو باقاعدہ سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرکے اس کے علاج پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، مگر بر صغیر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، یہاں تک کہ مسلسل یاس و قنوط کے سائے میں رہتے ہوئے مریض خود اپنا آپا کھودیتا ہے۔
ڈاکٹر سید عمران مرتضی ٰپاکستان کے فاؤنٹین ہاسپٹل میں خدمات انجام دیتے ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر کا سب سے اعلیٰ ذہنی امراض کا ہاسپیٹل ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ایڈمٹ مریضوں کی کوئی خبر گیری کرنے والا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے یا ذرا سی خراش لگ جائے یا بلڈ پریشر یا شوگر کا حملہ ہوجائے تو تیمارداروں کا تانتا بندھ جاتا ہے، مگر فاؤنٹین ہاسپیٹل میں ہم نے کسی کی تیمارداری کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اگر کسی سے اس کی ذہنی حالت کا پوچھ لیا جائے تو برا مان جاتا ہے۔ لہٰذا، جب ذہنی مریض کسی تناؤ کا شکار ہوتا ہے تو کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا اور اس طرح مسلسل تناؤ میں رہنے کے باعث مریض یا تو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے یا پھر اس کا دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے ،اور پھر وہ کچھ عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کردیتا ہے۔ایسے مریضوں کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی باتوں کو بغور سنا جائے اور اس کی کھوئی ہوئی صلاحیتوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے ،جیسا کہ ہمیں سیرت رسول میں ملتا ہے :

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْئٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَهِ ! إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَقَالَ يَا أُمَّ فُلاَنٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ حَتَّى أَقْضِيَ لَكِ حَاجَتَكِ فَخَلاَ مَعَهَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ حَتَّى فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا.

(سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کی عقل میں تھوڑا پاگل پن تھا ،اس نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ،  مجھے آپ سے کام ہے (یعنی کچھ کہنا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کہہ سکتی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ام فلاں، (یعنی اس کانام لیا) تو جہاں چاہے گی میں تمھاراکام کر دوں گا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں اس سے تنہائی( میں بات) کی، یہاں تک کہ وہ اپنی بات سے فارغ ہو گئی۔)( واضح رہے کہ یہاں تنہائی سے مراد بالکل خلوت نہیں ہے بلکہ راستے میں تھے)
ڈاکٹر سید عمران مرتضیٰ اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے بیان میں ہمارے معاشرے کا جائزہ پیش کرتے ہیں اور ایک لڑکی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کو تشویش ناک قرار دیتے ہیں اور ملت کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں ہمیں مذکورہ بالا حدیث کو مد نظر رکھنا چاہیے ،اور اس طرح کے امراض سے نبردآزما افراد پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، بصورت دیگر معاشرہ خطرناک صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ وہ واقعہ یوں ذکر کرتے ہیںکہ میرے پاس فاؤنٹین ہاسپٹل میں ایک لڑکی ہانپتے کانپتے آئی اور اپنے علاج کی درخواست کی اور ساتھ ہی علاج کا خرچ برداشت کرنے سے بھی معذرت کی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ ایک حافظ قرآن لڑکی ہے ۔ ماضی میں اسے دیر تک واش روم میں وقت گزارنے کی عادت تھی جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ دن کے بارہ بارہ گھنٹے واش روم میں گزارنے لگی تو اس کے گھر والوں نے اس کا علاج کرانے کے بجائے اس کی شادی کردی ۔ ابتداء میں شوہر نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی ،مگر رفتہ رفتہ یہ صورت حال مزید بگڑتی گئی اور اسی دوران وہ ایک بچےکی ماں بن گئی، مگر وہ اپنے دن کا بیشتر وقت واش روم میں گزارنے لگی ،اور اس کے بچے کی دیکھ بھال کا مسئلہ پیش آیا ،تو گھر والوں نے اس کی بہن کی شادی اس کے ناکارہ دیور کے ساتھ کردی، تاکہ وہ اس کے بچے کی دیکھ بھال کرسکے ،مگر کسی نے بھی اس کے طبی علاج کی طرف توجہ نہ کی، اور بالآخر نوبت طلاق تک پہنچ گئی اور ڈاکٹر سید کے بیان کے مطابق ’’وہ میرے پاس بہت ہی لاچاری کے عالم میں بہت دور سے سفر کرکے آئی ،جہاں میں نے اس کا علاج کیا اور وہ بفضل اللہ صحت یاب ہوگئی، اور چونکہ وہ حافظ قرآن لڑکی ہے لہٰذا اب وہ مدرسہ چلاتی ہے۔

مذکورہ بالا واقعےکے تناظر میں ملک میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی یا ذہنی مریض کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین نظر آتی ہے۔ جہاں اہل خانہ مریض کا طبی علاج و معائنہ کے بجائے روحانی علاج کے نام پر تعویذ و گنڈے کا سہارا لیتے ہیں اور شعبدہ بازوں کے جال میں پھنس کر اپنے عقائد کو بھی تباہ و برباد کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
اعظم گڑھ کے قصبہ سرائے میر کا ایک واقعہ مشاہدے میں آیا جہاں ایک ہونہار لڑکی انٹر میڈیٹ تک پہنچتے پہنچتے عجیب و غریب حرکت کا شکار ہو گئی ۔ اچانک ہنسنا ، بے موقع رونا اور اس طرح کی دیگر حرکتیں اس کے شب و روز کا حصہ بن گئیں، چنانچہ گھر والوں نے سحر یا آسیب وغیرہ سمجھتے ہوئے شعبدہ بازوں کا رخ کیا اور تعویذ و گنڈے کا سہارا لے کر اس کا علاج کروانے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہر روز اپنی قیمتی صحت کھوتی گئی اور جب بالآخر افاقہ نہ ہوا تو طبی علاج کی جانب مائل ہوئے، تو پتہ چلا کہ بچی دماغی مرض میں مبتلا ہے مگر اس وقت دیر ہوچکی تھی یہاں تک کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔
جہاں تک جادو ٹونے کی حقیقت اور اس کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ سچ ہے کہ جادو ٹونہ اور نظر بد کا انسان پر اثر ہوتا ہے ،جس کا ازالہ قرآنی آیات اور دعائے ماثورہ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔جیساکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی جادو سے متاثر ہوئی جس کا تذکرہ متعدد احادیث میں ملتا ہے، نیز سورہ جن اور قرآن کریم کی متعدد سورتوں سے جادو کی حقیقت کی تائید ہوتی ہے، جیساکہ سورہ بقرہ میں ہاروت اور ماروت کے ذریعے جادو کی تعلیم کا پتہ چلتا ہے۔ علاوہ ازیں موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا ذکر اور قوم فرعون اور ان کے جادو گروں کے اعمال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انسان پر جادو اثر انداز ہوتا ہے، جس میں بعض دفعہ انسان عجیب و غریب حرکتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہذا، جادو ٹونہ اور نظر بد کے برے اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔البتہ یہ سوال قابل توجہ ہے کہ آیا جادو ٹونے کا علاج محض تعویذ اور گنڈے سے ہی ممکن ہے یا اس کا کوئی اور حل موجود ہے؟ یا اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے تعویذ و گنڈے کے استعمال کی اجازت ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ کیا ہر عجیب و غریب حرکت کرنے والا جادو ٹونے سے ہی متاثر ہے یا اس کا تعلق ذہنی مرض سے ہے؟
آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقاعدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں ،اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اور مادہ پرستی میں مبتلا نام نہاد پیر اسے ذریعہ ٔمعاش بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا، اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنا ہوا بآسانی دستیاب ہوجائے گا۔اولاد کو فرمانبردار بنانے والا تعویذ،اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے،شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابعدار رہے،اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابعدار بن کر رہے،اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے ،جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے،کسی کو کالا یرقان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، اس کا بھی تعویذ اسے مل جائے گا۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ جب یرقان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ہیں ،مگر تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو، آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گے ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر ۲۰۲۳