دسمبر٢٠٢٢
دس بجے کے قریب بھائی اوربھابھی کی واپسی بھی ہوگئی ۔ ندا کی وہی ازلی ہشاش بشاش سی طبیعت اسے زندگی میں پہلی مرتبہ بری طرح کھلی۔
’’ ہاں امی! سب بہت مس کررہے تھے آپ کو، میں کوفتے لائی ہوں، اچھا ہے ناں، ہماری سحری کی چھٹی ہوجائےگی۔‘‘ندا ہنستے ہوئے بتانے لگی۔ موسم کافی خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ صحن میں چارسو چاندنی بکھری تھی ۔وہ لوگ صحن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ وہ گم صم بیٹھی ساس بہو کو دیکھتی رہی، نہ کوئی طنز کا تیر، نہ کوئی کٹیلا جملہ۔
’’ میں ذرا چائے بنالوں زوبی ، پھر بیٹھ کر مزے سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘ندا کے کچن میں جانے کے بعد وہ ماں کے مزید قریب ہوئی۔
’’آپ ذرا پوچھیں ناں! اتنی دیر سے یہ لوگ کیوں آئے اور بھائی تو آتے ہی سونے چلے گئے۔‘‘اس نے دبی دبی آواز میں ماں کو اکسایا۔
’’لو تو اور کیا کرے! اس کو صبح آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ امی نے تعجب سے اسے گھورتے ہوئےجواب دیا۔
’’امی! میں آپ کو بتارہی ہوں ، آپ اپنی بہو کو کنٹرول میں رکھیں، ورنہ اپنا ہی نقصان کریں گی، کچھ تو اپنا غصہ ظاہر کریں، آپ تو مزے سے ان سے باتیں کررہی ہیں ۔‘‘
’’زوبی! میری جان! تمہیں معلوم ہے ناں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ اب اگر میں ندا کے ساتھ زیادتی کروں،بلاوجہ اس پہ غصہ کروں ، کیا اللہ کو اچھا لگے گا؟ تم بتاؤ! اگر کوئی شخص میرے بچوں کو تنگ کرے ،کیا وہ مجھے اچھا لگے گا؟ نہی ناں! تو بالکل اسی طرح اللہ کے بندوں کو جب کوئی تنگ کرتا ہے تو اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ کو تو ایسے لوگ پسند ہیں جو دوسروں کےلیے آسانیاں پیدا کریں، دوسروں کے قصور معاف کریں، عفو و درگزر کا معاملہ رکھیں، نرم دل والے ہمدرد لوگ پسند ہیں اللہ تعالیٰ کو۔ ‘‘امی کے اتنی تفصیل سے سمجھانے پروہ بس ایک سرد آہ بھر کے رہ گئی، اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اس دنیا میں جو برا انسان ہے بس وہی عیش کر رہا ہے ۔ لحاظ، مروت کے مارے سیدھے سادھے نیک لولوگوںپر ہمیشہ سے ظلم ہی ہوتا ہے۔تھوڑی دیر بعد عفان آگیا تو وہ اپنے گھر چلی آئی۔ اگلے دن اس کی نند اپنے بچوں سمیت ان کے گھر پھر آموجود ہوئیں۔ پورا دن اسے دھڑکا ہی لگا رہا کہ اب کوئی فتنہ شروع ہوا کہ تب ،مگر شکر خدا کا ،پورا دن سکون سے گزرگیا۔ کھانے کے بعد عفان عشاء کےلیے مسجد چلا گیا ۔ اس نے سوچا کہ پورا دن تو قرآن کھولنے کا موقع نہیں ملا، اب عشاء کے بعد قرآن پڑھنے بیٹھ جاؤں گئ۔ وہ اماں اور عفیفہ آپا کو چائے دے کر اپنے کمرے میں جانے لگی تو اماں نے اس سے پوچھا: ’’تم نے اپنے لیے چائے نہیں بنائی؟‘‘ اماں کے لہجے میں شاذ ہی نرمی جھلکتی تھی۔ اس کا دل عجیب سے اندازمیں دھڑکا ۔
’’نہیں امی! میں نے سوچا پہلے عشاء کی نماز پڑھ لوں گی۔‘‘
’’اوں ہوں! اتنی میٹھی چائے، شکر ڈالی ہے یا پورا ڈبہ ہی انڈیل دیا ہے؟‘‘چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہی عفیفہ آپا نے ناگواری کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں، اماں بول پڑیں :’’کوئی بات نہیں! تم اس میں گرم دودھ ڈال لو عفیفہ، برابر ہوجائے گا۔‘‘ اماں کے یوں کہنے پر وہ آگے بڑھ گئی۔نماز پڑھ کر وہ اذکار پڑھنے لگی۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا رہ گیا تھا۔ باہر سے اماں اور آپا کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔
’’کیا ہے اماں! آپ بھی نہ جانے کس عورت کی باتوں میں آگئی ہیں۔‘‘عفیفہ آپا کی جھنجھلاتی آواز اسے سنائی دی۔
’’ارے وہ کوئی عام عورت نہیں تھی۔حافظ قرآن ہے، قرآن و حدیث کا بہت علم رکھتی ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال تولے جائیں گے، جس کسی نے انسان کے ساتھ زیادتی کی ہوگی، اس انسان کی عبادتیں اس کو دے دی جائیں گی، جس پر اس نے ظلم کیا ہوگا۔ اورہاں! کسی کو مارنا پیٹنا ہی ظلم نہیں ہوتا، لوگوں کو طعنے دینا، کسی کا دل دکھانا بھی ظلم ہے۔ اتنی محنت سے انسان عبادت کرتا ہے ،اسے اپنے عبادتوں کی فکر بھی کرنی چاہیے کہ کہیں ایسی ویسی غلط حرکتوں سے اس کی عبادتیں ضائع نہ ہو جائیں۔‘‘
’’اوہو اماں! کیا ہوگیا ہے، نہیں ضائع ہوتیںآپ کی عبادتیں، خوامخواہ وہم نہ پالیں۔ یہ درس والوں کی نصیحتیں بس دوسروں کےلیے ہوتی ہیں۔‘‘
’’یہ بھی بتایا درس والی باجی نے۔‘‘اماں نے عفیفہ آپا کو جھڑک کر ٹوکتے ہوئے کہا:’’ وہ کہہ رہی تھیں کہ یہی فرق ہے ،جو نیک ہوگا ، مومن ہوگا، اس کا دل ایسی باتوں سے خوف سے لرزے گا ۔ وہ ڈرے گا، توبہ کرے گا، اللہ سے اور جو ڈھیٹ ہوگا، بے خوف ہوگا، وہ ایسی باتوں پر کان نہیں دھرے گا ۔ وہ بے فکر رہے گا، ایسوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ عفیفہ! ہمیں ڈرنا چاہیے اللہ کے عذاب سے۔ پوری زندگی اتنی نمازیں پڑھیں میں نے، ہر رمضان روزے رکھے، قرآن پاک پڑھا روزانہ، سینکڑوں نوافل ادا کیے۔لو بھلا بتاؤ، کیا مفت میں کسی کے حوالے کردوں؟ نہ بابا نہ، میں تو باز آئی۔ مجھے تو ابھی عمرہ بھی کرنا ہے، پائی پائی جوڑ کر تو اس کا بندوبست ہوا ہے۔‘‘ اماں کی آواز رندھ گئی۔اسے پتہ ہی نہیں چلا، کب اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ دروازے کی درز سے باہر کے پیلے بلب کی ہلکی روشنی میں اسے سفید دوپٹے کے ہالے میں اماں کا معصوم بچوں جیسا چہرہ نظر آیا۔’’اور بیٹا! میرا آخری عشرے کا عمرہ ہے۔ بڑے نصیب والوں کو ملتا ہے آخری عشرے کا عمرہ۔ کہیں میرا عمرہ ہی ضائع نہ ہوجائے۔‘‘ اس کا دل چاہا، وہ یونہی بھاگ کر جائے اور اماں سے لپٹ جائے۔ رو رو کے ان سے کہے کہ اماں آپ کا عمرہ ضائع نہیں ہوگا، بالکل ضائع نہیں ہوگا ان شاء اللہ، کیونکہ آپ نے مجھے بھی گمراہ ہونے سے بچالیا اماں آپ نے، مجھے بھی بہکنے سے بچالیا …اماں!
Comments From Facebook

2 Comments

  1. Umm e Haaniya

    Shaandaar .Mukhtasar alfaaz me amal ki daawat deti khubsoorat tehreer .Allah karey zor e qalam aur ziyada .Adeeba muskaan ki khidmat me dobarah mubakbaad pesh hai .

    Reply
  2. نکہت اقبال

    اچھی باتیں اور بہترین عادات سیکھانے کا اس سے اچھا اور طریقہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ہر کردار نے ایک بہترین سبق دیا ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو نیک توفیق عطا فرمائے آمین

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢