دسمبر٢٠٢٢
سوال:
میرے شوہر نے دو(۲)برس سے مجھے میرے میکے چھوڑ رکھاہے۔نہ لے جاتے ہیں،نہ بچوں کے اخراجات دیتے ہیں۔ایک چھوٹے سے جھگڑے پر میں میکے آگئی تھی۔جب بھی رابطہ کرتی ہوں توکہتے ہیں کہ علیٰحدگی لے لو۔وہ مجھ پر خلع کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں،جب کہ میں خلع نہیں لینا چاہتی۔وہ چاہیں تو طلاق دے دیں،لیکن وہ مجھے خلع لینے پر مجبور کررہے ہیں۔
مشورہ دیں۔میں کیاکروں؟
جواب:

نکاح کے بعد لازم ہے کہ شوہر بیوی بچوں کو اپنے ساتھ رکھے اور بغیر کسی عذر کے خود سے دوٗرنہ کرے۔ اگر ملازمت ، تجارت یاکسی اور وجہ سے وہ ان سے الگ رہنے پر مجبور ہوتوان کی رہائش اور اخراجات کا معقول انتظام کرے۔ انہیں بے یارومددگار چھوڑ دینا غیر شریفانہ طرزِعمل ہے اورشریعت میں بھی اس سے منع کیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً ۔
(النساء: 129)
’’(ایسا نہ ہوکہ)تم اسے لٹکتاچھوڑدو۔اگرتم اپناطرزعمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہوتو اللہ چشم پوشی کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے۔‘‘
اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو ایک سے زیادہ نکاح کرناچاہتے ہوں ۔ان سے کہاگیاہے کہ اگر وہ دوسری بیوی لائیں توعدل وانصاف سے کام لیں، پہلی بیوی سے اعراض نہ کریں اور دونوں بیویوں کو برابر حقوق دیں۔ ساتھ ہی درست طرزِعمل اختیار کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ حکم اس صورت میں بھی ہے جب کسی شخص کی ایک ہی بیوی ہوکہ اسے لٹکاکررکھنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت برتنا جائز نہیں ہے۔
زوجین کے درمیان معمولی باتوں پر شکررنجی ہوجاتی ہے۔ایسی صورت میں نہ بیوی کے لیے مناسب ہے کہ وہ روٗٹھ کر اپنے میکے چلی جائے اور نہ شوہر کو زیب دیتاہے کہ اگر بیوی میکے چلی گئی ہے تواسے منانے اور اپنے گھر لانے کی کوشش نہ کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاہے : ’ ’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے ز یادہ قطع تعلق رکھے۔ یہ مناسب نہیں کہ وہ ملیں توایک اِدھر منہ پھیرلے اور دوسرا اُدھر۔ان میں بہتر وہ ہے جو آگے بڑھ کر سلام کرلے ۔ ‘ ‘ (بخاری: ۶۰۷۷،مسلم: ۲۵۶۰)اس کا اطلاق زوجین پر بھی ہوتاہے کہ اگر وہ کسی بات پر ایک دوسرے سے ناراض ہوگئے ہیں توباہم مصالحت کی کوشش کریں اور ان میں بہتر وہ ہے جو اس معاملے میں سبقت کرے۔
نکاح کے بعد زوجین کو رشتہ نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور معمولی شکایتوں پر علیٰحدگی کا نہ خیال ذہن میں لانا چاہیے ،نہ زبان سے اس کا اظہار کرنا چاہیے۔لیکن اگراختلافات اتنے بڑھ گئے ہوں کہ نباہ ممکن نہ ہوتو شریعت نے علیٰحدگی کا طریقہ بتایاہے۔ اگربیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، لیکن شوہر رشتے کو باقی رکھنے پر تیار نہ ہوتو وہ طلاق دے دے، اور اگر شوہر رشتہ باقی رکھنا چاہتاہے،لیکن بیوی اس کے ساتھ رہنے پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہ ہوتووہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اسے قبول کرلے۔ شوہر بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہ ہواور وہ بیوی پر دبائو ڈالے کہ میںطلاق نہیں دوں گا،تم خلع لے لو،یہ درست رویّہ نہیں ہے۔ یہ احکام ِشریعت کی پامالی ہے، اس سے بچناچاہیے۔
زوجین کے درمیان کوئی تنازعہ ہوجائے تو مصالحت کی راہ میں بسااوقات ان کی اَناحارج ہوجاتی ہے۔ دونوں اپنے مطالبات پراڑے رہتے ہیں اور ذرابھی نرمی نہیں دکھاتے۔ ایسے موقع پر دونوں کے اہل ِخاندان کو آگے بڑھ کر اور انہیں سمجھابجھاکر مصالحت کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً۔(النساء:35)
’’اور اگرتم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑجانے کا اندیشہ ہوتوایک حَکَم مرد کے رشتے داروں
میں سے اور ایک عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ دونوں اصلاح کرناچاہیں گے تواللہ
ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ اللہ سب کچھ جانتااور باخبرہے۔‘‘
اس آیت میں بتایاگیاہے کہ اگر دونوں(یعنی زوجین اور ان کے رشتہ دار)افہام وتفہیم اور مصالحت کی غرض سے مذکرات کریں گے توان کا تنازعہ دوٗر ہوجائے گا اور شکایات رفع ہوجائیں گی۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. نکہت اقبال

    جزاک اللّہ ۔ایسے ہی نوعیت کے بہت سے مسائل ہیں جس سے مسلم خواتین گزر رہی ہیں خدا خوفی مرد حضرات میں نام کو باقی نہیں ہے آپ کی اس تعلق سے رہنمائی کے لیے بہت شکریہ ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢