دسمبر٢٠٢٢
زمرہ : ادراك
خواتین کے تحفظ کا مسئلہ پوری دنیا کے نزدیک سب اہم اور انتظامات کے لحاظ سے ناقص ہے ۔ہمارے ملک میں تو ہر نیوز چینل پر آئے دن قتل کا واقعہ ایک نئے انداز سے سامنے آتا ہے ،کسی دوشیزہ کے ٹکڑے فریج میں رکھے ملتے ہیں یا کسی معصوم کی چیخیں بے بس مائیں سنتی ہیں ۔تب یہ ساحر کے الفاظ مزید سامنے آکر منہ چڑاتے ہیں :

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

قحبہ خانوں کے لیے ساحر ؔلدھیانوی کے الفاظ اس وقت تازہ ہوگئے ،جب لٹتی عصمتیں، برباد ہوتی زندگیاں اب قحبہ خانوں کی مرہونِ منت نہیں رہیں ۔اب تو گھروں کی چہار دیواریاں اور بلند و بالا تحفظ کے حرم بھی محفوظ نہیںرہے۔ ڈیجیٹل دور نے اب اس دوراہے پر لا کھڑا کیا کہ جب تک ایمان، اسلام اور جوابدہی کا احساس آپ کے دلوں میں جاگزیں نہ ہو جائے ،اب اس بات کی اہمیت نہیں رہی کہ اچھا ماحول آپ کو بربادی سے بچائے گا ۔ماحول آپ کو خود اچھا بنانا ہوگا کیونکہ اچھا ماحول اب خیال بن کر رہ گیا ہے۔بدلتے زمانے کے ساتھ لازم ٹھہرا کہ اپنی حفاظت کے وسائل آپ پیدا کیے جائیں اور جوابدہی کے احساس کو زندہ کیا جائے ۔اپنی مدد آپ اور اپنا تحفظ آپ کرنے کے لیے سیلف کنٹرول پیدا کرنا بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ،ورنہ ماحول تو خواتین کے لیے کسی طور محفوظ نہیں رہا ۔خواتین کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی کچھ عام شکلیں عصمت دری، جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات، بچیوں کی پیدائش، بچوں کی جبری شادی، اغوا اور خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات ہیں۔یہ واقعات پہلے سے موجود تھے ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، تاہم واقعات کی شکل و صورت میں تجدید ضرور ہو گئی ۔ خواتین عوامی مقامات پر محفوظ نہ تھیں نہ ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی نجی جگہوں پر محفوظ ہیں۔ گھریلو تشدد کے مختلف واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات جیسے ازدواجی عصمت دری، جہیز کے لیے قتل، ذہنی اذیت، دلہن کو جلانا، اور بچیوں کے بچے کی ہلاکت کے واقعات روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں۔خواتین اپنی ذاتی اور عوامی سطح پر محفوظ نہیں ہیں۔ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے لے کر قتل تک ہر روز تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ لیکن بہت کم تعداد میں کیس رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف چند فیصد ملزمان کو سزا ملتی ہے۔تازہ ترین واقعات کا جائزہ لیں ۔
پہلا کیس
ریاست اتر پردیش میں تین ڈاکٹرز نے27 سالہ ٹیچر لڑکی کو سوشل میڈیا دوستی کے بعد بہانے سے بلا کر ہاسپٹل کے ایک روم میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا یا، رپورٹ درج کی گئی ۔
دوسرا کیس
یہ بھی اسی ماہ کا تازہ بہ تازہ کیس ہے۔ میڈیا کے مطابق ’’ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی میں ایک خاتون نے ایف آئی آر درج کرائی جس میں 5 افراد پر اپنی بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔‘‘
تیسرا کیس
ریاست اتر پردیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ضلع اعظم گڑھ میں پرنس یادو نامی ایک شخص کو 20 سالہ لڑکی کے قتل کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یادو پر الزام ہے کہ اس نے مذکورہ لڑکی کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ لڑکی نے اس کے ساتھ شادی سے انکار کر کے کسی دوسرے سے شادی کر لی تھی۔
چوتھاکیس
میڈیا میں گذشتہ ایک ہفتے سے جس قتل پر سب سے زیادہ بحث ہوئی، وہ نوجوان خاتون شردھا واکر کا ہے۔اطلاعات کے مطابق انہوں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف نوجوان آفتاب پونے والا سے شادی کی تھی۔پولیس کا دعوی کہ آفتاب اور شردھا میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی جس، سے تنگ آ کر ملزم نے پہلے شردھا کا گلا گھونٹ کر ان کا قتل کیااور پھر لاش کے 35 ٹکڑے کر کے اپنی فرج میں رکھا۔ پھر ملزم نےہر روز تھوڑا تھوڑاکرکےان ٹکڑوں کو دہلی کے مضافات کے جنگل میں مختلف جگہوں پر پھینک دیا۔
پانچواں کیس
مہاراشٹر کے شہر پونہ کی ایک نویں جماعت کی طالبہ ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے گیم اسٹیشن پر ایک نوجوان کے ساتھVirtual Partner(مجازی شریک) بنتی ہے، محبت ہوتی ہے،فون نمبر کا تبادلہ ہوتا ہے، ملنے کے مقام کا تعین کیا جاتا ہے۔ جب وہ پہنچتی ہے تو وہاں کوئی ملنے نہیں آتا، پریشانی کی حالت میں ساری تفصیل والدین کو سناتی ہے ۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک میںسوشل سائٹس کے ذریعے تعلقات اور جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں، اس لیے ہندوستان کو’’ ریپستان‘‘ بھی کہا جانے لگا اور خود وطنی بہنوں نے جماعت اسلامی کی جانب سے منعقدہ سائبر بولینگ احتجاج کے موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ موجودہ سرکار میں گائے تو محفوظ ہے لیکن عورت محفوظ نہیں۔‘‘
انڈیا میں جنسی تشدد (Sexual Violence)
عروج پر ہے،  2011ءمیں ہر 20 منٹ پر انڈیا میںجنسی تشدد کے 24,206 واقعات رپورٹ ہوئے۔خواتین کے تحفظ کا مسئلہ صرف ہندوستان ہی کا نہیں ہے ۔بھارت میں خواتین کےمسائل 2014 ءسے موجود ہیں ۔ مسائل کو کم کرنے کے بجائے ہم یورپ کی تقلید، اندھی آزادی، مزید برآں سوشل میڈیا، گیم پلیٹ فارمز نے اسے آسان بنادیا ہے، جبکہ مغربی دنیا کی صورتحال تازہ بہ تازہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ 25 نومبر2022 ءکو منائے جانے والے’’خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمہ کے لیے بین الاقوامی دن‘‘ سے قبل اقوام متحدہ کےجنرل سکریٹری انتونیو گٹریس کا بیان سامنے آیا ہے۔ جنرل سکریٹری گٹریس نے کہا کہ’’خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد دنیا میں حقوق انسانی کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔ ہر 11 منٹ میں ایک خاتون یا لڑکی کو اس کے شریک حیات یعنی شوہر یا فیملی کے دیگرارکان کے ذریعہ مار دیا جاتا ہے۔خواتین کے تحفظ اور مساوات کے لیے متعدد قانون سازی اور اقدامات کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد اور جرائم کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔‘‘ تازہ اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں جذباتی جرم(Crime of Passion )کے سبب تیس فیصد عورتیں سابق شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں،ہر دو منٹ میں ایک عورت امریکہ میں جنسی تشدد(Sexual Violence) کا شکار ہوتی ہیں،یو ایس اے میں  83,425جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ کیے گئے۔
خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات (1) تعلیم و روزگار میں سہولیات کی فراہمی
چونکہ اب یہ رجحان بنا ہے کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے ،ذریعۂ معاش اختیارکرنے ، نیز تجارت کی آزادی حاصل ہے تو ان کا یہ بھی حق ہے کہ انہیں محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔واشنگٹن پوسٹ ویب سائٹ پر ایکArticle (مضمون)دیکھا جسےOlga Khazan and Rama Lakshmi   نےلکھا تھا، جس میں انڈیا میں جنسی تشدد کے کثرت سے بڑھتے ہوئے واقعات کی 10 وجوہات بتائی گئی تھیں ۔ Blaming provocative clothing: increased cases of sexual harassment خواتین کے ہیجان انگیز لباس کو ممنوع قرار دینا چاہیے، کجا کہ حکومت خواتین کےمکمل لباس پر توجہ دیتی الٹا حجاب کوہدف تنقید بنایا جارہا ہے ہمیں اس کے برعکس پرزور مکمل ساتر لباس کی تحریک چلانی چاہیے ۔انہی وجوہات میں دلیل بیان کی گئی کہ: ’’ 1996 ءمیں Judges (منصفین) کے ایک سروے کے مطابق 68 فیصدرائے دہندگان یہ کہتے ہیں کہ اشتعال انگیز کپڑے جنسی تشدد کے لیےابھارتے ہیں۔حتیٰ کہ راجستھان کے حکمران نے یہ مشورہ دیا کہ لڑکیوں کے لیے ممنوع قسم کے اسکرٹ کو بطور یونیفارم استعمال کرنا جنسی تشدد کے واقعات کے بڑھنے کا سبب ہے۔‘‘
(2)کیس درج کرنے کی سہولت اور مجرم کو سزا

مشہور صحافی عارفہ شیروانی نے کہا ہے کہ کیس درج کرنے کے System(نظام) کو بہت آسان بنانا چاہیے ۔
حکومت کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دیں۔حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور اس حوالے سے جو قوانین ہیں انہیں مزید کمزور کیا جا رہا ہے۔ ’’پہلے گھریلو تشدد کے معاملے میں FIR (ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ)فوری طور پر درج کی جاتی تھی، اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ پہلےEnquiry (تفتیش)ہو گی پھر کیس درج ہو گا اور انکوائری کا مطلب لڑکے والوں سے پیسہ کھا کر کیس کو بند کرنا ہے۔‘‘خواتین کا استحصال کرنے والے سائبر جرائم کو فوری طور پر رپورٹ کیا جانا چاہیے اور مجرموں کو سزا سےخلاصی نہیں ملنی چاہیے۔

(3) شراب پر پابندی
شراب مسلسل گھریلو تشدد کی ایک وجہ بن کر ابھری ہے۔ ایسی مختلف مثالیں ہیں ،جہاں شوہر شراب نوشی کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ پرتشدد رویہ ظاہر کرتے ہیں۔الکحل کو کسی کے کام کے دباؤ یا زندگی کے تناؤ کو دور کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن بالآخر اسے خواتین کے خلاف تشدد کے ایک عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد ہو یا خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی دوسری شکلیں، جہاں منو شرما اور نربھیا جیسے معاملات اس بات کا ثبوت ہیں کہ شراب خواتین کے خلاف تشدد کا عام عنصر تھا۔
(4)رسوم ورواج کا ترک
خواتین کے خلاف تشدد کی ایک اور وجہ روایتی اور ثقافتی مخلوط رسومات ہیں۔ بچوں کی شادی، اور غیرت کے نام پر قتل جیسے پرانے طریقوں کو اس کے مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تو اس ریسرچ کے تحفظ کے لیے تدارک کے بطور مشورے تھے مزید یہ اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں ۔
(5)نوجوانوں میں سافٹ اسکیل کا شعور
وشل میڈیا کے استعمال سے پہلے ہی نوجوانوں میں سافٹ اسکیل کا شعور پیدا کیا جائے ۔ سوشل میڈیا مینجمنٹ کے اسباق کواسکولی نصاب کا حصہ بنناچاہیے ۔
(6)جوابدہی کا احساس
Accountability (جوابدہی کا احساس) اور اپنے مستقبل کے تئیں ذمہ دارانہ رویے کی ترویج کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔
(7) معاشی تنگی دور کرنے کی کوشش
خواتین پر گھریلوتشدد کی بڑی وجہ معاشی تنگی بھی بتائی جارہی ہے۔ خواتین کی تجارت اور معاش کی شش کے لیے سہولت کو بھی یقینی بنانا چاہیے ۔
(8) فحاشی کے خلاف احتجاج
فحاشی کا ماحول اور اس سیلاب کی زد میں نوجوان نسلوں کی تباہی ہر سنجیدہ خاتون کودعوتِ فکر دیتی ہے ۔Netflix پر موجود سیریل کلر کی سیریز ،نوجوان نسل رات دن اسی میں صرف کررہی ہے، ہمیں متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔کرائم پیٹرول جیسی سیریز کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے ،یہی سیریز دراصل خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات، طریقے، اور قتل کے جدید طریقے غیر محسوس طورپر سکھارہے ہیں ۔
(9)ناجائز تعلقات کا خاتمہ
Live-in relationshipکے خلاف ماحول سازی حد درجے ضروری ہے ۔دنیا کے تمام مذاہب خاندان کی ابتداء اور تعلقات کی استواری کے لیے شادی جیسے کانٹریکٹ کو لازم قرار دیتے ہیں ۔یہ دستاویزی کارروائی یا نکاح دراصل سماجی طور پر ہر دو مرد و عورت کو پابند بناتی ہے، لیکن بوائے فرینڈ کلچر، آزادانہ بغیر شادی کے ایک ساتھ وقت گزاری کبھی کسی کو رشتے و تعلق کے لیے پابند نہیں کرتا ۔اسلام کی تعلیمات کو عام کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ جو بھی قانونی رشتہ ہوگا وہ فرد کو جوابدہ بنائے گا۔خاص طور پر اسلام نے عورت کے حقوق کے لیے خاص احکامات دیے ہیں ۔عورت اگر بیوی کی شکل میں ہے تو وہ چاہے جتنی بھی امیر ہو، اس کی معاشی ذمہ داریاں شوہر پر آتی ہیں۔ خاتون دفاعی معاملات میں ذمہ دار نہیں ہے لیکن یہ اس کا حق ہے کہ دفاعی تربیت اس کو دی جائے ،تاکہ وہ اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کر سکے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترہو۔ (سنن ترمذی ،صحیح ابن حبان) قرآن مجیدنے عورتوں کے تعلق سے فرمایا ہے : وعاشروھن بالمعروف (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزرا کیا کرو۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین برتاوٴ کی تاکید کی ہے ۔رسول کریم ﷺ نے اپنے الوداعی خطبے میں عورتوں کے بارے میں فرمایا: ’’اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، کیوں کہ وہ تمہاری دست نگر ہیںاور اپنے لیے خود کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ ان کا تم پر حق ہے اور تمہارا ان پر، کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کو تمہارے بستر پر نہ آنے دیں۔ اور کسی ایسے شخص کو گھر میں نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کر تے ہو، ان کی نافرمانی پر ان کو نصیحت کرو ،تم نے ان عورتوں کو اﷲ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور ان کی ناموس کو اﷲ کے نام پر حلال کیا ہے۔‘‘ اس بے مثال خطبے میں عورت کے اصل مقام و مرتبے کو واضح کردیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ فکری انحطاط، اخلاقی کجی اور دین سے دوری کے سبب جہاں دیگر احکام الٰہی اور قرآن کی تعلیمات کے مقابلہ ماحول کے غلبے نے نہ صرف ہم خواتین کو متاثرکیا،بلکہ ساتھ ہی نسلیں بھی متأثر ہورہی ہیں ۔خواتین کی موجودہ حیثیت کو ذہن میں رکھنا چاہیے، اور طاقت پر مبنی درجہ بندی کو ختم کرنے کے لیے صنفی مساوات پرمشتمل معاشرہ تشکیل دینا چاہیے۔ ہندوستان کو خواتین کے لیے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے مزید مؤثر قوانین بنانےچاہئیں اورحالات کے پیش نظرمناسب انداز میں قانون سازی کی جانی چاہیے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢