دسمبر٢٠٢٢
آسمان پر آفتاب غروب ہونے کو تھا ۔ شام کی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی ۔ انسانوں کی طرح پرندے بھی دن بھر کی تگ و دو کے بعد اپنے آشیانوں کو روانہ تھے ۔
ہر جان دار کا سب سے بنیادی مسئلہ رزق تھا ،حالانکہ قدرت نے سب کی ذمہ داری لے رکھی تھی پھر بھی ہر جاندار کل کےلیے رزق کا سوچ کرپریشان تھا ۔ رازق پر یقین تو تھا، لیکن انسانوں کو رزق کا ذخیرہ بھی جمع کرنا تھا ۔ پرندوں کا معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔ وہ ہر روز صبح طلوع فجر سے خدا کی حمد کرتے ہوئے رزق کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ،اورجب شام کا اندھیرا پھیلنے لگتا ہے تو اپنے آشیانے کو لوٹ جاتے ہیں ۔
اس روز بھی وہ ننھا سا پرندہ جس پر اپنے گھر کی ذمہ داری تھی، اپنے خوبصورت گھر کو لوٹ رہا تھا ۔ دن بھر کی جدو جہد کے بعد اپنے اہل خانہ سے ملنا اور انہیں خدا کی نعمت (رزق) فراہم کر ان کے چہروں کی خوشی دیکھنا، اس کی ساری تھکان دور کر دیتا تھا ۔ آج پورا دن ختم ہوگیا تھا، لیکن اسے رات کے کھانے کےلیے کچھ نہیں مل سکا تھا ۔
وہ پریشانی کی حالت میں ایک محلے کے چکر لگاتا رہا ۔ اس کے پر اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ پھر بھی وہ رزق کی جستجو میں ادھر ادھر پھر رہا تھا ۔ ہر طرف سے اس پرمایوسی چھانے لگی ۔ اسے اپنی پرواہ نہیں تھی، لیکن وہ اپنے بچوں کےلیے پریشان تھا ۔ بھوک ہو تو رات کو نرم بستر پر بھی نیند نہیں آتی ۔ باپ ہونے کے احساس نے اس میں پھر سے دم بھر دیا ۔ اس میں اب اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اڑتا پھرتا رزق کی تلاش کرتا ۔
دنیا پر آہستہ آہستہ اندھیرے کا قبضہ ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ وہ بہت مایوس کھڑا خدا سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا ،لیکن آج اس کا امتحان تھا ۔ اسے پورے دن کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا تھا ۔آخر اسے اب گھر بھی جانا تھا ،اس نے اڑان بھری ۔ خدا نے اس کی سن لی تھی ۔ اسے ایک چھت پر پاپڑ دکھ گئے، وہ فوراً اس چھت پر پہنچ گیا ۔ اپنے منہ میں ایک پاپڑ کا ٹکڑا دبایا، اتنے میں ہی گھر کے مکینوں کی آواز آنے لگی :’’ ہائیں چھو! زہرہ دیکھ پرندہ پاپڑ اٹھائے لے جا رہا ہے ۔‘‘ زہرہ بھاگتے ہوئے پرندے کوہکالنے لگی ۔ اتنے میں ہی پرندہ اڑ کر ایک درخت پر جا بیٹھا۔
چند شرارتی بچے پہلے ہی سے درخت کے نیچے کھیل رہے تھے ،ان میں زہرہ کا چھوٹا بھائی بھی شامل تھا ۔ اس نے چھت سے اپنے بھائی کو آواز لگائی اور پرندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی: ’’ میرے پاپڑ خراب کر گیا کمبخت ،مارو اسے!‘‘ شرارتی بچے ،
نا سمجھ پرندے سے بدلہ لینے کیلئے صف آرا ہوگئے ۔ کسی نے چھوٹی بڑی کنکریاں سب میں تقسیم کر دیں ۔ اب بچے اپنے پیچھے کے جیب سے غلیل نکال رہے تھے ۔ بےچارہ پرندہ وہیں درخت پر ہی بیٹھا ہوا تھا ۔ چند سکون کی سانسیں لے کرکوچ کرنے کی سوچ رہا تھا ۔ رزق کے مل جانے پر وہ خوش تھا، اور خداوند عظیم کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اچانک ایک چھوٹی کنکری بڑی رفتار سے اس کے منہ پر پڑی ۔ تیر نشانے پر لگا تھا ۔ بچوں کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ کنکر کے لگتے ہی کسی کی دن بھر کی کمائی ملیامیٹ ہو چکی تھی ۔ پرندہ ابھی سنبھل نہیں پایا تھا کہ مزید کنکریاں برق رفتاری سے اس پر برسنے لگیں ۔ ساری کنکریاں اس کے جسم پر برس چکی تھیں۔ اس کے اعصاب جواب دے چکے تھے ۔ تھکاوٹ کی وجہہ سے وہ پہلے ہی کمزور ہو چکا تھا۔ اب وہ گرنے والا تھا،اتنے میں ہی پپو نے نشانہ باندھتے ہوئے اپنے دوستوں کی توجہ چاہی ۔ سب پرندے کو دیکھ رہے تھے ۔ پپو نے غلیل میں بڑا پتھر ڈالا اور پوری طاقت سے ربڑ کو کھینچ کر پرندے کی جانب چھوڑ دیا ۔ پتھر ہوا کو چیرتے ہوئے پرندے کے پر پہ لگا تھا ۔ پتھر کے لگتے ہی پرندہ درخت سے نیچے گر گیا ۔ اس کے پر سے خون بہہ رہا تھا ۔ بچے دوڑتے ہوئے درخت کی جانب لپکے ،جہاں پرندہ گرا تھا ۔ سب پرندے کی طرف دائرہ بنائے کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک بچہ پرندے کی حالت دیکھ پپو کو ملامت کرنے لگا ۔ اس کی دیکھا دیکھی سب پپو کو ملامت کر رہے تھے ۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔ اندھیرے کا راج شروع ہو چکا تھا۔ بچے گھر کو لوٹ چکے تھے ۔
زخموں سے چور پرندہ اپنے گھر اور بچوں کی فکر میں تڑپ رہا تھا ۔ کیا قصور تھا اس معصوم پرندے کا جسےبے رحم انسانوں نے بری طرح زخمی کیا ؟ اندھیرا پوری طرح غالب آ چکا تھا ۔ پرندے کے زخموں سے خون رس رہا تھا ۔ بہت زیادہ خون کے بہہ جانے کی وجہہ سے اس کی جان پر بنی تھی ۔ پرندے کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، بڑے درد اور اذیت کے بعد وقفے وقفے سے ہلنے والا پرندہ خاموش ہوگیا ۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢