دسمبر٢٠٢٢
رائقہ کافی دیر سے مضطرب سی بیٹھی تھی۔اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔ٹینشن اس کے سر پر سوار تھا۔وہ اپنی کسی فرینڈ کی طرف سے کال کی منتظر تھی۔ایک تو اس کے ایگزام سر پر تھے۔اوپر سے کلاس میں کوئی مسئلہ ہوگیا تھا، جس پر میڈم نے اچھی خاصی ڈانٹ پلاکر پوری کلاس کے سامنے اسے بے عزت کیا تھا،پھراس کی فرینڈز مسلسل اس سے لاتعلقی کا مظاہرہ کررہی تھیں۔کسی فرینڈ نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ الٹا اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا۔زندگی میں پہلی دفعہ اسے کسی ٹیچر نے ڈانٹا تھا،وہ بھی اتنی بری طرح۔ اسے کلاس کے سامنے شدید سبکی کا احساس ہوا۔ دل عجیب انداز میں بوجھل اورپریشان ہورہا تھا۔کئی طرح کے وسوسے اس کے دل میں آرہے تھے۔
وہ ایک حساس لڑکی تھی۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجایا کرتی تھی۔ وہ سڑکوں پر ادھر سے ادھر گاڑی دوڑاتی رہی، اس کی گاڑی سے سامنے والی گاڑی ٹکرائی تھی۔اس کا دماغ آؤٹ ہوگیا۔ سامنے والی اسکوٹی ایک نقاب پوش لڑکی ڈرائیو کررہی تھی۔اس کے پیچھے ایک معمر خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ لڑکی جو دھکا لگنے پر گاڑی کا توازن برقرار نہ رکھ پائی، وہ پریشان سی گاڑی سے اتری،اور اس خاتون کو سہارا دے کر اٹھانےلگی جو گاڑی سے گرگئی تھی۔رائقہ بد حواس سی گھبرا کر گاڑی سے اتری اور اس لڑکی کی جانب بڑھی۔ اس نے بھی خاتون کو اٹھانے میں مددکی۔ وہ اس لڑکی کی امی تھیں۔ ان کے پیر میں چوٹیں آئی تھیں۔وہ لڑکی انھیں اسکوٹی پر بٹھا کر فوراً ہاسپیٹل لے گئی۔ رائقہ بھی اس کےپیچھے ہاسپیٹل پہنچی۔
معمر خاتون کے پیر میں فریکچرآیا تھا۔ رائقہ کا خوف کے مارے رنگ اڑ گیا تھا۔ اس لڑکی کے منع کرنے کے باوجود اس نے ہاسپیٹل کا بل ادا کیا۔ گھر واپسی تک وہ ان کے ساتھ ہی رہی تھی۔اس لڑکی کی دعوت پر بھی وہ ان کے گھر نہیں گئی، باہر سے ہی لوٹ آئی۔
زندگی میں پہلی دفعہ اس سے کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔دل بے قرار ہوا جا رہا تھا۔ذہنی اضطراب سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ گھر آکر، لائٹ آف کرکے آرام دہ بستر پر سو گئی۔ پرسکون نیند نے جلد ہی اس کا احاطہ کیا اور وہ نیند کی وادی میں چلی گئی۔نیند سے بیدار ہونے کے بعد بھی اس کی حالت میں کوئی تغیر نہیں آیا تھا۔
رائقہ نے منہ ہاتھ دھویا اور زینے سے اتر کر ہال نما کمرے میں چلی آئی۔وہاں موسیقی کا اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔چند دنوں بعد اس کے سب سے بڑے بھائی سعد کی شادی تھی۔مہمانوں سے کمرہ بھرا ہواتھا۔اس کو کمرے میں آتا دیکھ اس کی ساری کزنز اس کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ قریب آکے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیںکہ وہ بھی ان میں شامل ہوجائے۔ماحول خوب پرکشش تھا۔موسیقی ماحول میں نئے سُر گھول رہی تھی۔وہ قدم بہ قدم چلتی ہوئی مجمع میں داخل ہوئی۔کافی دیر تک صوفے پر بیٹھی وہ انجوائے کرنے کی کوشش کرتی رہی،لیکن اسے اندازہ ہورہا تھا کہ اس کے اضطراب میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ہمیشہ سے وہ جس موسیقی کو انجوائے کرتی آرہی تھی، وہی اس کے سر میں درد پیدا کر رہی تھی۔رائقہ نے اپنے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھتی محسوس کیں۔بظاہر وہ مسکرارہی تھی۔ لیکن اس کا اندرون سکون میں نہیں تھا۔اس کے سر درد میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ رقص کی شوقین اس کی کزنز نے میوزک کا والیوم ہائی کردیا۔ خواتین انھیں دیکھ کر خوش ہورہی تھیں۔ تالیاں بجا رہی تھیں۔خواتین کے مجمع سے تھوڑا فاصلے پر اس کے کزن بردرز بیٹھے کسی بات پر قہقہے لگا رہے تھے۔رائقہ بھی ہمیشہ سے ایسی محفلوں کو انجوائے کرتی آئی تھی۔لیکن آج جو پریشانی اور ٹینشن اس کا احاطہ کیے ہوئے تھی ،
ہر چیز میں اس کی عدم دلچسپی کا باعث بنی ہوئی تھی۔گھر میں کہیں پر بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اسے اپنے ذہن کے ساتھ ساتھ دل کا سکون بھی ختم ہوتا محسوس ہورہا تھا۔دل اچاٹ سا ہوگیا تھا۔زمین کا کوئی خطہ یا کوئی انسان اسےسکون فراہم نہیں کر پارہا تھا۔ وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی کہ کہاں جائے ؟کیا کرے؟
رائقہ کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھی۔اس وقت کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔اس نے کی اسٹینڈ پر لٹکی چابی نکالی اور دروازے کی سمت لپکی۔وہ پورچ میں کارز کے ساتھ کھڑی اپنی اسکوٹی تک آئی۔کپڑا نکال کر سیٹ پرجمی ڈسٹ کوجھاڑنے لگی۔ابھی وہ ہینڈل پکڑ کر گاڑی کو اسٹینڈ سے نکال ہی رہی تھی تب ایک خوبصورت سی مردانہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
(تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو ،پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر)(سورۃالرعد: 24)
آواز نہایت ہی خوبصورت اور کانوں میں رس گھول دینے والی تھی۔رائقہ نے بے اختیار گردن گھمائی۔اس نے دیکھا لان چیئر پر اس کےعمر بھائی جان بیٹھے ہیں،جوعمر میں اس سے چار سال بڑے تھے۔عمرنے اپنے ہاتھوں میں ایک کتاب پکڑ رکھی تھی۔نگاہیں اطراف و اکناف سے بے خبر کتاب کے صفحات پر ٹکی تھیں۔
وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
(رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں ، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانہ ہے۔)(سورۃالرعد : 25)
رائقہ نے پتلیاں سکیڑ کر بغور دیکھا تو علم ہوا کہ وہ قرآن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔عمر ایک آیت کی خوش الحانی سے قرأت کرتا،پھر اس کا ترجمہ پڑھتا جارہا تھا۔
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاع
(اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے ۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلےمیں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔) (سورۃالرعد: 26)
رائقہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے قریب جا رکی۔عمر پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ رائقہ نے اس کی پشت سے جھانکا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر قرآن کے صفحات کو تکنے لگی۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللَهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ
(یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی (صلی اللہ علیہ و سلم) کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ کہو! اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔)
(سورۃالرعد : 27)
’’عمر بھائی!‘‘وہ ایک آیت کے وقف پرٹھہرا تو اس نے ہولے سے پکارا۔عمر نے چونک کر گردن موڑی۔ اس کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔
’’رائقہ! کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھو ناں۔‘‘ عمر نے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔
’’سب لوگ اندر انجوائے کررہے ہیں،اور آپ یہاں تنہا بیٹھے ہیں۔‘‘
’’تم بھی تووہاں نہیں ہو۔ کہیں سے آرہی ہو یا کہیں جارہی ہو؟‘‘عمر نے اس کوعبایا پہنے دیکھا تو پوچھا۔
’’میں فرینڈ کے گھر جارہی تھی۔‘‘
’’اچھا۔ بیٹھو تھوڑی دیر۔ میں تمھیں ڈراپ کرتا ہوں۔‘‘ عمر کے کہنے پر وہ بیٹھ گئی۔ وہ پھر سے تلاوت میں مشغول ہوگیا تھا۔ لیکن اب اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ اتنی دھیمی کہ اسے بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ دانت سے ناخن کترتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نمیرہ (فرینڈ) کے گھر جا تو رہی تھی، لیکن وہ اس وقت اس سے ملنا پسند بھی کرے گی یا نہیں۔
’’کیا ہوا؟ ڈسٹرب لگ رہی ہو۔‘‘عمر نے اسے پرسوچ نظروں سے آسمان کو گھورتا ہوا دیکھا تو استفسار کیا۔ وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
’’نہیں تو۔ میں ڈسٹرب نہیں ہوں۔‘‘
’’تمھارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم ڈسٹرب ہو۔ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتاؤ۔‘‘
’’ اس کے اصرار پر رائقہ نے تفصیلاً سارا قصہ کہہ سنایا۔عمر چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔
’’ تم سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ پریشانی کی حالت میں ڈرائیونگ نہیں کرنی چاہیے۔لیکن تم کسی کی سنتی کہاں ہو۔‘‘ ا س نے سختی سے اس سے کہا۔ رائقہ کی گردن جھک گئی۔
’’تمھیں تو اپنی من مانی کرنی ہوتی ہے۔ اب دیکھ لیا نا ںانجام ‘‘ عمر غصے سے ہائپر ہورہا تھا۔ پہلے ہی اک خوف تھا، اضطراب الگ تھا، اوپر سے عمر بھائی کا غصہ۔ رائقہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اس کے آنسو دیکھ کر عمر کا غصہ پگھلنے لگا۔وہ نرم پڑنے لگا تھا۔
’’اچھا چلو چھوڑو۔ تم ان کے ساتھ ہاسپیٹل گئیں، ان کا بل ادا کیا، انھیں گھر ڈراپ کیا۔ یہ بہت اچھا کام ہے۔ قابل ستائش ہے۔اب تمھیں ان کی عیادت کے لیے جانا چاہیے تھا۔ کوئی بات نہیں۔ میں تمھیں تھوڑی دیر بعد ان کے گھر لے جاؤں گا۔ ان کی عیادت کےلیے۔‘‘عمر نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔ وہ ہنوز سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔
’’اوہو رائقہ کی آنکھوں میں آنسو بالکل اچھے نہیں لگتے۔‘‘ عمر نے مسکراہٹ دباتےہوئے کہا۔
’’ روتے ہوئے بالکل بلی لگتی ہے۔‘‘ اس کے اس طرح کہنے پر رائقہ ہلکا سا مسکرائی۔ اور نم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے بھائی میں بہت پریشان ہوں۔ رونا آرہا ہے مجھے۔‘‘
’’ڈرنے کی کیا بات ہے؟میں ہوں ناں، اور اس لڑکی نے تمھیں کچھ کہا؟ نہیں ناں؟ اس کی امی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ پھر کیوں ڈررہی ہو تم؟‘‘
’’مجھے ایک طرح کی بے چینی ہورہی ہے۔ آج صبح سے میں بے سکون رہی ہوں۔‘‘عمر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ چند پل اسے دیکھتا رہا۔پھر اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا پاکٹ قرآن کھولا اور وہیں سے تلاوت کرنے لگا، جہاں وہ رکا تھا۔ اس دفعہ اس کی آواز بلند تھی۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللَهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ

(یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی (صلی اللہ علیہ و سلم) کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ کہو   اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘(سورۃالرعد: 27)
آیت کے اختتام پر عمر نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ رائقہ کی نگاہیں خودبخود جھک گئیں۔ اسے عجیب سے احساس نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔عمر نے بغور اسے دیکھتے ہوئے نگاہیں آیات قرآنی پر ٹکا دیں۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

(ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اس نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبر دار رہو اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (سورۃالرعد : 28)
عمر نے اس کی جانب دیکھا۔رائقہ کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔وہ ہر جمعہ کوباقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی۔ لیکن کبھی اس نے کلام اللہ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کی کئی راتیں اور کئی دن بے سکونی میں کٹتے تھے، وہ کبھی کسی گیم، کبھی میوزک ، کبھی فرینڈز کے ساتھ تو کبھی ناولز میں سکون ڈھونڈنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ وہ خود کو تسلی دیتی تھی کہ اس کا بوجھل پنا رو اضطراب ختم ہوگیا ہے، لیکن وہ اس حقیقت سے واقف تھی کہ یہ چیزیں اس کی پریشانی کے ازالے کا سبب کبھی نہیں بنی تھیں۔ اس کے رب نے اس کے سکون کے لیے ایسا طریقہ بتایا تھا جس پر اسے کوئی شبہ نہیں تھا کہ اس میں واقعی دلوں کا اطمینان تھا۔ کتنا مہربان تھا اس کا رب اس پر۔ وہ اس کی رحمتوں سے انجان تھی۔ بےخبر تھی۔ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا۔
عمر اس کے چہرے کے نشیب و فراز کو دیکھتا ہوا اس کی کیفیت بخوبی سمجھ رہا تھا۔

أَلَا بِذِكْرِ اللَهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

(خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔)
عمر نے خوش الحانی سے آیت دہرائی۔

اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوۡبٰى لَهُمۡ وَحُسۡنُ مَاٰبٍ‏
(پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیا وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔) (سورۃ الرعد: 28 )
رائقہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ عمر نے شفقت سے اس کا سر تھپتھپایا۔عمر کے ساتھ اس خاتون کی عیادت کے بعد وہ لان میں اسی جگہ بیٹھ کر عمر کے ساتھ وہی آیات دہرا رہی تھی، جو عمر نے اسے سنائی تھیں۔رائقہ نے ایک نظر آسمان کو دیکھا۔آسمان پر چاند ستاروں کے ساتھ اپنی روشنی سے دھرتی کو روشن کیے ہوئے تھا۔عمر خوبصورتی کے ساتھ تلاوت کررہا تھا۔ اور وہ اس کے ساتھ دہرا رہی تھی۔ رائقہ کے دل کا بوجھ دھیرے دھیرے اتر رہا تھا۔اضطراب میں اس کے کمی آرہی تھی۔طمانیت اس پر طار ی ہورہی تھی۔ اس کا دل منور ہو رہاتھا۔

اَلَا بِذِكْرِ اللَهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

(خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔)

ویڈیو :

video link

آڈیو:

audio link

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢