دسمبر٢٠٢٢
بد عنوانی ایک ایسا موضوع ہے ،جس کو سن کر کسی خرابی کی طرف متوجہ ہونا لازمی ہے۔ اس کے معنی خرابی یا برائی کے ہیں، یعنی وہ طرز عمل جو کسی بھی طرح سے غیر اخلاقی اور نامناسب ہو۔ اپنے مفاد کی خاطر عدالتی نظام کے منظور شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کرنا اورغلط طرز عمل اختیار کرنا بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ ایک موذی مرض کی طرح سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی بیماری ہے ۔اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتے ہیں ۔چنانچہ نتیجۃًپورا ماحول اس کی زد میں آجاتا ہے۔ سماج کا پورا سسٹم بگڑ کر تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ہر کام پاور، رشوت اور دولت کے بل بوتے پر کرنے کا مزاج بنتا چلا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں میں بلیک مارکیٹنگ قیمتوں میں جان بوجھ کر اضافہ کرنا۔ سستامال مہنگا کر کے بیچنا ،کھلاڑیوں کی اسپاٹ فکسنگ، نوکریوں میں رشوت دے کر اچھی پوسٹ حاصل کرنا؛ یہ تمام چیزیں سامنے آتی ہیں۔
بدعنوانی میں ہندوستان کا شمار دنیا کے 180 ملکوں میں 85ویں نمبر پر ہے۔2021 ءمیں انٹرنیشنل ایجنسی (کرپشن پرسپشن انڈیکس) کی اسٹڈی کے مطابق انڈیا کا 85 واں نمبر ہے اور%62ہندوستانیوں کو کسی نہ کسی وقت سرکاری دفاتر میں رشوت دینے پر مجبورہوناپڑتاہے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 ءمیں ہندوستان کا30,500
( تیس ہزار پانچ سو) کروڑ روپیہ سوئس بینک میں جمع ہوا، جب کہ یہ ساری دولت بلیک منی ہے۔بدعنوانی کے خلاف برلن میں کام کرنے والی ایک این جی اوٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (Transparancy International) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت کو ایشیا کا سب سے کرپٹ ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دس میں سے سات ہندوستانی کسی نہ کسی سرکاری افسر کو نوکری کےلیے رشوت دیتا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سرکاری افسران اور پولیس رشوت کی رقم آپس میں بانٹتے ہیں۔
بدعنوانی کا باعث یا اس کی وجوہات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر سرکاری اسکیموں سے پیسے بٹورنا ،لوگوں کے کام کرنے کے لیے رشوت لینا اس میں شامل ہے ۔سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کی اس بات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ہر روپے میں سے صرف دس پیسے ہی فائدہ مند تک پہنچتے ہیں، باقی کو سرکاری افسران چھین لیتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایجنسی کا اندازہ ہے کہ ٹرک چلانے والے سالانہ 222 کروڑ روپیہ یعنی 28 ملین ڈالر رشوت دیتے ہیں، اور اس رقم میں سرکاری اہل کار اور پولیس کا حصہ بھی بالترتیب %43اور %45 ہے۔چیک پوائنٹ اور انٹری پوائنٹ کے راستے اندرجانے میں گیارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔سرکاری اہلکار ،پولیس فارسٹ سیلس اور ایکسائز ڈیوٹی، تول و پیمائش کے محکموں کی جانب سے سڑکوں پر زبردستی روکے جانے والوں سے% 60 فیصد رقم وصول کی جاتی ہے۔ان رکاوٹوں کی وجہ سے ہونے والا نقصان کافی تشویشناک ہے، اگر اس زبردستی سے ہونے والی تاخیر سے بچا جائے تو ٹرکوں کے سفر کی تعداد اور رفتار میں (چالیس فی صد) %40 اضافہ ہو سکتا ہے۔ 2007ءکی ورلڈ بینک کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اگر رشوت لینے والی بدعنوانی کو روک دیا جائے اور ان اسٹاپ کو ختم کردیا جائے تو دہلی ممبئی کے سفر کا وقت فی سفر تقریباً دو دن کم ہو سکتا ہے ۔
بد عنوانی کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بدعنوانی ایک ناسور کی طرح پھیلنے والی بیماری بن چکی ہے۔ انسان پر امیر بننے کی دھن سوار ہے ۔عوام امیر اور امیر امیر تر بننے کی دھن میں لگے ہیں،لوگوں کےناپنے کا پیمانہ بھی بدلتا جا رہا ہے۔ جہاں پہلے یہ پیمانہ ٔشرافت تھی، وہاں اب دولت قابل عزت ہے ۔ایک معمولی مزدور سے لے کر حاکم بالا تک ہر جگہ بد عنوانی موجود ہے، جس کو جہاں موقع ملتا ہے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے ۔بنا پڑھائی کے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر لینابڑے بڑے عہدے صرف رشوت اور سفارش کے ذریعے حاصل کر لینا عام ہوتا جا رہا ہے۔حتیٰ کہ ایک پھل اور سبزی بیچنے والا بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اس کی وجوہات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ ضابطے مشکل ٹیکسیز اور لائسنس سسٹم، مبہم بیوروکریسی لوگوں کی خدمات وسہولیات کی فراہمی پرحکومت کے زیر کنٹرول اداروں کی اجارہ داری شفاف قوانین اور اس پر عمل کا فقدان ان کی وجوہات میں شامل ہے ، اسی کے ساتھ ساتھ کرپشن کی بڑی وجہ کرپٹ سیاستدان بھی ہیں۔
2009 ءکی ایک تحقیق کے مطابق پارلیمنٹ کے 542 ارکان میں سے 120 کا مجرمانہ ریکارڈ پایا گیا ۔ 2010 ءکے بعد بہت سے بڑے بڑے گھوٹالوں میں وزرائے اعلیٰ بھی شامل رہے ہیں، جیسا کہ 2010 ءمیں کامن ویلتھ گیمز گھوٹالا 7000کروڑ روپے کا بتایا جاتا ہے۔ لہذا اسکیم ٹائم ایک لاکھ تیس کروڑ کا بتایا جاتا ہے، اسی طرح آدرش ہاؤسنگ سو سائٹی گھوٹالہ،کول مائننگ اسکیم گھوٹالا 1.86لاکھ روپیہ کا بتایا جاتا ہے۔اس طرح بھارت کے دیگر بڑے گھوٹالوں میں وجے مالیہ گھوٹالا 9000کروڑ روپے بھی انہی بڑی بدعنوانیوں میں شامل ہے۔ 2016 ءمیں مالیہ نے ملک میں دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے بعد ملک سے فرار ہو کر برطانیہ میں پناہ لی تھی، اس پر صاف طور پر مختلف بینکوں کا 9000کروڑ روپے کا قرض تھا، جو اس نے اپنی ناکارہ کنگ فشر ایئر لائنز کو ناکام ہونے سے بچانے کے لیے قرض کے طور پر لیا تھا اسے حال ہی میں مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ کے تحت فرار شدہ معاشی مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح ملک کے دیگر گھوٹالے بھی ہیں ان میں سے ایک پنجاب نیشنل بینک فراڈ,356.86,14 کروڑ روپے کا ہے ،جن میں نیرو مودی، نشان مودی ،میہول چوکسی شامل رہے ہیں۔ اس طرح کارگل تابوت اسکینڈل بھی تھا جس میں وزیر دفاع جارج فرنانڈیز ملزم قرار پائے تھے۔ملک میں انسدادبدعنوانی قوانین کے باوجود کرپشن اسکینڈلز ہو رہے ہیں۔ لوک پال جو 2019 ءمیں بد عنوانی کو روکنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا تھا، وہ ملک میں میں بد عنوانی کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اپریل 2022 ءمیں جاری کردہ امریکی محکمہ ٔخارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسداد بدعنوانی محکمے ناکارہ تنظیموں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کرپٹ بیوروکریٹس اورسیاستدان بدعنوانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مختلف سطحوں پر بدعنوانی ہوتی ہے۔اس میں پولیس کا تحفظ، اسکولوں میں داخلہ ،پانی کی فراہمی، سرکاری امداد جیسی خدمات کو تیز کرنے کے لیے رشوت کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
پروفیسر ببیک ڈیبراے(Prof. Bebek Debroy)اور لویش بھنڈاری (Lawish Bhandari)نے اپنی کتاب کرپشن ان انڈیا:دی ڈی این اے اینڈ ار این اے Corruption in) india:the DNA and RNA)میں دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان کے سرکاری افسران ہر سال تقریبا ,100, 92 کروڑ روپیہ کا غبن سرکاری خزانے سے کرتے ہیں اور ہندوستان کی کل GDP کا تقریبا % 5 یہ رقم ہوتی ہے۔اس کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس رقم کا زیادہ حصہ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے اور اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔
ان دعووں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری دفاتر میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کی جڑیں کس قدر گہری ہیںArnst Young&کی رپورٹ کے مطابق جن شعبوں میں سب سے زیادہ بد عنوانی اور رشوت خوری عام ہےوہ ہیں:
Infrastructure & Real state
Arospace & Defence
Metals & Mining
Power & Utilities
کرپشن اسٹڈی میں بتایاگیا ہے کہ سرکاری دفاتر میں کرپشن کی وجہ سے سماج کے سب سےزیادہ غریب طبقات متأثر ہوتے ہیں۔یہ کرپشن دیہی اور شہری علاقوں میں دونوں جگہ ایک جیسا ہی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق کرپشن ہندوستانی شہریوں کا سوئس بینکوں میں رکھا گیا پیسہ بلیک منی بہت زیادہ ہے، جو تقریباً 456 ملین امریکی ڈالر بتایا جاتا ہے۔ بی جے پی جب 2014 ءمیں اقتدار میں آئی تو اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ Swiss بینکوں سے کالا دھن واپس لائے گی، لیکن افسوس کہ یہ وعدہ خواب و خیال بن کر رہ گیا۔ان تمام رپورٹس اور حقائق مع اعداد و شمار کو دیکھ کر بد عنوانی کی بڑھتی ہوئی جڑوں کو اکھاڑ کر ماحول کو کس طرح صاف اور ستھرا بنایا جائے، یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔
عالمی یوم بدعنوانی جو کہ ہر سال نو دسمبر کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، وہ ہمیں اس کی وجوہات پر غور کرنے کی دعوت تو ضرور دیتا ہے، لیکن اس کی وجوہات اور اس کے حل پر اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے ۔کسی برائی کی صرف اعداد و شمار کی رپورٹ اس بات کی غمازی تو ضرور کرتی ہے کہ مسئلہ کافی پیچیدہ اور سنگین ہے، لیکن یہ اس کا حل پیش کرنے میں نا کام ہے ۔بین الاقوامی اور ملکی سطح پر بدعنوانی کی وجوہات پر غور کریں تو عدم اطمینان، عدم مساوات، خودغرضی ،ضمیرفروشی، کم ظرفی، اپنے آپ کو دولت مند اور امیر تر بنانے کا خواب؛ یہ وہ نفسانی خواہشات ہیں جو اس کےپیچھے کار فرما ہیں،اور اس قبیح برائی کو ایک متعدی مرض کی طرح پھیلا نے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ اس کا علاج ناممکن سا ہوتا نظر آتاہے ،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رشوت اور گھوٹالے میں پھنسنے والا رشوت دے کر اس سے آزادی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح سیاسی فائدے کے لیے بڑے سے بڑے مجرم کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک فعل ہے ۔اس سے سماج کی اخلاقی قدریں مجروح ہوتی ہیں۔ اس قومی خیانت سے لوگوں کو روکنے اور اس پر پابندی لگانے کے لیے قوانین کی سختی کے ساتھ حکومتوں کو بھی اس پر دھیان دینا چاہیے ۔
بد عنوانی زندگی کے تمام شعبوں میں اس قدر سرایت کرتی جا رہی ہے کہ معتبر اور باوقار پیشے اور عہدے بھی اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹرز کا پیشہ ہی لے لیں، مریض کی جان سے کھلواڑ اورمحض پیسوں کی خاطر مرض کو سنگین بنا کر مہنگے علاج کے لیے مجبور کر نا عام ہوتا جارہا ہے۔ دوائیوں کے نام پر بھی خوب دھوکہ دھڑی کی جارہی ہے۔ نقلی اور جعلی دوائیاںمریضوں کی جان سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی طرح رشوت خوری تعلیمی شعبوں میں داخل ہوچکی ہے۔ پیسے سے ڈگری حاصل کرنے اور اچھی نوکریاں رشوت دیکر حاصل کرنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح مظلوموں کی خواتین اور بچوں کے حقوق ادانہ کرنا، وراثت میں خواتین کا حق مار لینا وغیرہ کواب برائی نہیں سمجھاجاتا۔اسی طرح پبلک کے فائدہ کے تمام شعبوں کاپرائیویٹائزیشن ،بجلی کے بل ادانہ کرکے رشوت دے کر معاف کر وانا، چوری کی بجلی استعمال کرنا، بینکوں کے قرضے لے کر فرار ہوجانا؛ یہ سب دھوکہ، دھاندلی اور بدعنوانی کی ہی شکلیں ہیں، جو کہ اس وقت سماج میں پھیلتی جا رہی ہیں،ان پر روک لگانے کے لیےہم مذہبی تعلیمات کو ایک بار پھر سے تازہ کرلیں اور یہ دیکھیں کہ اس بیماری کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے کھانے اور سماج سے رشوت خو ری کے رواج کو ختم کر نے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق ادا ہوں، ناحق کسی کے مال کو نہ ہڑپا جائے۔ اپنی غرض کے لیے کسی سے مطالبہ کرکے رشوت نہ لی جائے، کھلے اور چھپے ہر حال میں اس سے بچنے کی ضرورت ہے ۔
کسی حاکم کے سامنے پیش کی جانے والی رقم اپنے مطالبے پورے کروانے کے لیے بالکل بند ہو نی چاہیے ۔
ہم دیکھیں کہ قرآن میں اس پر سخت وعید آئی ہے:
’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اس کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کو مل جائے۔‘‘
( سورۃ البقرہ، آیت: 188)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ ان کے درمیان دلالی کرنے والے پر بھی لعنت ہے۔ ایک اور مقام پر قرآن میں فرمایا:
یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاتُلْهِکُمْ أَمْوالُکُمْ
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ ۔‘‘(سورۃ النساء، آیت : 29)
اس طرح معاشرے میں ایک دوسرے کے مال نا روا اور باطل طریقے سے کھانا ناجائز اور حرام قرار دیاگیا اور اسی طرح لوگوں کے حقوق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم کرکے رشوت کےلین دین سےروکا گیا۔رشوت اس مال کو کہتے ہیں جس کو کوئی اپنے مطالبہ پورا کرنے کے لیے کسی صاحب اقتدار شخص کو یا حاکم کو دیتا ہے، تاکہ اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے۔رشوت اگر لیناگناہ ہے تو دینا بھی کسی طرح جائز نہیں ہے، بلکہ اس کام میں مدد کرنا، دلالی کرنا، رشوت لینے اور دینے میں راشی و مرتشی کا کام بنانا بھی گناہ ہے۔ رشوت کی ممانعت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کو تحفے تحائف اور ہدیے پیش کرنے اور حکام کے قبول کرنے سے بھی منع فرمایا، کہا کہ ’’جو ہدیہ وصول کرتے ہیں یہ بھی خیانت ہے۔‘‘
اسلام کی تعلیمات میں ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ کسی کو حاکم مقرر کیا گیا ہو اور اس نے ہدیہ یا تحفہ لیا ہو اور اسے نصیحت کرکے اس تحفہ کو ناجائز قرارنہ دیا گیا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ د یں، وہ ا گراس تنخواہ کے بعد بھی کچھ وصول کرےتو یہ خیانت ہے۔‘‘
ؒخلاصہ یہ کہ اس طرح رشوت لینا اور دینا دونوں پر سخت پابندی عائد کر کے اسے حرام قرار دے کر سماج سے بدعنوانی اور برائی کا سدباب کر دیا گیا ۔ رشوت لینا دینا صرف مسلم حکمران اور مسلم رعایا کے لیے نہیں ،بلکہ مشرک،یہودی ہو یا ہندو، یا کوئی بھی ہو؛بے انصافی کرنا ہر ایک کے لیے حرام قرار دیا گیا۔ اس کی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملیں گی،جہاں یہودیوں نے اپنے دستور کے مطابق مسلم حکمرانوں کو رشوت دینی چاہی مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔
لہٰذا، آج دنیا سے اس قبیح برائی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ان تعلیمات پر دوبارہ غور کرنے اور اسے سماج میں رائج کرنے کے لیےلوگوں کو آمادہ کرنا چاہیے اور اسے عام کرنا چاہیے، تا کہ دنیا سے بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور کرپشن کے سیلاب کو روکا جا سکے اور اس لعنت سے سماج کو بچایا جا سکے، جس کی زدپر ہر چھوٹا بڑا بچہ ا ور بوڑھا آچکا ہے۔ جس نے ہر مقام پر ماحول کو پراگندہ کر رکھا ہے۔
بین الاقوامی اور ملکی سطح پر بدعنوانی کی وجوہات پر غور کریں تو عدم اطمینان، عدم مساوات، خودغرضی ،ضمیرفروشی، کم ظرفی، اپنے آپ کو دولت مند اور امیر تر بنانے کا خواب؛ یہ وہ نفسانی خواہشات ہیں جو اس کےپیچھے کار فرما ہیں،اور اس قبیح برائی کو ایک متعدی مرض کی طرح پھیلا نے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ اس کا علاج ناممکن سا ہوتا نظر آتاہے ،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رشوت اور گھوٹالے میں پھنسنے والا رشوت دے کر اس سے آزادی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح سیاسی فائدے کے لیے بڑے سے بڑے مجرم کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک فعل ہے ۔اس سے سماج کی اخلاقی قدریں مجروح ہوتی ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

audio link
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢