در اصل مغربی تہذیب اور اس کے بڑھتے رجحان نے امت مسلمہ کو دین سے کوسوں دور پھینک دیا ہے ،جہاں عورت لفظ کی تکمیل ہی اس کے ماں ہو جانے میں پنہاں ہے ،وہاں حمساء کو اس تکمیل سے ہی دور کر دیا گیا اور وہ بھی کسی اور نے نہیں، اس کے اپنے مجازی خدا نے۔حمساء کے شوہر کا یہ کہنا کہ بچے ہماری آزادی میں خلل ڈالیں گے یا یہ کہ بچوں کا شور شرابہ پسند نہیں، ایک نہایت ہی Illogical اور چھوٹی ذہنیت کا ثبوت ہے ۔
یہ بات جان کر بھی حیرانی ہوئی کہ دونوں کے درمیان شادی سے پہلے ہی اس بےتکی بات پر معاہدہ ہو چکا تھا ،جسے حمساء نے محض مذاق جانا تھا۔
رہنمائی
سب سے پہلے تو ہم یہ جان لیں کہ نکاح جیسا مضبوط رشتہ جو تمام عمر کا ساتھ نبھانے کے لیےقائم کیا جاتا ہے، اس کا کسی بھی بنا پر ختم ہو جانا سراسر تکلیف کا باعث ہوتا ہے، اور جہاں وجہ بالکل ہی معقول نہ ہو ،جہاں دونوں پڑھے لکھے ہوں ،وہاں یہ رشتہ اگر ختم ہوتا ہے تو مزید تکلیف ہوتی ہے ۔ہمارا پیارا اسلام اللّه تعالیٰ کا نازل کردہ وہ دین ہے، جسے اللّه تعالیٰ نے انسانوں کے مزاج اور فطرت کے عین مطابق بنایا ہے، اس میں افراط ہے نہ تفریط۔
انسان کے اندر موجودانسانی اور حیوانی؛ دونوں جذبات سے اسلام اس طرح بحث کرتا ہے کہ انسان ،انسان ہی رہے حیوان نہ بننے پائے، مگر یہ اتنا پیارا شعور کب پیدا ہوتا ہے؟ جب انسان اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ،اور اپنے اندر کے انسان کو حیوان بننے سےروکے رکھتا ہے ۔
اولاد جیسا حسین تحفہ، جسے پانے کے لیے لاکھوں لوگ اپنی عمر گزار دیتے ہیں، جسے پانے کے لیے قرآن میں جگہ جگہ پیغمبروں نے اپنے مالک حقیقی سے دعائیں مانگی ہیں ۔سورۃ الصافات کی آیت نمبر 100 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی:
(اے میرے رب مجھے ایک صالح (لڑکا) عطا کر۔)
سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 89 میں حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی:
(اے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔)
زکریا علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کی وہ گھڑی تھی، جبکہ وہ پوری طرح بوڑھے ہو چکے تھے ،لیکن اللّه کے یہاں کوئی کام مشکل نہیں۔
بہرحال، انسان اولاد کی تمنّا کرتا ہے اپنے نسب کو آگے بڑھانے کے لیے،اپنےبڑھاپے کی عمر کا سہارا بننے کے لیے،اور پھر اسی اولاد کی اچّھی تربیت کرکے اسے نیک اور صالح بناکر اپنی آخرت کا سامان بھی کرتا ہے کہ یہ نیک اولاد اس کے لیے صدقۂ جاریہ بن جاتی ہے، مگر افسوس دین سے دوری نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو ہی والدین یہ سمجھا کر رکھیں کہ نکاح کا اصل حصول ہی نسب کو بڑھانا ہے ۔لڑکا اور لڑکی جب نکاح میں بندھ جائیں ایک دوسرے کے ساتھ، تو ان کی آپسی محبت، ان کی گہری قربت، ان کاساتھ نبھانا مرتے دم تک ۔ان سب باتوں میں ان کی اولاد جو ان دونوں کا ملا جلا عکس ہے ،ایک مضبوط کڑی ثابت ہوگی ۔
نکاح سے قبل اگر لڑکا اور لڑکی آپس میں بات کرتے ہیں، تو والدین کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کس قِسم کی ہے ،خاص طورپر ماں کو اپنے بچوں پر یقین رکھتے ہوئے ان سےگاہے بگاہے پوچھ لینا چاہیے کہ کوئی مسئلہ تو نہیں؟ نکاح سے قبل ذہنی ہم آہنگی کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔جیسا کہ اس کیس میں پتہ چلا کہ شادی سے پہلے اولاد کی چاہت نہ رکھنے جیسی کسی بےتکی بات پر دونوں کے درمیان رضامندی ہو چکی تھی ،جو بعد میں تکلیف کی وجہ بنی ۔
انسان پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی رحمت سے دور رہنا چاہتا ہے ،اسکی تدابیر یہ ہی ہو سکتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت پر چلنے کی کوشش کریں ۔قرآن کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ کریں، واحد یہ ہی وہ معجزہ ہے جو قدم قدم پر ہماری رہ نمائی کرتا ہے ۔آخر ایک عمر کو تو انسان کو پہنچنا ہی ہے ،جب جسم کام نہیںدےگا ،جوانی ڈھل جائےگی ،نہ ذہن کام کرےگا، نہ جسم کے باقی اعضاء۔
ایسے وقت پر انسان کیوں یہ بھول جاتا ہے کہ اولاد اس کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے ۔اگر وہ جان بوجھ کر اس سے محروم رہا ،اور قدرت کے نظام میں اپنی منمانی کی تو سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں،اور اس سے بڑھ کر آخرت کی سزا۔
ویڈیو :
آڈیو:
audio link
ماشاءاللہ بہت خوب ۔۔۔۔
اسسے بحتر اس مسئلہ کا اور کوئی ھل نہی ہو سکتا ?
ماشاء االلّہ ۔۔۔۔بہت بہترین??