دسمبر٢٠٢٢
بر صغیر میں متنوع تہذیب وثقافت کے حامل ملک ہندوستان کو ابتدا سے ہی نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ تکثیری خصوصیات کا حامل ملک اپنے آپ میں ایک ایسی انجمن ہے، جس کی تاباں کرنوں نے حیات انسانی کے تمام شعبہ جات کو منور کیا۔ تاریخی شواہد اس بات پرمبنی ہیں کہ سیاست و معرفت کا میدان ہو یا اقتصاد و معیشت کی میزان ، تہذیب وتمدن کی آن ہو یا علم و ہنر کی شان، دین و مذہب کی پہچان ہو یا ٹیکنالوجی و جدید وسائل کی باران ، اقتدار و حکومت کا سلیمان ہو یا حکمت و بصیرت کا لقمان، اتحاد و یگانگت کا استان ہو یا شجاعت و بہادری کامیدان ، محبت و الفت کا فیضان ہو یا معاشرتی ایوان ، ہرمقام پرملک ہندوستان نے ایسی نابغۂ روزگار ہستیوں کو اپنی آغوش میں پروان چڑھایا، جنہوں نے اقوام عالم میں اپنی لیاقتوں کا لوہا منوایا اور اپنے رشحات قلم سے علم و فن کی خدمت کی اور ملت کی ادبی و ملی ، معاشی و معاشرتی نمو میں نمایاں کردار ادا کیا۔
قرآن و سنت کے آثار اس بات پر شاہد ہیں کہ انسانی تخلیق اور علم و معرفت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تخلیق آدم کے بعد رب کائنات نے انسان اول کو سب سے پہلے جس چیز سے سرفراز کیا وہ اشیاء کا علم تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و علم آدم الأسماءکلھا
( اور آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔)( البقرة: 31)
یہ وہ علم اشیاء ہی ہے جس کی بنا پر انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے، اور دین اسلام جس کا آغاز لفظ ’’ اقرأ ‘‘ سے ہوا، وہ علم کی بنا پر ہی بایں طورمنفرد و ممتاز حیثیت کا حامل ہوا کہ وہ سراپا علم بن کر تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ لہذا علم کی اسی فضیلت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود منبع علم و فیض بن کر انسانیت کو راہ مستقیم کی رہنما‎ئی کی اور فرمایا :
إنما بعثت معلما
( مجھے تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیاہے۔)
یہی نہیں بلکہ لوگوں کو علم کے حصول کی ترغیب دی اور علم کے اثرات کو واضح کرتے ہوئے علم اور اہل علم کو معزز ٹھہرایا اور علم سے پہلو تہی کے نقصانات سے آگاہ کیا۔
زیر نظر مقالہ بعنوان’’ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :عصر حاضر کے تناظر میں ‘‘ تین اساسی محور پر مشتمل ایک فکری زاویہ پیش کرتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہے:
(1)مسلمانوں کی شرح خواندگی مختلف رپورٹس کے تناظر میں
(2)مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب
(3)مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کامسئلہ اور اس کا حل
علم و تعلیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجددین و مفکرین نے تعلیم کو عصری ترقی و فروغ کا موجب قرار دیا۔ چنانچہ حقوق انسانی کے ایک افریقی نژاد امریکی کارکن نے کہا ہے:
Education is the passport of the future for tomorrow belong to those who prepare for it today.
(تعلیم کل کے مستقبل کا پاسپورٹ ہے ان لوگوں کے لیے جو آج اس کی تیاری کرتے ہیں۔)
اور مصلح قوم اور مفکر ملت سر سید احمد خان نے کہا
When a nation becomes devoid of Arts and learning. It invites poverty and when poverty comes brings in its wake thousands of crimes.
(جب کوئی قوم فن اور علم سے عاری ہو جاتی ہے۔ تو یہ غربت کو دعوت دیتا ہے اور جب غربت آتی ہے تو ہزاروں جرائم کو جنم دیتی ہے۔)
بین الاقوامی سطح پر اگر مسلمانوں کی شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف شفاف آئینے کی طرح نظر آتی ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کی راہ تعلیم میں مضمر ہے اور دنیا میں حکومت کی باگ ڈور وہی سنبھالتا ہے جو سائنس و علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہو۔ مجموعی سطح پر کیے گئے سروے کے نتیجے میں سامنے آنے والےاعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بائیس عرب ملکوں میں سالانہ تین سو کے قریب کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے، جب کہ صرف یونان میں اس کا پانچ گنا زیادہ ترجمے کا کام ہوتا ہے۔ اسلامی ملکوں میں کیے گئے تمام تراجم مذہبی اور اسلامی نوعیت کے ہوتے ہیں جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر کام صفر ہوتا ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی شرح صرف چالیس فیصد ہے جب کہ 2005 ءکی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 78 فیصد عیسائی تعلیم یافتہ تھے۔ 17 مسلم ممالک میں آدھی سے زیادہ بالغ آبادی پڑھنا لکھنا نہیں جانتی ،جن کی اکثریت مسلم خواتین کی ہے۔
بھارت میں 2006 ءمیں قائم کی گئی سچر کمیٹی کی پیش کردہ 2011 ءکی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی مجموعی شرح خواندگی کا تناسب 57 فیصد تھا جب کہ دیگر قوموں کا مجموعی تناسب74.4% تھا ۔ اور GAR کی روشنی میں 17 سال کی عمر میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح% 17جب کہ دیگر قوموں کی شرح 26% ، مڈل اسکول کی تعلیم لینے والے مسلم طلبہ کا تناسب% 50.5 جب کہ دیگر قوموں کا تناسب% 62تھا۔ دیگر قوموں کا اگر انفرادی تعلیمی جائزہ لیا جائے تو ہندؤں کا تناسب،جینیوں کا 86.4 %،عیسائیوں کا74.3 ،بدھسٹوں کا% 71.8 اور سکھوں کا67.5% تھا۔
اور حالیہ ٹائمز آف انڈیا کی 2018 ءمیں پیش کردہ 75 ویں رپورٹ کے مطابق مسلم شرح خواندگی کا تناسب دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک کم ہے۔ یہ سروے واضح کرتا ہے کہ سیکنڈری سطح پر مسلمانوں کی شرح تعلیم71.9% جب کہ ST کا79.8% اور SC کا85.8% ہے۔ اسی طرح ہائر سیکنڈری سطح پر مسلم کی شرح تعلیم 14.5% ST کا%14.4 اور SCS کا% 17.8 ہے۔ اور تین سے 35 سال کے درمیان مسلم طبقہ میں سب سے زیادہ شرح ان بچوں کی ملتی ہے جو کبھی کسی اسکول یا ادارے میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔ 2010- 2011 ءاور 2018- 2019 ء
کے مابین کیے گئے آل انڈیا سروے ان ہائر ایجوکیشن رپورٹس کے مطابق
( AISHE) اعلی ٰایجوکیشن میں مسلم طبقہ کی شرح خواندگی محض5.2% نظر آتی ہے جب کہ دیگر اقوام کی شرح خواندگی36.3% پائی جاتی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان بچوں میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کا تناسب دیگر اقوام کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بعض طلبہ ساتویں سے آٹھویں تک ہی تعلیم جاری رکھتے ہیں اور انٹر کے بعد تو گویا تعلیم چھوڑنالازم ہی ہو گیا ہے۔ گریجویشن کا تناسب نہایت ہی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امت جسے پڑھنے پڑھانے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی وہ تعلیم کے میدان میں غفلت کے اعتبار سے ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ قوم کے وہ بچے جن کے گھروں میں اسکول جانے کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
مسلمانوں کی اس پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔ OIC کے ممبر 57 مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں کی تعداد 600 سے کم ہے جب کہ ہندوستان میں 8407 اور امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں۔ اور 2004 ءمیں شنگھائی کی جیائوتونگ یونیورسٹی نے دنیا کی 500 ٹاپ یونیورسٹیوں کی رینکنگ کی تھی مگر مسلم دنیا کی ایک بھی یونیورسٹی اس میں جگہ حاصل نہیں کرسکی۔ نیز مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں میں جدید علوم سے زیادہ اسلام، عربی اور لٹریچر پر توجہ دی جاتی ہے حالانکہ یہ علوم بھی مسلکی تنازع کا شکار ہیں۔ جیسا کہ ایران میں شیعیت اور سعودی عرب جیسے ممالک میں سلفیت پر زور دیا جاتا ہے، جس کا منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے کو گمراہ اور صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا تصور کرتے ہیں۔ اور سترہ OIC ممالک میں تقریبا 60 فیصد بچے پرائمری سطح پر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ 57 مسلم ممالک میں صرف 26 ملک ایسے ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب برابر برابر ہے۔ ملک ہندوستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے مگر مسلمانوں کی نمائندگی اس میں صفر ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا دوسرا بڑا سبب حکومت کی متعصبانہ فکر اور نا اہلی ہے۔ حالیہ متعصبانہ روش نے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی ہے تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام الناس کی کمر توڑ دی ہے۔ نیز تعلیمی اداروں میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے، جو حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ یہی وہ خامیاں ہیں جن سے متأثر ہو کر ایک قوم یا ملت تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہے۔
تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے بڑھتے قدم میں رخنہ ڈالنے کا ایک بنیادی سبب اساتذۂ کرام کی لاپرواہی اور تساہل ہے۔ اگر سرکاری اداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سرکاری ادارںکے اساتذہ کبھی مہینے میں ایک بار تو کبھی ہفتے میں ایک بار اداروں کا چکر لگاتے ہیں، جب کہ وہی اساتذہ اپنے نجی کوچنگ میں نہایت مستعدی سے کام انجام دیتے ہیں،جس کا منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشی طور پر کمزور بچے سرکاری اداروں کی ابتر حالت اور نجی اداروں کی مہنگی فیس سے تنگ آکر اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تعلیمی پسماندگی کا ایک اور سبب معاشی بدحالی اور اقتصادی بحران ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ گھرانے جو دو وقت کی روٹیاں حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں ،وہ نجی اداروں کی مہنگی فیس کا بوجھ بھلا اپنے کاندھوں پر کیسے اٹھائیں۔ لہذا، ان کے بچے اسکولوں کی جگہ کارخانوں میں بیٹھ رہے ہیں یا پھر ٹھیلوں پر اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹاتے، ہوٹل کی میز صاف کرتے یا جھوٹے برتن دھوتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ مستقبل کا سرمایہ ہیں جنہیں معاشی بدحالی نے ایک مستحکم پلیٹ فارم اختیار کرنے کے بجائے ایک کمزور ڈوری کو پکڑنے پر مجبور کیاہوا ہے۔
تعلیمی پسماندگی کا ایک بڑا سبب تعلیم کے تئیں ہماری بے شعوری ہے۔ مسلمانوں میں آج بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ ’’ علم آدم الأسماء کلھا ‘‘ اور ’’اقرأ ‘‘ کے فرمان کے پیروکار اسی لفظ کے مفہوم سے نابلد فکر معاش میں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ان عارضی کاموں پر لگانے میں مصروف ہیں، جن سے یومیہ دس بیس روپیہ حاصل کرنے کے ہی متحمل ہوسکیں ، بجائے اس کے کہ علم کا ایک مستقل پلیٹ فارم تیار کرکے ہزاروں اور لاکھوں کی کمائی کرسکیں۔
تعلیمی پسماندگی کا ایک سبب فکری بحران ہے ۔ ہماری قوم کے بیشتر افراد کے دماغ اس سوچ کے حامل ہیں کہ بچوں کو زیادہ تعلیم یافتہ بنا کر کوئی خاص آبگینہ نہیں تلاش کیا جا سکتا ،جب کہ کم عمری میں ہی اگر بچوں کو روزگار سے جوڑ دیا جائے تو وہ بیش قیمت خزینہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ان نونہالوں کا مستقبل تاریک کردیتے ہیں جنہیں قوم کا روشن چراغ بن کر ملت کی شاہراہ کو روشن کرنا تھا، وہ خود تاریکی کے سمندر میں غرقاب ہو جاتے ہیں،کیونکہ کاروبار میں اتار چڑھاؤ فطری ہے، لیکن علم ایک ایسا بیش قیمت جوہر ہے جسے نہ لوٹا جا سکتا ہے نہ جلایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :
قل ھل یستوی الذین یعلمون والذين لا یعلمون
( کہہ دیجئےکہ علم والے اور بغیرعلم والے برابرہو سکتے ہیں؟)( الزمر: 9)
تعلیمی پسماندگی کا ایک اور سبب جو معاشرے میں پوری طرح سے قدم جمائے ہوئے ہے وہ اسراف و تبذیر ہے۔ معاشرے میں شادی بیاہ، بچوں کی بسم اللہ، ختنہ ، عیدی ، اور عقیقہ جیسی دیگر تقریبات نیز موت سے متعلق خود ساختہ رسم و رواج کی تکمیل میں ہم بے دریغ پیسے بہاتے ہیں ،
یہاں تک کہ اس کے لیے بسا اوقات اپنی بعض بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فروخت سے بھی گریز نہیں کرتے ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ضروری احتیاج کی فراہمی کے متحمل نہیں ہو سکتے، چہ جائیکہ ہم کسی غریب بچہ کی تعلیمی کفالت کریں۔
تعلیمی پسماندگی کا ایک سبب سماج کے بچوں اور ان کے اولیاء کے درمیان عدم تفاوت اور باہمی میل جول کا فقدان ہے۔ بعض اولیاء اپنے بچوں کو ایک بار اسکول میں داخل کرانے کے بعد کبھی خبر نہیں لیتے ،جس کے باعث بسااوقات بچے خود نفع و نقصان سے قطع نظر مفوضہ کاموں میں لاپرواہی اور ڈسپلن شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں یا پھر تعلیم کو ہی خیر باد کہہ جاتے ہیں۔اس ضمن میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب مولانا سید نظام الدینؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:’’ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے ،جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی بچوں کی طرف سے۔ بعض بچے زیادہ خرچیلے ہوتے ہیں ،وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اور مختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کو پریشان کرتے ہیں۔ کبھی بچوں کا یہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بند کرنے پر آمادہ کرتا ہے، کبھی صورتحال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیےگارجین پر دباؤ ڈالا، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے۔ لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی۔ ماں دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کی کوچنگ میں داخلہ دلوادیا۔ دو روز کے بعد لڑکے نے انکار کردیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے۔ وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورتحال یہ بنی کہ اب ماں اور دادی کی خودکشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہوگئے وہ عام حالات میں تو ملنے سے رہے۔ ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کار ہی کیا رہ جاتا ہے۔‘‘
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی پالیسی رہی ہے کیونکہ تعلیم اب ایک نفع خیز تجارت بن چکی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسٹیج پر تو قوم کو تعلیم کی طرف متوجہ کرتے ہیں، مگر ہمارے زیر انتظام تعلیم گاہیں محض تجارت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اسی طرح مدارس اسلامیہ بھی کسی حد تک تعلیمی پسماندگی کا موجب ہیں کیونکہ مدارس اگرچہ سستی تعلیم دینے پر کاربند ہیں اور شرح خواندگی کو بڑھانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے، مگر بیشتر مدارس اپنے ہاں دی جانے والی شرح خواندگی کی رپورٹ حکومت تک پہنچانے سے قاصر ہیں تو بعض دیگر حالات حاضرہ سے باخبر رہتے ہوئے حکومت تک رسائی کی صورت تو نکالتے رہتے ہیں مگر جدید تکنیکی معلومات اور وسائل کی عدم فراہمی کی بنا پر وہ طلبہ میں وہ جوہر پیدا کرنے میں ناکام ہیں ،جس کی بدولت وہ تعلیم کی تکمیل کے بعد اچھی ملازمت پر فائز ہوسکیں۔ لہذا، اس صورتحال میں سماج کے بیشتر افراد اب مدارس میں داخلہ کرانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
تعلیمی پسماندگی کا ایک اور اہم سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے جہاں اکثر مسلم گھرانے اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مخلوط ادارے میں بھیجنے کے لیے پس و پیش میں رہتے ہیں تو بعض ان کی تعلیم کا سلسلہ یکسر منقطع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خواتین کی شرح خواندگی تشویشناک ہے۔
ان تمام بنیادی مسائل سے نمٹنے کےلیے درجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے:
(1)مسلمانوں کے غریب اور کمزور طبقے کے درمیان تعلیم کے تئیں فکری شعور کو بیدار کیا جائے اور انہیں تعلیم کی منفعت سے آگاہ کیا جائے تاکہ تھوڑے منافع کے بدلے ملک کے نو نہالوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے۔
(2)اصحاب ثروت کے درمیان تعلیمی کفالت کا مزاج اور رجحان پیدا ہو،اور بے جا اسراف و تبذیر سے گریز کرتے ہوئے یہ افراد اپنے خاندان، قریبی رشتہ دار یا پڑوس کے ایک دو بچوں کی تعلیمی کفالت اپنے ذمہ لے لیں تاکہ ان کی تعلیم کا سلسلہ غربت کی وجہ سے منقطع نہ ہو سکے۔ جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی کفالت و پرورش کی ذمہ داری لی تھی۔
(3)اس وقت بچوں کی تعلیم کے سلسلے ميں حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی گئی ہیں، ان تک رسائی کو ممکن بنایا جائے اور غریب اور ناواقف مسلمانوں کے لیے ان سے فائدہ اٹھانے کا انتظام کیا جائے، اور بڑے پیمانے پر معلومات فراہم کی جائیں، کیونکہ آج بہت سی اسکیموں کے ہونے کے باوجود ہمارا طبقہ اس سے بے بہرہ علمی کسمپرسی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں مسلمانوں کی شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے۔
(4)تعلیمی بحران کو دور کرنے کے لیے عمائدین ملت ایسی آرگنائزیشن قائم کریں جو پسماندہ گھرانوں کے حالات سے باخبر ہوں، اور مخیر حضرات کی مدد سے ایسے افراد کی معاشی احتیاج کی تکمیل کریں، تاکہ ان کے معصوم نونہال علم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔
(5)مدارس جو کہ سستی تعلیم فراہم کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ لہٰذا، اہلیان مدارس کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اسلام ہمیں زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کا حکم دیتا ہے اور حرفت و ٹیکنالوجی کی معرفت و آگاہی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ان اللہ یحب المؤمن المحترف
انبیاء کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں جادو کا زور ہونے کی وجہ سے موسی ٰعلیہ السلام کو ایک عصا کے ذریعے ایک مقناطیسی قوت کا عطا کیا جانا ، عیسی علیہ السلام کے عہد میں طب کا زور ہونے کی بنا پر عیسی علیہ السلام کو طب میں انوکھی مہارت سے نوازا جانا، داؤد علیہ السلام کی زرہ بنانے کے ہنر سے واقفیت، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت کی زبان سریانی سیکھنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم، نیز عربوں میں فصاحت و بلاغت کے میدان میں درپیش اس وقت کے چیلنج کے جواب میں نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کا عطا کیا جانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ وقت کے ساتھ قدم ملانے کے لیے علم و معرفت اور ٹیکنالوجی سے آراستہ و پیراستہ امت بننا ہی ہمارا طرہ ٔامتیاز ہے۔ لہٰذا، اپنے نصاب میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ عصری علوم کی شمولیت کی جائے۔
(6)والدین اپنے بچوں کی تربیت اسلامی طرز پر کریں تاکہ وہ ایک دوسرے کے حقوق سے واقف ہوں اور تعلیمی راہ میں دونوں کے مابین ایک خوشگوار ماحول اور فکری ہم آہنگی برقرار رہے جو مستقبل کے عروج کا ضامن ہو۔
(7)قائدین ملت اور عمائدین قوم ملک میں گرلز کالج اور گرلز یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوشش کریں تو ملک میں خواندگی کی شرح مزید بڑھنے کا امکان ہے ،جہاں خواتین کی نمائندگی بھی اعلی پیمانے پر ممکن ہوسکے گی۔
(8)مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والی درسگاہوں کے بانیان سستی اور نفع بخش تعلیم کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
مذکورہ بالا قرائن کے تناظر میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کا تعلق ایک دوسرے سے مربوط ہے جسے ہم فوڈ چین سے تعبیر کرسکتے ہیں؛وہ حکومتی نااہلی اور تعلیمی اداروں کی کمی، معاشی بدحالی اور روز افزوں مہنگائی، اساتذہ کاتساہل اور رشوت خوری، تعلیم کے تئیں فکری بے شعوری، باہمی میل جول کا فقدان، اسراف و تبذیر، مسلمانوں کے زیر انتظام درسگاہوں میں تجارتی ماحول اور مدارس میں عصری تعلیمات کا فقدان، والدین کی لاپرواہی اور مخلوط تعلیمی نظام ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ درسگاہوں کی عظیم الشان عمارتوں کے بجائے بنیادی ضروریات کے ساتھ سادہ عمارتوں میں ہی اعلیٰ تعلیم فراہم کی جائے، تاکہ کم اخراجات میں ہی مستقبل کے معمار ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل کے لائق بن سکیں ۔
مصادر و مراجع
(1)قرآن
(2)حدیث
(3)https://urdu.udannews.in/archive
(4)https://muslimmirror.com
(5)https://m.dailyhunt.in

ویڈیو :

video link

آڈیو:

audio link

Comments From Facebook

1 Comment

  1. فرحفرحت زرتاج

    ھادیہ میگزمیگزین کے مضامین بہت کارامد ہہیں
    اس میگزین ککے مضأمین سماسماجی مسامسائل پر مبنمبنی ہیں
    جب سسے میگزچجاری ہوا ممیں اس ککی ریگریگولر ریڈر ہون ۔مجھے مضامضامین بہبہت پسند اتےہین

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢