دسمبر٢٠٢٢
’’لوگوں کو ان کے انسانی حقوق سے مانع کرنا ان کی انسانیت کو چیلنج کرنا ہے۔‘‘(نیلسن منڈیلا)
دنیا کی سب سے اعلیٰ ترین تخلیق انسان ہے۔ اور وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے ہاتھوں استیصال کا شکار ہے۔ کبھی غلامی کی شکل میں ، کبھی ذات پات کے نظام میں، کبھی رنگ و نسل کی بنیاد پہ تو کبھی جنس کی وجہ سے۔ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی ایک بچہ اپنے بنیادی حقوق کا حقدار ٹھہرتا ہے ،اور پھر حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض بھی اس کے حصے میں آ جاتے ہیں۔ ایک معتدل اور خوشحال زندگی گزارنے کے لیے حقوق وفرائض کی ادائیگی لازم و ملزوم ہیں ۔
’’حقوق انسانی ‘‘ کے لیے سترہویں صدی کے بعد سے وقتاً فوقتاً انقلاب آئے، خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ صرف نعرہ نہیں بلکہ انسانیت کی ناگزیر ضرورت بن گیا۔ اس مرکب کے لفظوں پر غور کریں!حقوق کے معنی ہیں وہ چیزیں جن کے آپ حقدار یا اجازت یافتہ ہیں اور انسان ہر مرد، عورت، بچہ یا بوڑھا ہے جسے سائنسی زبان میں ہومو سیپین پر جاتی کارکن مانا جاتا ہے۔ حقوقِ انسانی کی اصطلاح کو انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ(d-2 ) کے تحت اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ’’زندگی، آزادی، مساوات اور انفرادی وقار سے متعلق حق جس کی ضمانت آئین کے ذریعے دی گئی ہے یا بین الاقوامی معاہدوں میں مجسم ہے اور ہندوستان میں عدالتوں کے ذریعے قابلِ نفاذ ہے۔‘‘
حقوق انسانی ہمارا وہ بنیادی حق ہے جسے کسی طور ہم سے چھینا نہیں جا سکتا، سوائے مخصوص حالات کے، جبکہ اسے سلب کر لیا جاتا ہے۔ ان حقوق کو ترتیب دینے کے پیچھے کئی مقاصد ہیں۔ اس کا پہلا مقصد انسانی جان کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ عزت نفس، انسانی وقار کی قدر ، مختلف مذاہب اور زبان کے لوگوں کے درمیان احترام و تفہیم کو اور ساتھ ہی ساتھ جمہوریت، سماجی مساوات وغیرہ کو فروغ دینا ہے ۔ بنیادی طور پر انسانی حقوق کی تین قسمیں ہیں ۔
-1شہری و سیاسی حقوق: اس میں تحفظِ آزادی،زندگی ،رازداری تشدد اور غیر انسانی سلوک سے آزادی کے حقوق شامل ہیں ۔
-2معاشی و سماجی حقوق: اس میں خوراک، کپڑا، مکان، مناسب معیار زندگی اور بھوک سے آزادی کے حقوق شامل ہیں۔
-3اجتماعی حقوق: اس میں اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی ترقی میں حصہ لینے، زمین اور وسائل کے حقوق کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی حفاظت اور تحفظ کے حقوق آتے ہیں ۔
حقوقِ انسانی کی عالمی تاریخ
یونانی تہذیب میں عوام کو کچھ حقوق حاصل تھے اسی طرح 539 قبل مسیح میں سائرس اعظم کا نام آتا ہے، جس نے بابل فتح کرنے کے بعد عوام کو آزادی وغیرہ کے حقوق دیے۔ اس کے بعد 1215 ءمیں برطانوی حکمران کنگ جان نے ایک چاٹر متعارف کروایا جس کا نام میگنا کارٹا پڑا۔ اس میں بھی کچھ حقوق متعارف کروائے گئے تھے۔ لیکن یہ تمام حقوق نا کافی اور غیر معین تھے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ عالمی سطح پر اٹھارویں صدی سے پہلے انسانی حقوق کا نام و نشان نہ تھا۔ یورپ میں فرانس اور روم میں بنیادی حقوق کے لیے انقلاب برپا ہوئے ۔ امریکہ میں 1789 میں ’’بِل آف رائٹس‘‘ پاس کیا گیا۔ آخری ضرب دوسری جنگ عظیم تھی جس میں 90 ملین لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔ اس جنگ نے انسانیت کو جھنجھوڑ دیا اور پھر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا ۔ 1948 ءمیں اقوام متحدہ نے پیرس میں پہلی دفعہ ’’انسانی حقوق کا عالمی اعلان‘‘(UDHR) کیا۔ یہ قرارداد انسانی حقوق کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں سے مختلف قانونی اور ثقافتی پسِ منظر کے حامل نمائندوں کی طرف سے تیار کردہ اس دستاویز کا 500 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔ تقریباً 30 حقوق کی اس میں بات کی گئی ہے،جن میں برابری، سماجی اور سیاسی حقوق وغیرہ شامل ہیں۔
1966 ءمیں شہری اور سیاسی حقوق کے لیے بین الاقوامی کنونشن کیے گئے اور سبھی ممالک کو معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو اپنانے کے لیے کہا گیا۔
ہندوستان میں حقوق انسانی
ہندوستانی دستور میں اگرچہ1948 ءمیں ہی بنیادی حقوق درج کر دیے گئے تھے، لیکن ان حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔ 12 اکتوبر 1993 ءکو ایک آزاد عوامی قانونی ادارہ ’’ قومی انسانی حقوق کمیشن‘‘(NHRC) تحفظ آرڈیننس کے تحت تشکیل پایا۔ اس کے ساتھ ہی ’’ریاستی انسانی حقوق کمیشن ‘‘ (SHRC) بھی بنایا گیا،جس کا مقصد خاص ریاست کے لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا تھا۔ایک نظر اگر ان تمام تاریخی دستاویزات یا چارٹر پر ڈالی جائے ،چاہے وہ پیٹیشن آف رائٹ 1628ءہو، یا بل آف رائٹس 1689 ءہو یا اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی اعلان ہو یا ہمارے ہندوستان کا قومی حقوق کمیشن ہو؛ ان سب کا مقصد غلامی، غریبی، عدم مساوات اور جہالت کو ختم کرنا تھا۔ لیکن کیا یہ تمام مہلک ترین جراثیم ہمارے سماج سے ختم ہو پائے ہیں؟ ایک جائزہ کے مطابق آج بھی تقریباً ہر روز 16ہزار بچے بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ تقریباً 27 ملین لوگ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک ملین کے قریب بالغ لوگ پڑھنا نہیں جانتے۔
مشہور جرمن فلسفی جین روسو لکھتا ہے کہ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے، لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔‘‘روسو کا یہ قول ہر زمانے کے لوگوں پر فِٹ بیٹھتا ہے،مگر یہ ہمارا المیہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ تمام حقوق حتی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد بھی صرف کاغذی ہے ،ان کی عملی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ ان کا نفاذ کرنا یا نہ کرنا ممالک کے لیے اختیاری ہے۔ جس کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ اپنے پیدائشی حق سے محروم ہیں جو کہ ناقابل تنسیخ ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے چھٹی صدی عیسوی میں انسانی حقوق کے متعلق واضح رہنمائی کی۔ پہلی اسلامی ریاست مدینہ میں قائم ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دستور مدینہ میں انسانی حقوق لکھوائے۔ جن کا پاس و لحاظ رکھنا ہر مسلمان شہری پر فرض قرار پایا۔ اسلام میں جو انسانی حقوق دیے گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ان کسی قسم کا ردوبدل نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کو سمجھاتے ہوئے مولانا مودودی اپنی کتاب ’’اسلام میں حقوق انسانی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بادشاہ ہو یا قانون ساز اسمبلیوں کے قوانین، جب چاہے لاگو کیے جا سکتے ہیں اورجب چاہے اٹھائے بھی جا سکتے ہیں،لیکن اسلام میں تمام حقوق اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی اسمبلی کو یا کسی بھی حکمران کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس میں کسی طرح کی ترمیم یا تبدیلی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‘‘ ایک اسلامی مملکت میں سب کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو اللہ نے دیے ہیں۔ اگر کوئی ظالم حکمران یا مفاد پرست حکومت اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے متعلق قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں۔
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ( سورۃ المائدہ:44)
اسلام نے انسانیت کو اس وقت بھی وہی حقوق دیے تھے جب قیصر و کسریٰ کی حکومتیں عروج پر تھیں اور یورپ تاریکی میں تھا اور آج جب معاملات برعکس ہیں،تب بھی وہ وہی حقوق انسانوں کو دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی ہے کہ یہ محض کاغذ کے پلندوں پر لکھے حروف نہیں ہیں، بلکہ اسلامی ریاست کے قوانین ہیں۔ یہی وہ قوانین ہیں جن کی بنا پر عدم مساوات کو ختم کیا گیا تو غلام بادشاہ بنے، عورت کو عزت و تحفظ میسر ہوا، قیدیوں کو حقوق ملے، میراث طے پایا۔ انسانی قانون اور اسلامی قانون کے بیچ یہی سب سے بڑا فرق ہے، اول الذکر وہ قانون ہے جو آج تک کامیاب نہ ہو سکا اور ثانوی وہ ہے کہ ہر دور میں کامیاب رہا۔
مولانا مودودی اپنی کتاب ’’اسلام میں حقوق انسانی‘‘
میں لکھتے ہیں:
’’بادشاہ ہو یا قانون ساز اسمبلیوں کے قوانین، جب چاہے لاگو کیے جا سکتے ہیں اورجب چاہے اٹھائے بھی جا سکتے ہیں،لیکن اسلام میں تمام حقوق اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی اسمبلی کو یا کسی بھی حکمران کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس میں کسی طرح کی ترمیم یا تبدیلی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‘‘

Comments From Facebook

1 Comment

  1. میا ں گل رحمان

    میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور کمیشن سے درخواست کر تا ہوں کہ ہمارے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہمارے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ہمارے معاشرے میں انسانوں کی ساتھ جانوروں کی جیسے سلوک ہورہی آمن تعلیم روزگار کی کوئی نام نہیں انصاف کی کوئی نام نہیں ہمارے اوپر ظلم ہو رہا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کرپشن جھوٹ ملاوٹ دھوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنا یہ سب جائز ہے کیونکہ یہاں آمریت ہے جمہوریت نام کا کوئی چیز نہیں کیا آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں کیا آپ ہماری لیے آواز اٹھانے کیلئے تیار ہیں کیا ہم انسان نہیں ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢