دسمبر٢٠٢٢

ایک مخلص بہن کا انتقال پُر ملال

فاطمہ زہراء صالحاتی

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، ذہین و فطین ،موڈرن (آئی ٹی کمپنی ) کے اعلیٰ عہدے پر فائز پُر تعیش زندگی گزاررہی تھیں ۔یکایک ایک مسلم آٹو ڈرائیور کی گفتگو اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کے بیان نے اُن کی دوڑتی ہوئی زندگی میں بریک کا کام کیا ۔اندرونِ دل سے آواز آئی :میں کون ہوں ؟ میری کیا پہچان ہے ؟ میری زندگی کیا مقصد ہے ؟ مجھے کہاں لوٹ کر جانا ہے ؟
یہ چند سوالات تھے جن سے دل کی حالت بدلی ، نظریہ بدلا ، سوچ و فکر بدلی،زندگی کا رنگ ڈھنگ بدلا ، طریقہ و مقصدِ زندگی بدلا ۔یہ بدلاؤ وقتی ،موسمی یاجذباتی نہ تھا ،بلکہ یہ ایسا بدلاؤ تھا کہ وہ اس کے بعد پھرکبھی نہ پلٹیں ، نہ بدلیں ،نہ تھکیں، نہ رُکیں ،نہ ٹھہریں ، نہ ہاریں۔ اپنے آپ کو ازسرنو علم و عمل سے آراستہ کیا تو جماعتِ اسلامی ہند نے اُنھیں پورے خلوص و محبت کے ساتھ اپنی آغوش میں سمو لیا ،جہاں اُن کی صلاحیت و قابلیت مزید نکھر کردوآتشہ ہوگئی ۔
ابتدا سے تا دمِ آخر اللہ کے دین کی مجاہدہ بنی رہیں ۔جماعت اسلامی ہند کی اپنے علم و صلاحیت و مال کے ذریعہ تعاون کرتی رہیں ۔ کئی سالوں تک فاروڈ ٹرسٹ کی سکریٹری بن کر ان گنت لوگوں کے مسائل حل کرتی رہیں ۔ان کی سیاست پر بھی اچھی گرفت تھی۔CAA کی مخالفت میں ،حالیہ بلقیس بانو کے کیس میں،اسکولی نصاب سے متعلق اوردلت عورتوں پر مظالم کے خلاف احتجاجوں میں شریک ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں ۔این جی اوز کے ساتھ مل کر انسانوں کے لیے فلاح و بہبود کے کام انجام دیتی رہیں ۔یہ تھیں ہماری بہن فردوس باجی ۔
ماہِ مئی کے اوائل میں جماعت کی بہنوں نے میرے بیرونِ ملک منتقل ہونے کی وجہ سے ایک الوداعی پارٹی منعقد کی ۔جس میں شریک ہو کر فردوس باجی نے کہا کہ میرا بھی دل چاہ رہا ہے میں بھی کہیں دور جاؤں۔ جس پر مزاحاً مصدقہ نے سب کو متوجہ کرکے کہا کہ فردوس کا پاسپورٹ،آدھار کارڈ سب لےکر کسی لاکر میں رکھ دینا چاہیے،تاکہ کہیں نہ جائیں۔
آج فردوس باجی کی رحلت کی خبر سنتے ہی یقین نہیں آیا ۔آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔سوچتی رہی ۔شہر و ملک کیا باجی اپنا پاسپورٹ ،آدھار کارڈ اوراپنی یادوں کو چھوڑ کر اعمال حسنہ کا توشہ لےکر دنیا سے دور چلی گئیں ۔یہ برحق ہے کہ بقا اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کا مقدر نہیں ،لیکن وہ افراد ، وہ اعمالِ صالح،وہ کارنامے ۔ ان کا ایثارا وران کی قربانی جو اللہ اور اس کے دین کے لیے ہو تو وہ بہت سارے لوگوں کی زندگی میں حرکت پیدا کرتارہتاہے،جس کے سبب یہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
اللہ ،فردوس باجی کے ہر عمل کو قبول فرما کر بہترین اجرِ عظیم سے نوازکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔جماعت اور اہل خانہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے،آمین ثم آمین ۔

فطرت سلیم کی ملکہ: مرحومہ فردوس خان صاحبہ

حمیرا (ضلع ذمہ دار کونپل، کرناٹک)

تبدیلی فطرت کا اصول ہے اور زندگی کی علامت ہے،اور جو تبدیل نہیں ہوتا اس کی موت واقع ہوجاتی ہے،فطرت سلیم میں سب سے زیادہ تبدیلی کی صلاحیت موجود ہوتی ہیں۔ یہ فطرت سلیم جب حق کو پالیتی ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر سارے غیر فطری اقوال کو چاک کر حق کو قبول کرلیتی ہے۔ وہ حق کو ایسے پہچانتی ہے جیسے ایک ماں اپنے کھوئے بچے کو پہچان لیتی ہے۔
ایسی ہی فطرت سلیم کی ملکہ تھیں ہماری قراۃ العین فردوس باجی۔میری فردوس باجی سے پہلی بے تکلف ملاقات مرکز میں میڈیا ایکٹیویزم کیمپ میں ہوئی تھی۔ ان کا نیچر ایک مقناطیس کی مانند اپنے اطراف کے تمام لوہے کو متأثر کرتا ہوا نظر آتا ۔ کسی بھی اجنبی بہن کے ساتھ بات کرتے وقت جو پہلے جملے ان کی زبان سے نکلتے وہ سامنے والے انسان کے اندر سے اجنبیت کے پردے ہٹا دیتے اور انسان اپنے دل کا درد ان کے سامنے اکثر پہلی ہی ملاقات میں کھولنے لگتا، اور وہ بہترین مشورےدیتی ہوئی نظر آتیں۔
جیسے موتی کی لڑی ٹوٹنے پر موتی جھڑ رہے ہوں اور ہر موتی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہو، ان کی ان صلاحیتوں سے متاثر ہوکر میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ تحریک سے کیسے متاثر ہوئیں؟انہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ جواب دیا کہ ایک آٹو ڈرائیور کی وجہ سے۔ میرا اشتیاق اور بڑھ گیا۔ میں نے مزید پوچھا تو انہوں نے کچھ اس طرح بتایا کہ میں ایک مرتبہ شاپنگ کے بعد اپنے کزن کے ہمراہ ایک آٹو میں سوار ہوئی۔ چونکہ میں کانوینٹ اسکول میں پڑھی تھی ،تو وضع قطع اور لباس سے اسلام کا اثر نہیں جھلکتا تھا ۔ اچانک ایک جگہ سے ہم گزرے، اور آٹو سے جھانکتے ہوئے میری نظرشادی کی تقریب پرپڑی جوایک ہال میں چل رہی تھی،میں نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شادی میں آج شریک ہونا تھا ۔ میں تو بھول گئی!
میری اس بات کو سن کر جھٹ سے آٹو ڈرائیور نے کہہ دیا کہ ارے میڈم یہ تو مسلمانوں کی شادی ہے۔میرے کزن نے جواباً کہا کہ بھیا ہم بھی مسلمان ہی ہیں، مگر مجھے اطمینان نہ ہوا اور اس آٹو ڈرائیور کی بات جو تیر طرح میرے دل و دماغ میں پیوست ہوئی تھی، اس نے مسلسل مجھے بے چین رکھا ۔پھر آخر کار میں نے فیصلہ کر ہی لیا یہ جاننے کا کہ مسلمان کہتے کسے ہیں؟میری پہچان تھی کچھ جماعتی بہنوں سے، جن سے خطبات کی کتاب مجھے حاصل ہوئیاور وہیں سے میرے تحریکی سفر کا آغاز ہوا۔
الحمدللہ!فردوس باجی تو آج ہمارے بیچ نہیں ہیں، مگر ان کی یہ باتیں میں اپنی زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔یہی تو تبدیلی کا عمل ہے ،جس کی وجہ سے فانی انسانی جسم تو مٹ جاتا ہے، مگر اپنے پیچھے دوسرے انسان کے ذہن اور دل پر عجیب دل کش نشان چھوڑ جاتی ہے، جو تادم حیات زندہ رہتے ہیں اور نشان راہ حق بن کر بہتوں کی رہ نمائی کرتے رہتے ہیں ۔بہت اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک ہونے کے باوجود میں نے ایک معصوم بچے کا دل ان کے سینے میں محسوس کیا ہے، جو اپنی محبت اور معصومیت کے پھول کھلا کر انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔اللہ ان کے تمام آگے کے مراحل اسی طرح آسان کرے جس طرح وہ اللہ کے بندوں کے لیے آسانی پیدا کرتی تھیں، آمین ثم آمین۔

آئی ٹی پروفیشنل سے دین کی داعی کا سفر طے کرنے والی شخصیت مرحومہ قرۃ العین فردوس

تسنیم فرزانہ

بنگلور میٹروسٹی کی ذمہ دار کی حیثیت سے جب میں نےچند سال پہلے جے نگر کا دورہ کیا۔ وہاں کی ناظمہ شاہین باجی نے ایک خاتون سے ملواتے ہوئے کہا کہ تسنیم !یہ فردوس ہیں ،بہت ہی قابل اور جماعت سے ابھی ابھی قریب ہوئی ہیں، ان سے ہم تحریک کے بہت سارے کام لے سکتے ہیں ۔
اس خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا کہ باجی! مجھ میں ایسی قابلیت کہاں کہ میں دین کی داعی بن سکوں، لیکن اپنی لگن، سعی اور جہد سے بہت کم عرصے میں اس خاتون نے قرآن اور حدیث پر عبور حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک بہترین قرآن کی مُدرِسہ بن گئیں۔درس قرآن کو پیش کرنے کا نیا انداز بھی اپنایا پاور پوائنٹ پرزینٹیشن کے ذریعے ہر آیت کو کھول کھول کر سمجھاتیں۔یہ تھیں قرۃ العین فردوس صاحبہ، جو ایک آئی ٹی پروفیشنل تھیں۔
HCLکمپنی میں پروجیکٹ مینیجر کی پوسٹ کو صرف اس لیے چھوڑا کہ دین کی داعی بن جائیں۔ جماعت اسلامی ہند کے کام کو پسند کر کے اس کی کارکن بنیں۔ بہت ساری تنظیموں سے روابط قائم کیے۔دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے نے انہیں کاؤنسلنگ کی ٹریننگ حاصل کرنے پر ابھارا۔ سرٹیفائیڈ فیملی کاؤنسلر تھیں۔ کووڈ کے دوران اور پھر بعد میں بھی ان گنت افراد اور خاندانوں کے مسائل کو ڈیل کیا، اس کا اندازہ کل ان کی میت پر حاضر خواتین کی تعداد سے ہوا۔ ہر ایک یہی کہہ رہی تھی کہ فردوس آپا میری بہت ہی قریبی سہیلی ہیں۔کیا مسلم ،کیا غیر مسلم؛ ہر ایک کی آنکھ میں آنسو تھے، اور کوئی یقین ہی نہیں کر رہا تھاکہ فردوس اس دنیا سے چلی گئیں۔
ہر کام میں آگے آگے رہتیں خواتین کے حقوق کے لیے ان تھک محنت کرتی رہیں۔کبھی ہم نے ان کو بیزار یا غصہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ہر وقت مسکراتا ہوا چہرہ، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتیں۔ چاہے بچے ہوں یا بزرگ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی،پیار و محبت کا اظہار کرتیں۔ کاؤنسلنگ کے ورکشاپ میں جب اپنا موضوع پیش کرتیں تو سامعین کی نظریں ان سے نہیں ہٹتی تھیں ،کیونکہ ان کا اپنے موضوع کو پیش کرنا بہت ہی مؤثر انداز میں ہوتا تھا۔ غالباً پچھلے سال جماعت اسلامی ہند مرکز میں انہیں ایچ آر ڈی ڈیپارٹمنٹ میں رکن بنایا گیا تھا، فارورڈ ٹرسٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے سی اے اے کے احتجاج میں شرکت کرتیں اور ہر ایشو پر بے دھڑک اپنی بات کو میڈیا کے سامنے پیش کرتیں ۔انتقال سے دو دن قبل اور ای میگزین کے لئے بنجارا اکیڈمی کے سربراہ علی خواجہ صاحب کا انٹرویو لیا تھا۔ا سٹوڈیو چوتھی منزل پر تھا تو واپسی کے بعد اپنی ساتھی سے کہا کہ زینے چڑھنے کی وجہ سے بہت زیادہ تھک گئی ہوں ۔
ایک دن پہلے سارا دن تنظیمی نشست میں بیٹھ کر چار ماہ کا منصوبہ بنایا۔ شاید اللہ تعالیٰ نے ان سے آئندہ چار ماہ کا منصوبہ اپنے ساتھیوں کے لیےطے کروانا چاہا تھا۔بہت کچھ ہے لکھنے اور یاد کرنے کے لیے، لیکن ذہن و قلب لکھنے سے قاصر ہیں۔چند بے ربط یادیں اور احساسات قارئین کی نذر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فردوس صاحبہ کی سارے حسنات کو قبول فرما کر ان کے لیے ابدی سفر میں آسانیاں عطا فرمائے، آمین۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

دل غمگین ہے ،اور آنکھ سے آنسو نہیں رک رہے، لیکن اے میرے رب!تیری رضا اور فیصلے پر پر راضی ہیں،ہم سب کو جنت الفردوس میں ایسے ہی ساتھی بنا دے، جس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھی و غمگسار بنے ہوئے ہیں، ہمیں صرف اپنی رضا اور خوشنودی کے لیے محبت کرنے والے بنا دے، آمین ثم آمین۔

عمل و کردار

شاہین سلطانہ(رکن جماعت)

حسب معمول آج سے گیارہ بارہ سال پہلے جماعت کا تعارف جاننے کےلیے ایک جماعت کی ہمدرد خاتون نے ہمیں اپنے آفس میں مدعو کیا۔ دیئے گئے وقت پرہم دو بہنیںان سے ملنے گئیں۔وہاںپر ایک خاتون بہت بھولی بھالی سی، چہرے پر معصومیت لیے کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھیں۔ ہمیں اندر آتے دیکھ با ہر اٹھ کر جانے لگیں، تو ہم نے کہا آپ بھی بیٹھ جائیے۔
پھر ہم جماعت کے بارے تمام تفصیل بتاتے رہے اوروہ بھی غور سے سنتی رہیں ۔ جب ہم وہاں سے نکلنے لگے تو پوچھا کہ آپ کے سارے پروگرامس کہاں ہوتے ہیں؟ جب دلچسپی ظاہر کی تو ہم نے فوراً ان کا نام اور ان کے گھر کا پتہ وغیرہ معلوم کر لیا، اور خاص طور پراسٹڈی سرکل میں شرکت کی دعوت دی۔
یہ تھیں فردوس خان! پھروہ ہمارے اجتماعات میں آنے لگیں۔ ہم ان کے گھر گئے۔ جماعت کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کروایا۔ یوں وہ جماعت کے قریب ہوئیں،اور باقاعدہ ایک سال قبل جماعت کی رکن بھی بن گئیں۔
مختصر سے عرصے میں تحریک کو اتنی اچھی طرح سمجھ لیا کہ حیرانی ہوتی ہے۔ تحریکی فکر کیاہے؟ اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت ،اجتماعی زکوۃ کی اہمیت پرعمدہ پیرائے میںاظہار خیال کرتیں ۔
رمضان میں اجتماعی زکوۃ کی تقریر سن کر اچھی خاصی بڑی رقم جمع ہو جاتی۔فردوس خان کا حسن اخلاق ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا دیتا۔ ملنے جلنے والی تحریکی بہنوں سے لے کر گھر میں کام کرنے والے ملازمین کی لڑکیاں ان کی ملنساری سے بہت متاثر رہتیں۔
بہت ساری مصروفیتوں کے باوجود جماعت کی ذمہ داری قبول کر لیتیں، بعض اوقات ان کے گھر والوں کو شکایت رہتی کہ اپنی طبیعت کا خیال نہیں رکھتیں۔ دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ کاؤنسلنگ کی ذمہ داری بھی تھی۔
اپنے اخلاص و دردمندی سے دوسروں کے مسائل اس انداز سے پو چھتیں کہ بتانے والا سب کچھ اگل دیتا۔ اس کے بعد بڑی شفقت کے ساتھ دل سوزی سے مسائل کا حل بتاتیں اور ان کا رخ دنیا کے مصائب سے ہٹا کر آخرت کے مصائب کی طرف موڑ دیتیں۔
الغرض جب تحریک سے وابستہ ہوئی تو اس کا حق ایسے ادا کیا کہ وفات سے ایک دن قبل تین چار گھنٹے بیٹھ کر آئندہ چار ماہ کا پروگرام بنا یا۔ جب ہم ان کے گھر چھوڑ کر اپنے گھر روانہ ہو رہے تھے، تو یہ معلوم نہیں تھا آنے والے کل کے دن اپنے خالق حقیقی سے جاملیںگی۔ جمعہ کے دن نماز فجر سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر آرام کی غرض سے سوئیں تو پھر ابدی نیند سوگئیں ۔

اوراق میں ہیں گوہر و معنی کے خزینے
الفاظ میں وہ حسن بیاں چھوڑ گیا ہے

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢