آئیے! جانتے ہیں بچے کی نشو ونما اور ارتقاء کیا ہے۔
Growth and Developmentکے فرق سمجھنا اس سلسلے میں ضروری امر ہے ۔
بچے کا ارتقاء رحم مادر سے شروع ہوتا ہے اور قبر میں جانےتک انسان کاارتقاء جاری رہتا ہے ۔سیکھنے اور پروان چڑھنے کے عمل میں کئی عوامل کام کرتے ہیں جیسے اس کی عمر، تجربہ، جذب کرنے کی اہلیت اور منطقی صلاحیت ،بچے کے سکھانے کے وسائل وغیرہ۔والدین چونکہ بیک وقت بچے کی نشوونما اور ارتقاء دونوں کے ذمہ دار ہیں، اس لیے انہیں سمجھنا ضروری ہے کہ نشوونما کا عمل ایک مدت کے بعد رک جاتا ہے، تاہم ارتقاء ساری عمر جاری رہتا ہے۔
ارتقاء کےکچھ اصول ہیں، ان میں سب سے اہم اصول ماحول اور وراثت ہے۔وراثتی خوبیاں بچے کے ارتقاء میں رول ادا کرتی ہیں لیکن دوسرا بڑا رول ماحول کا ہے ۔بعض ماہرین کے نزدیک بچے کے ارتقاء میں زیادہ بڑا رول ماحول کا ہی ہے ۔ماحول سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے ۔آپ پیغمبرانہ طریقۂ تربیت میں بچوں کی تربیت کے اصول کا بڑا حصہ عملی تربیت پر مبنی پائیں گے ۔ زیادہ تر روحانی طریقۂ تربیت، عقیدے کی پختگی ،عملی طریقہ، دوستانہ ماحول، مشفقانہ وپدرانہ انداز سے متعلق مثالیں زیادہ ملیں گی ۔
پیغمبروں نے صالح اولاد کے لیے باضابطہ دعائیں مانگی ہیں ۔
بچے کی طلب کے لیے پیغمبروں کی دعائیں:
یہ بچے کا حق ہے کہ اس کے والدین اسے اللہ سے دنیا وآخرت کی بھلائی کے ساتھ طلب کریں ۔اولاد قسمت میں ہوتو مل ہی جائے گی۔ دنیا میں بڑی آبادی کے پاس اولاد ہے، لیکن جو اولاد رب سے خاص مقصد کے ساتھ طلب کی جاتی ہے، اللہ ان دعاؤں کو سنتا ہے ۔صالح اولاد کے لیےدعا کرنا پیغمبروں کا طریق رہا ہے ۔مریم علیہاالسلام کی والدہ نے دعا کیا:
وہ اس وقت سُن رہا تھاجب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ
’’میرے پر ور دگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں ، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا۔ میری اس پیشکش کو قبو ل فرما۔ تُو سننے اور جاننے والاہے۔‘‘پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ’’مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے،حالانکہ جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی،اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ خیر ، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کوشیطانِ مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘آخر کار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا۔ اُسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اُٹھایا۔ اور زکریّا کو اس کا سرپرست بنادیا۔ زکریا جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔ پوچھتا ’’مریم ! یہ تیرے پاس کہا ں سے آیا؟‘‘ وہ جواب دیتی’’ اللہ کے پاس سے آیا ہے۔‘‘ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب دیتا ہے۔
مریم علیہا السلام کی صلاحیت کو دیکھ کر زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی تڑپ جاگی۔مریم علیہاالسلام کا جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام نہایت محظوظ ہوئے اور دل میں اس خواہش نے چٹکی لی کہ میرے گھر میں بھی ایسی ہی روح آئے۔چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ اے مولا! تو دعاؤں کا سننے والا اورقبول کرنے والا ہے ۔ مجھے بھی نیک اولاد عنایت کر۔اس دعاء میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اولاد چاہتے ہیں بھی ہیں تو ایسی جس سے نسل انسانی کا فائدہ ہو۔
بچے کی بنیادی ضرورت کھانا پانی ہے۔ بی بی ہاجرہؑ کی مثال اپنے بچے کی بھوک پیاس کے لیے جدو جہد کی اعلیٰ ترین مثال ہے، وہیں اس واقعہ میں شوہر بیوی کی زبردست مطابقت(Understanding) کی بھی مثال ہے کہ اگر اللہ رب العالمین کاحکم ہے تو سرتسلیم خم، یہ کیفیت حضرت ہاجرہؑ کی جب جب سامنے آتی ہے، اسی درجے کا صبر ،تحمل اور یقین اللہ سے طلب کرنے کودل چاہتا ہے ۔سخت محنت اورپانی کے لیے کی گئی سعی کو اللہ نے رہتی دنیاکے لیےمثال بنادیا ۔جومائیں اپنے بچوں کےلیے مشقت برداشت کرتی ہیں ۔ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے تگ ودو کررہی ہیں، حلال طریقے کی راہ پر ہیں، ان کی محنت اللہ ضائع نہیں کرے گا۔ ان کا اعتماد اس لحاظ سے بلند ہوتا ہے کہ ضرورتوں کی تکمیل اور شوہر کے ساتھ مفاہمت ان کے لیے سنتِ ہاجرہ علیہا السلام ہے ۔
یہاں خواب نہ سنانے کی تلقین سے واضح ہے کہ کچھ اہم باتوں کا اظہار نہ کرنے میں عافیت ہوتی ہے اور شیطان کے کھلا دشمن ہونے کی بات سے یہ نکتہ نکل آتا ہے کہ بچے جب باشعور ہوجائیں تو ان کے سامنے لازماً شیطان کی دشمنی واضح کریں ۔اس طرح بچے اچھائی برائی میں تمیز سیکھتے ہیں ۔
(سورۃلقمان: 16 تا19)
[اور لقمان نے کہا تھا کہ] ’’کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔بیٹا !، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہےاور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔اپنی چال میں اعتدال اختیار کر ، اور اپنی آواز ذراپست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
جب بچے بڑے ہوجائیں تو ان کے سامنےاللہ کے احکام کو واضح کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، اگر ابھی نہ سن پائیں بعد میں ہی سہی، یہ جملے ان پر منکشف ہوں گے اور وہ دین اسلام کی حکمتوں کو سمجھ پائیں گے ۔موجودہ حالات میں بچے سے یہ کہنا کہ اللہ کو ہر چیز کی خبر ہے،کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا؛ یہ جملہ اسے کسی نا محرم کے ساتھ چیٹ اور گفتگو سے روکے گا ۔مستقبل میں بند کمرے میں رشوت کے پیسے لیتے اسے خوف آئے گا ۔تنہائی میں گناہ سے روکنے کے لیے یہ آیت بہت اہم ہے ۔شرک سے بچنے کی نصیحت اور صبر کی تلقین بھی بچوں میں پیدا کرنا ناگزیر ہے ۔
0 Comments