دسمبر٢٠٢٢
’’آخر ہے ناں چٹورا! آج فروٹ چاٹ والا نہیں آیا تو یہ چنا چاٹ کھا رہا ہے۔‘‘ نوید نے برگر کا آخری ٹکڑامنہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’ چاٹ تو ایسے منہ کولگی ہے کہ گولا گنڈا اور برگر تو مفت میں بھی نہیں چکھتا ۔‘‘ سعید گولا گنڈے کی چسکی لیتے ہوئے تائید میں مسکرادیا۔ ناصر تفریح کے وقت اپنے جیب خرچ سے صرف فروٹ چاٹ لے کر کھاتا تھا۔ اسکول کے گیٹ کے قریب تین اور ریڑھیاں بھی تھیں ۔ ایک برگر والی ، ایک گولا گنڈے اور ایک چنا چاٹ والی۔ جس دن فروٹ چاٹ والا نہیں آتا تھا، وہ چنا چاٹ لے لیتا۔ گولا گنڈے اور برگر کے شوقین اس کے ہم جماعت اسے ہنسی مذاق میں چٹورا کہتے تھے، جب کہ اسے چاٹ سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی اور چنے بھی اس کی ثانوی پسند تھے ۔ اصل میں تو وہ پھلوں کا شیدائی تھا۔چاٹ والا اگلے دن بھی نہ آیا اور اسے مجبوراً پھر چنا چاٹ کھانی پڑی۔ چنا چاٹ کو وہ برگر اور برف گولے کے مقابلے میں غنیمت سمجھتا تھا۔

٭٭٭

تیسرے دن فروٹ چاٹ والا آ چکا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے ناصر سے فروٹ چاٹ کے پیسے بھی نہیں لیے۔ ناصر کے اصرار پر وہ بولا :’’گاؤں سے رات ہی واپس آیا ہوں۔ شہزادی کا حفظ مکمل ہوا ہے۔ اس خوشی میں آج یہ چاٹ میری طرف سے ہے۔‘‘
’’آپ کو بہت مبارک ہوا شہزادی آپ کی بیٹی کا نام ہے؟‘‘
’’میں نے اس کا نام شہزادی رکھا تھا اور کل حافظہ بن کر وہ بالکل شہزادی لگ رہی تھی ۔‘‘
’’شہزادی بہت اچھا نام ہے ۔ تو کیا آپ کا نام بادشاہ ہے؟‘‘
’’نہیں ،میرا نام صاحب زادہ ہے۔‘‘
’’صاحب زادہ؟ یہ تو چھوٹی عمر والوں کو کہتے ہیں ۔ آپ کی عمرتو اچھی خاصی ہے بلکہ کمر بھی جھک گئی ہے بڑھاپے سے۔‘‘
’’میرا شروع سے یہی نام ہے۔ہمارے علاقے میں ایسے ہی نام ہوتے ہیں لیکن میں اتنا بوڑھا نہیں ہوں ،جتنا نظر آ رہا ہوں۔ ابھی تو میں پچاس کا بھی نہیں ہوا۔‘‘
’’پھر اتنی جلدی آپ کی کمر کیسے جھک گئی؟‘‘
’’اصل میں، میں منڈی سے صبح جو پھل خریدتا ہوں وہ اس ہتھ ریڑھی میں پورا نہیں آتا۔ آدھا پھل میں ایک دکان دار کے پاس رکھ دیتا ہوں اور آدھا لے کر منڈی کی ایک طرف بیچنے کے لیے نکل پڑتا ہوں۔ پھر واپس آکر باقی فروٹ لے کر دوسری طرف آجا تا ہوں ۔ ایک چھوٹے سے پہیے والی میں یہ ہتھ ریڑھی جھک کر ہی چلانی پڑتی ہے، اس لیے میری کمرجھک گئی ہے۔‘‘
’’اچھا! یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح مسلسل جھکنے سے آپ کی کمر میں درد نہیں ہوجاتا ؟‘‘
’’شام تک درد تو بہت ہو جاتا ہے اور نیند بھی دیر سے آتی ہے، لیکن درد کی گولی کھالیتا ہوں۔ صبح تک دردٹھیک ہو جا تا ہے۔‘‘ ناصر کو دکھ بھی ہوا اور اس نے اللہ شکر ادا کرتے ہوئے ایسے موقع کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مسنون دعا بھی پڑھ لی :
الحمدلله الذي عافاني مما ابتلاک به وفضلنی على كثير ممن خلق تفضيلا (ترمذی)
(مفہوم : تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے مجھ اس چیز سے عافیت دی ، جس میں تجھے مبتلا کیا اور فضیلت دی مجھے بہت زیادہ لوگوں پر اپنی مخلوق میں سے ۔)
کمرۂ جماعت کی طرف جاتے ہوئےجہاں اسے شہزادی کے حافظہ بن جانے کی خوشی تھی ، وہیں صاحب زادہ کی حالت زار کی وجہ سے اسے اپنی چال بھی جھکی جھکی محسوس ہورہی تھی ۔

٭٭٭

’’آپ بڑی ریڑھی کیوں نہیں لے لیتے ؟‘‘ اگلے دن ناصر نے یہ سوال کیا تو صاحب زادہ چاٹ بنانے میں مصروف رہا، جیسے اس نے سوال سنا ہی نہیں۔
’’ان تینوں کے پاس بڑی ریڑھیاں ہیں، چار پہیوں والی۔‘‘ ناصر نے باقی ریڑھی والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’سیدھے کھڑے ہو کر اپنی چیزیں بیچتے ہیں۔ آپ کی ریڑھی کا ایک چھوٹا سا پہیہ ہے، جس کی وجہ سے آپ چاٹ بھی جھک کر بناتے ہیں ۔‘‘
’’میری حافظہ شہزادی بھی کہتی ہے کہ بابا آپ ریڑھی لے لیں ۔ میں جب بھی اپنے گھر فون کرتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ میں نے آج بھی قرآن پاک کی منزل پڑھ کر اللہ میاں سے دعا کی تھی۔‘‘فروٹ چاٹ کی پلیٹ ناصر کو تھماتے ہوئے اس نے کچھ توقف کیا۔
’’بیٹا! میری اوقات یہ تھی کہ میں منڈی میں ٹوکرا اٹھاتا تھا۔ وزن اٹھا اٹھا کر اور تیز چل چل کر میں بہت تھک جاتا تھا، پھر اللہ نے کرم کیا اور شہزادی کی دعاؤں سے یہ ریڑھی لے لی۔ اب میں اتنا جلد ی نہیں تھکتا اور پہلے سے زیادہ آرام میں ہوں ۔ جب اللہ کو منظور ہوا تو بڑی ریڑھی بھی لے لوں گا ، فی الحال تو اسی پر میں اللہ پاک کا بہت شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘صاحب زادہ اب کھڑاہوکر سستار ہاتھا ۔ ’’منڈی کی ایک طرف گھر ہی گھر ہیں، اس لیے میں صرف پھل بیچتا ہوں ۔ پھر دوسری طرف آتا ہوں تو یہاں بازار اور اسکول ہیں۔ یہاں پھل بہت کم لوگ لیتے ہیں، اس لیے فروٹ چاٹ بنا کر بیچتا ہوں۔‘‘صاحب زادہ ناصر سے پلیٹ لے کر بالٹی کے پانی سے دھور ہا تھا۔
’’ ابھی تو ویسے بھی رمضان شروع ہونے والا ہے۔ فروٹ چاٹ کے بجائے صرف پھل بیچوں گا، اس لیے اتنی مشکل نہیں ہوگی ۔‘‘

٭٭٭

ناصر، صاحب زادہ کی ہمت ،محنت اور شکر گزاری کے جذبے سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ صاحب زادہ کو بڑی ریڑھی کے لیے پیسے جمع کر کے دے گا۔ بڑی ریڑھی کی قیمت اس نےدوسرے ریڑھی والوں سے پوچھ لی تھی ۔ بارہ ہزار کوئی اتنی بڑی رقم نہیں تھی، لیکن صاحب زادہ کےلیے واقعی بڑی رقم تھی ،کیونکہ اسے اپنے مہینے بھر کی بچت گاؤں بھیجنی ہوتی تھی۔ اس نے حساب لگایا کہ اگر اس کی کلاس کے تمام طلبہ اپنے روزوں کے دنوں کے جیب خرچ جمع کر کے ریڑھی والے کو دے دیں تو اس رقم سے وہ بڑی ریڑھی خرید سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے کلاس انچارج صاحب کی اجازت اور مشاورت سے اپنی جماعت میں اس مہم کا آغاز کر دیا۔ کچھ طلبہ نے شروع میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ کچھ نے تو اس کا مذاق بھی اڑایا:’’چٹورا اب بڑی ریڑھی کی چاٹ کھانا چاہتا ہے۔‘‘ لیکن ناصر نے اس کی پروانہیں کی ۔ رمضان سے دودن پہلے جتنی رقم اکٹھی ہوئی ،اس میں اپنا جیب خرچ اور پیشگی عیدی ملا کر اس کے پاس تقریبا ًچودہ ہزار روپے جمع ہو چکے تھے۔ وہ بہت اطمینان اور سکون محسوس کر رہا تھا ۔

٭٭٭

’’سر! آپ یہ رقم ہم سب کی طرف سے فروٹ چاٹ والے صاحب زادہ کو دے دیں تا کہ وہ بڑی ریڑھی خرید سکے۔‘‘رمضان سے ایک دن پہلے ناصر نے اپنے کلاس انچارج صاحب کے کلاس میں آتے ہی ان سے یہ درخواست کی ۔ وہ اس سے پہلے صاحب زادہ اور اس کی بیٹی کے حفظ قرآن کے بارے میں بھی انھیں بتا چکا تھا۔ استاذ صاحب بہت خوش ہوئے اور انھوں نے تمام طلبہ، خصوصاً ناصر کے اس ہمدردانہ جذبے کی بہت تعریف کی۔
’’صاحب زادہ صاحب ! ہماری کلاس کے طلبہ نے یہ رقم آپ کو بھجوائی ہے۔ آپ اس سے بڑی ریڑھی بھی خرید لیں اور اپنے اور گھر والوں کے لیے عید کے کپڑے بھی بنوالیں ۔‘‘استاذ صاحب ،صاحب زادہ کو رقم دینے سے پہلے لفانے میں اپنی اور اس کلاس کے دیگر چار اساتذہ کی طرف سے بھی معقول رقم شامل کر چکے تھے۔

٭٭٭

عید کی تعطیلات کے بعد اسکول کھلا تو تفریح کے وقت طلبہ نے دیکھا کہ صاحب زادہ نئی اور بڑی ریڑھی پر ایک طرف پھل اور دوسری طرف فروٹ چاٹ سجائے نئے کپڑوں میں ملبوس ان کا منتظر تھا۔ آج اس کے چہرے پر تھکن کےبجائے اطمینان اور تشکر کے آثار نظر آرہے تھے۔ نوید اور سعید بھی صاحب زادہ کو رشک بھری نظروں سے اور کبھی چٹورے ناصر کو تحسین بھری نظروں سے دیکھتے…. اور ناصر ……! ناصر کی سوچ ان سب سے مختلف تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس وقت ہم سب سے زیادہ خوش گاؤں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتی حافظہ شہزادی ہوگی ،جس کی دعاؤں نے صاحب زادہ کو اب واقعی صاحب زادہ بنادیا تھا۔
Comments From Facebook

1 Comment

  1. Juveriya Parveen

    ماشاءاللہ کہانی بہت اچھی ہے ۔
    اللہ تعالی ہر بچے کو ایسی توفیق عطا فرمائے ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢