دسمبر٢٠٢٢
اساتذہ انسان کی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ افراد خاندان کے بعد استاد ہی طلبہ کے لیے مثال ہوتے ہیں۔ استاد کا رویہ، لہجہ اور الفاظ طلبہ کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کی شفقت اور نرم مزاجی کے نتیجے میں با کردار اور با اخلاق طلبہ تیار ہوتے ہیں۔ اساتذہ اعلیٰ اخلاق و کردار، اقدار اور قربانیوں ہی کے باعث افراد کی زندگی اور معاشرے میں اونچا مقام حاصل کرتے ہیں، لیکن موجودہ دور میں یہ مقام اساتذہ کے غلط رویوں کی وجہ سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ طلبہ کے ساتھ زیادتی یا سزا کے طور پر ان کو تکلیف دینا ایک عام رواج بن رہا ہے۔ جہاں ایک طرف طلبہ کو سزا نہ دینے کے لیے مختلف قوانین بنائے جا رہے ہیں، وہیں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
اس کی تازہ مثال 27 نومبر کو کانپور کے ایک پرائمری اسکول میں پیش آنے والا واقعہ ہے ، جہاں ریاضی کی ایک استاد نے پانچویں کلاس کے کم سن طالب علم کو ریاضی کا ایک پہاڑا نہ سنانے پر ڈرل مشین کا استعمال کرتے ہوئے سزا دی۔ رپورٹس کے مطابق اسکول کی لائبریری میں کچھ کام جاری تھا، جہاں موجود ٹیچر نے ایک طالب علم کو دیکھا اور اسے دو کا پہاڑا سنانے کے لیےکہا ، جب بچہ سنا نہیں سکا تو ٹیچر نے غصے میں قریب رکھی ڈرل مشین اٹھا کر بچے کے ہاتھ پر رکھ دی ، بچے کے ساتھی نے فوراً مشین کا بٹن بند کیا جس کے نتیجے میں بچہ گہرے زخم سے محفوظ رہا۔ بچہ کو مرہم پٹی کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ استاد کی طرف سے طلبہ پر ظلم کا یہ پہلا واقعہ نہیںہے۔ بھارت میں اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اسباب اور ان کے حل کیا ہیں؟
1) موجودہ تعلیمی نظام میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے لیے جو کورسزبنائے گئے ہیں وہ اساتذہ کو بنیادی تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں، لیکن بحیثیت استاد ان کی ذمہ داریاں ان پر واضح نہیں ہو پاتیں۔
2) ایک اور وجہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہے۔ بیشتر اوقات تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے معاش کا حصول مقصد ہوتا ہے۔ ایک دور تھا جب استاد اپنی زندگی بچوں کی تربیت اور ان کے کردار کو پروان چڑھانے میں کھپا دیتے تھے اور قربانیاں دے کر اپنے شاگردوں کو بہترین تعلیم فراہم کرتے۔ لیکن یہ معاملہ اب بہت کم رہ گیا ہے ۔ لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، لیکن اس کا مقصد محض حصول معاش ہے ،جس کے نتیجے میں طلبہ کے مستقبل کے تئیں سنجیدگی کا فقدان واضح ہے۔
3) استاتذہ اپنے اخلاق اور کردار کی طرف متوجہ نہیں ہیں ۔ اپنے اخلاقی فرائض سے غافل ہیں اور اپنے رویہ کو طلبہ کے ساتھ بہتر بنانے میں ناکام ہیں۔ جس کے نتیجے میں استاد اور شاگرد کے درمیان دوستی اور خلوص کا رشتہ قائم نہیں ہو رہا۔
ایسی اور بھی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر موجودہ دور میں اس قسم کے واقعات اکثر منظرعام پر آتے ہیں۔ ان تمام اسباب کے ممکنہ حل بھی موجود ہیں۔ جن کے ذریعے ان واقعات کو قابو کیا جا سکتا ہے۔
1) تعلیم و تربیت کے معیار کو بڑھایا جائے ،تاکہ صرف اساتذہ کی تعداد میں اضافہ نہ ہو بلکہ تدریس کے معیار میں بھی اضافہ ہو۔ اور اساتذہ کی بہترین تربیت ہو سکے۔
2) تعلیم کے مقاصد کو واضح کیا جائے،محض معاش کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کو ختم کیا جائے۔ استاتذہ کے ہاتھوں میں مستقبل کے معمار ہوتے ہیں جو دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ اساتذہ کے ذہن میں تعلیم کا مقصد واضح ہو۔
3) ایک اور اہم چیز اساتذہ کا اپنے اخلاق و کردار کی تربیت ہے۔ اپنے مزاج، لہجے اور رویے کو بہتر بنانا، طلبہ کے سامنے اپنے آپ کو مثال بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرنا، اپنے الفاظ کا صحیح استعمال ، بچوں کی غلطیوں پر صبر کا مظاہرہ اور شفقت نرمی کے ساتھ ان کو سمجھانا۔ ایسی کچھ چیزیں ہیں جن سے طلبہ کے ساتھ خلوص اور محبت کے بہترین تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے رویے سے نہ صرف بچوں پر مثبت اثر ہوتا ہے بلکہ وہ اساتذہ کی عزت بھی کرتے ہیں۔ نتیجۃًطلبہ کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور مستقبل میں وہ با اخلاق اور باکردار بنتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس کے نتیجے میں مظالم میں کمی واقع ہوگی اور اس کے علاوہ تعلیمی نظام بھی ترقی کر سکے گا۔ ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ایسی خبروں کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی طرف متوجہ ہوں اور کوشش کریں کہ ہم اپنے اطراف میںموجود اساتذہ کو بھی اس کی طرف توجہ دلائیں۔

ویڈیو :

video link

آڈیو:

audio link

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Umm e Haaniya

    Bilkul dursut zuha . Teachers ke apne aamaal aur aqlaaq is qadar kharaab hogai hain ki Allah ki panaah .Apne hi bachchon ustaad ka adab sikhana mushkil hogaya hai .Kaash k asaateza samjh sakein un par kesi bhaari zimmedaari di hai Allah rabbul izzat ne aur yaqeenan iski pooch bhi hogi .

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢