دسمبر٢٠٢٢
سوال:
میرے والد کا انتقال ہوئے تین برس ہوگئے ہیں، لیکن بھائیوں نے اب تک وراثت تقسیم نہیں کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب بھی پراپرٹی بیچی جائے گی، حصہ دے دیاجائے گا۔لیکن اب میرے شوہر مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ اپنے بھائی سے حصہ لائو،ورنہ طلاق دے دوں گا۔
میں یہ جانناچاہتی ہوں کیا میرے شوہر کو اس طرح مشروط طلاق دینے کا حق ہے؟
جواب:
کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی وراثت جلد از جلد تقسیم ہوجانی چاہیے۔ بغیر کسی عذر کے، خواہ مخواہ اسے ٹالنا درست نہیں ہے۔قرآن مجید میں اسے فرض قرار دیاگیاہے۔ جس طرح نماز،روزہ، زکوٰۃ اور حج فرض عبادات ہیں،جنہیں متعین اوقات میں اداکرنے کی تاکید کی گئی ہے،اسی طرح تقسیم ِ وراثت بھی فرض ہے۔ اس پر کسی شخص کے انتقال کے بعد جلد ازجلد عمل ہوناچاہیے۔ قرآن مجید میں ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردی گئی ہے کہ مالِ وراثت میں کن لوگوں کا حصہ ہے؟اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔(النساء:7)
’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو،اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔خواہ تھوڑاہو یابہت، اور یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے۔‘‘
اگلی آیات میں مستحقین ِوراثت اور ان کے حصوں کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔اس میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ میت کی اولاد(لڑکوں اور لڑکیوں)کے درمیان2:1کے تناسب سے وراثت تقسیم ہوگی، یعنی لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگناملے گا:
یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیٓ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ ۔(النساء: 11)
’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت کرتاہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔‘‘
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق دیاہے۔وہ خود کچھ کمائے، یا اسے تحفے تحائف ملیں،یانکاح کے موقع پر وہ مہرپائے،یاکسی رشتے دار کے انتقال پر اس کی وراثت میں اس کا حصہ لگے، اس پرعورت کا حق ہے، کسی دوسرے کو، یہاں تک کہ شوہر کو بھی اس پر قبضہ جمانے کا حق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ۔(النساء:32)
’’جوکچھ مردوں نے کمایاہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایاہے اس کے مطابق
ان کا حصہ ہے۔‘‘
اگرباپ کے انتقال کے بعد لڑکے وراثت کی تقسیم میں ٹال مٹول سے کام لیں اور اپنی بہن کو اس کا حصہ نہ دیں تووہ گنہ گار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑے جائیں گے، لیکن شوہر کا اپنی بیوی پر دبائو ڈالنا کہ وہ اپنے باپ کی وراثت میں سے اپنا حصہ لے کر آئے ،ورنہ اسے طلاق دے دی جائے گی،انتہائی نامناسب،غیر شریفانہ اور ظالمانہ رویّہ ہے۔عورت کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے۔ نکاح کے بعد عورت اپنے میکے سے کچھ لائے یا نہ لائے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑناچاہیے۔شوہر پر لازم ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اور بغیر کسی کو تاہی کے اسے طلاق کی دھمکی نہ دے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. نکہت اقبال

    مشکل معملات میں محمد رضی ا لا سلام ندوی کی بہترین رہنمائی اور ان مسائل کا حل قرآن اور حدیث کی روشنی میں پیش کرنا بہت ہی قا بل قدر و قابل اجرہیں ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے علم سے سب کو مستفید فرمائیں ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢