دسمبر٢٠٢٢
کسان دیوس ،یعنی کسانوں کا قومی دن۔ بھارت کے پانچویں وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے یوم پیدائش 23 دسمبر کو کسانوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔یہ دن کسانوں کی خدمات کےاعتراف اور ملک میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیےمنایا جاتا ہے ۔ 2001 ءمیں حکومت نے چو دھری چرن سنگھ کی کسانوں کی بہبود اور زرعی شعبے کی ترقی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے اعتراف کی غرض سے اس دن کو کسانوں کے لیے مختص کرکے کسان دیوس منانے کا فیصلہ کیا۔کئی مختلف دنوں کی طرح صرف ایک دن کسانوں کی خدمات کا اعتراف کر کے اور ملک کی ترقی میں ان کا کردار اور اہمیت اجاگر کر کے کیا کسانوں کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے؟
ملک کی ریڑھ کی ہڈی مانے جانے والے کسان آئے دن مختلف حالات کی بناء پر خود کشیاں کر رہے ہیں اور اس کا تناسب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، جس کے اثرات ملک کی قومی معیشت پر واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ قومی آمدنی میں %40 آمدنی زراعت پر منحصر ہوتی ہے۔ آج ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ،جس کی وجہ سے کسانوں کو حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولیات پوری طرح حکومت نہیں دے پا رہی ہے۔ گذشتہ سال کے واقعات اور وہ احتجاجات بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں جس میں کسانوں کو اپنی زمینوں کے دفاع کے لیےاور نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں کئی مہینوں تک احتجاج کرنا پڑا، کئی کسانوں کی جانیں بھی گئیں۔ 2014 ء
سے اس ملک کے کسان اپنی پریشانیوں سے جان چھڑانے کی غرض سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔
2021 ءکے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زرعی شعبہ میں 10881 کسان خود کشی کر چکے ہیں۔ حکومت کی نا کام پالیسیو ںکی وجہ سے ملک میں ہر گھنٹہ ایک سے زائد کسان اپنی جان لینے پر مجبورہے ۔یہ اعداد و شمار فکر انگیز ہیں کہ روزانہ تقریباً 30 کسان خود کشی پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ حکومت کا زرعی بجٹ کو کم کرنا اور زرعی سامان پر جی ایس ٹی لگانے کی وجہ سے کسانوں کی لاگت فی ہیکٹر 25 ہزار روپیے بڑھ گئی ہے ۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو NCRB کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 ءسے 2021 ءتک ملک میں 53 ہزار 881 سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی ہے ۔
اس طرح ہر روز 21 کسان مفلسی اور مایوسی کی حالت میں خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ودربھ13 ستمبر 2022 ءکی خبر کے مطابق ایوت محل میں صرف اگست کے مہینے میں 42 کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ امول یگے نے خود یہ اعداد و شمار پیش کیے۔مراٹھواڑہ میں 22 اکتوبر 2022 ءکی خبر کے مطابق مراٹھواڑہ میں ایک بار پھر کسانوں کی خود کشی کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اورنگ آباد ڈویژنل کمشنر کے دفتر سے موصول اطلاع کے مطابق مراٹھواڑہ میں جنوری 2022 ء
تا یکم اکتوبر تک 750 کتابوں نے خود کشی کی ۔
حکومت کی ناکام پالیسیاںجہاں اس کی ذمہ دار مانی جارہی ہیں ،وہیں قدرتی آفات سے بھی کسان متاثر ہو رہا ہے۔ تلنگانہ کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ 16 نومبر کی خبر کے مطابق تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ 2014 ءسے کسانوں کی خود کشی کو روکنے کے لیے کیےگئے اقدامات پر رپورٹ پیش کریں۔ پنجاب کے کسانوں پر بینکوں کا قرض ایک لاکھ کروڑ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ پنجاب میں گذشتہ سات ماہ میں 60 سے زائد کسانوں نے قرض کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات مہاراشٹر میں پیش آ رہے ہیں۔ بھارت کی خوشحال ریاستوں میں مہاراشٹر کا شمار ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار مراٹھواڑہ میں ہونے والی خود کشور کے لیے موسم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ رواں سال مراٹھواڑہ علاقہ میں756 کسانوں نے خود کشی کی ۔زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ خود کشی کرنے والے کسانوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ بارش کے قہر نے بھی فصلوں کو نقصان پہنچایا، جس سے 24 اضلاع کے کسان متأثر ہوئے ۔ ان میں ریاستی محکمۂ زراعت کے مطابق نصف سے زیادہ نقصان تو صرف مراٹھواڑہ کو ہوا ہے۔2019 ءسے خود کشیوں میں تقریباً 30 فی صد اضافہ ہوا۔ NCRB کے مطابق تازہ ترین رپورٹ بناتی ہے کہ 2020 ءکے مقابلے زرعی شعبہ میں خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد میں 9 فیصد اور 2019 ءکے مقابلے 29 فی صد اضافہ ہوا ۔ سب سے زیادہ 1424 مہاراشٹر میں خود کشی کے واقعات پیش آئے ۔ اس کے بعد کرناٹک میں 999 اور آندھرا پردیش میں 584 اور ابھی سلسلہ جاری ہے، اور ملک کسان دیوس منا رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے ہر سال پالیسیاں اور سہولیات کا اعلان کیا جاتا ہے۔
حکومت اگر واقعی کسانوں کی خدمات کا اعتراف اور قومی ترقی میں اہمیت بتانا چاہتی ہے تو ان پالیسیوں اور اسکیموں کو کسانوں تک صحیح ڈھنگ سے پہنچاہے ۔ آج کا کسان قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کسان فصلوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے پریشان ہیں۔ حکومت سہو لتوں کے ساتھ کسانوں کا تعاون کرے ۔ ملک کا کسان خوشحال اور مطمئن ہوگا۔تب ہی وہ ملک کی ترقی میں فعال اور اہم کردار ادا کرے گا ۔ ملک کی معاشی سماجی اور سیاسی صورت حال سدھر سکتی ہے۔کسان دیوس کے موقع پر اگر واقع کسانوں کو سہولیات فراہم کی جائے اور کئی پریشانیوں کو حل کرنے کے لیےاقدامات کیے جائیں ،تو ہو سکتا ہے کچھ حد تک اس دن کا حق ادا ہو ورنہ حکومت کی جانب سے برتی جانے والی بے اعتنائی اور ساتھ ہی قدرتی آفات نے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو کمزور کردیا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لیےکسانوں کا استعمال کر رہی ہے، لیکن کوئی بھی صحیح طور پر ان کے حق کے لیے میدان میں نہیں آتا۔ آج ہر ہندوستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک کے اس سرمایہ کی حفاظت کے تئیں بیدار ہو جائے اور عملی اقدامات کرنے کی جانب کوشاں رہے تب ہی ملک پھر سے ہرا بھرا ہو سکتا ہے۔
حکومت اگر واقعی کسانوں کی خدمات کا اعتراف اور قومی ترقی میں اہمیت بتانا چاہتی ہے تو ان پالیسیوں اور اسکیموں کو کسانوں تک صحیح ڈھنگ سے پہنچاہے ۔ آج کا کسان قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کسان فصلوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے پریشان ہیں۔ حکومت سہو لتوں کے ساتھ کسانوں کا تعاون کرے ۔ ملک کا کسان خوشحال اور مطمئن ہوگا۔تب ہی وہ ملک کی ترقی میں فعال اور اہم کردار ادا کرے گا ۔ ملک کی معاشی سماجی اور سیاسی صورت حال سدھر سکتی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢