دسمبر٢٠٢٢
زمرہ : النور
پیارے نبیﷺنے فرمایا کہ جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا۔ اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا۔ پیارے نبیﷺ کی اس صدا نے ماضی میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا، اور انسان کے پیروں میں بندھی زنجیروں کو توڑ کر انھیں آزاد کردیا تھا، ان کے جان مال کے ساتھ ان کا وجود محفوظ کردیا تھا۔
آج دور جدید، انسان کی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ مصنفین نے فرد کی آزادی کو اس درجے تک پہنچا دیا کہ باپ کی اپنے بیٹے کی سرزنش و سختی کوبچے کی آزادی کے خلاف مانا جانے لگا، لیکن اسی آزاد دنیا میں آج بھی غلامی کی بیڑیوں کے بوجھ سے کثیر تعداد میں انسان کراہ رہے ہیں۔ آج بھی غلامی باقی ہے، بس اس کا نام بدل گیاہے۔ اس لیے اسلام نے غلامی کے مسئلے میں احکام اور قوانین کے ساتھ ساتھ انسان کی تربیت پر بھی توجہ دی۔
پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے:
للملوک طعامه و کسوته ولا یکلف من العمل الا ما یطیق
(غلام کو کھلاؤ اور پہناؤ اور اسے وہ کام نہ دو جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔)(صحیح مسلم)
أطعموھم مما تطعمون وألبسوھم مما تلبسون
(ان غلاموں کو تم جو خود کھاتے ہو انھیں بھی کھلاؤ، جو خود تم پہنتے ہو انھیں بھی پہناؤ۔)(صحیح بخاری /صحیح مسلم)
اسلام وہ مذہب ہے، جس نے کسی بھی شخص کو نسل ،وطن ،رنگ ،زبان اور دین و مذہب کی بنیاد پر غلام بنانا حرام قرار دیا ہے ۔جب مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلاوجہ مارا تھا تو حضرت عمر ؓ نے بر سر عام اس کو سزا دی، اور ساتھ ہی گورنر کو سخت ناراضگی سے دیکھتے ہوئے فرمایا :
متی استعبدتم الناس وقد ولدتھم أمھاتھم أحراراً؟
(تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کیا ہے؟ جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا ۔)
قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے ہوتے تھے۔
(1) جنگی قیدی
(2) آزاد آدمی، جن کو اغوا کرکے غلام بنایا جاتا تھا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔
(3) وہ جو نسلوں سے غلام چلے آرہے تھے ۔اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء واجداد کب غلام بنائے گئے تھے ۔اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔
اسلام جب آیا توعرب اور بیرون عرب ،دنیا بھر کا معاشرہ ان تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا، اور سارا معاشی و معاشرتی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا ۔اب اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ ان کا کیا کیا جائے؟اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
اسلام نے’’ فکِ رقبہ‘‘ (غلام کی آزادی) کی ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب ،مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں یا اپنی غلطیوں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں ،یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑدیں۔
اس تحریک میں نبیﷺ نے خود 63 غلام آزاد کیے ۔آپﷺ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی ۔حضورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا۔حکیم بن حزام رضی اللہ نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمن بن عوفؓ نے تیس ہزار غلاموں کی رہائی کا نظم اپنے ذاتی سرمائے سے کیا۔
ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہؓ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں ،جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام بہت ممتاز ہیں۔یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا ،جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کیا کرتے تھے۔ اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔اسی کے ساتھ اسلام نے غلامی کی دوسری قسم کو قطعی حرام اور قانوناً ختم کردیا، جس کی رو سے کسی شخص کو اغوا کرکے خریدنابیچنا ممنوع قرار پایا ،اور اسلام کی کرنیں جہاں جہاں پھیلیں، غلامی کی یہ قسم ختم ہوتی گئی۔پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا۔ اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا۔غلامی کی تیسری قسم، جنگی قیدیوں کی بہتری کےلیےبھی پیارے نبیﷺنے عمدہ ترین راہ دکھائی۔مدینہ ہجرت کرنے کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان میں بڑی تعداد میں دشمن قید ہوئے۔آپ ﷺ نے ان کی رہائی کے  مختلف راستے نکالے۔ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجنگی قیدیوں میں سے بعض کو بطور احسان رہا کردیا، بعض کو فدیہ لےکرچھوڑ دیا گیا،بعض کو ان کے سنگین جرائم کی وجہ سے سزائے موت دی،اور بعض کو مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردیا گیا۔               جنگ بدر میں آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ گرفتار ہوئے تو بعض صحابہ نے کہا کہ انھیں یوں ہی رہا کردیا جائے،یا فدیہ لینے میں ان کے ساتھ کچھ نرمی برتی جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے۔ان میں کچھ قیدی ایسے تھے ،جن کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لیےکچھ بھی نہ تھا۔ نبیﷺ نے ان کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزادی حاصل کرلیں۔اس سے معلوم ہوا کہ مال کے علاوہ کسی کام کو بھی فدیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان واضح تعلیمات اور عملی اقدام کے باوجود جو غلام بیچے گئے تھے۔ان سے متعلق احسان اور حسن وسلوک کی تعلیمات دی گئیں اور ان کے حقوق کو قانوناً محفوظ کیا گیا۔ان قیدیوں کے ساتھ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم اجمعین بڑی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔خود تو روکھا سوکھا کھانے پر اکتفا کرتے تھے ،اور انھیں عمدہ کھانا فراہم کرتے تھے۔ان قیدیوں میںسے بعض کا بیان ہےکہ مسلمانوں کے اس لطف وکرم کو دیکھ کر ہمیں غیرت آنے لگتی تھی۔اسلام نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ یہ تمہارے حسنِ سلوک کے محتاج ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔باری تعالی کا ارشاد ہے:
وَاعۡبُدُوا اللٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۞
(اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور فخر کرنے والا ہو۔)(سورۃالنساء : 36)
حضور اکرمﷺ کو غلاموں کی ہر وقت فکر رہتی تھی کہ انھیں کوئی اذیت نہ پہنچائے اور نہ کوئی ان کی حق تلفی کرے۔ہر وقت آپ اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔یہاں تک حجۃ الوداع کے موقع پر اور مرض الموت کے وقت بھی صحابہ ٔکرام کو نصیحت فرمائی: ’’نماز کو لازم پکڑو اور جو باندی اور غلام تمہارے قبضہ میں ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘(صحیح مسلم)
اللہ کے رسولﷺ نے غلاموں کو غلام کہہ کر پکارنے سے بھی منع کیا ہے۔ اور ان کو خوبصورت القاب سے پکارنے کا حکم دیا ہے۔
(سنن ابو داؤد)
یہی وجہ ہےکہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں غلام اپنے لیےآزادی کے بجائے غلامی کو ہی پسند کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کے بعد انھیں وہ حمایت نہیں مل سکے گی،اور اس حسن سلوک سے محروم ہوجائیں گے،جو انھیں غلامی کی حالت میں حاصل ہے۔آزادی کے بعد وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ جب کہ غلامی کی صورت میں معاشرہ ان کا محافظ ہے۔اسلام کی ان واضح تعلیمات اور انسانی سماج پر اسک کےاحسانات کے باوجود آج اسلام کو غلامی کے مسئلے میں بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی لیڈنگ پلیٹ فارمزسے خوب خوب نشر واشاعت ہو۔

ویڈیو :

آڈیو:

audio link
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢