دسمبر٢٠٢٢
آج کل مارکیٹ میں نئے دیوانوں کا رش ہے۔ واقعی جنہیں دیکھ کر صرف خوشی نہیں ہوتی، بلکہ بے اختیار قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے کہ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ’’خرابے‘‘میں۔ دنیائے شاعری کے درخشندہ ستارے اور سوشلستان کے سلیبریٹیز حافی و زریون ان نو آموز اہل جنوں کی زد پر ہیں؛ اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ خراباتیان خرد باختہ ،شاہ حاتم کے اس شعر کو عملی جامہ پہنا کر ہی دم لیں گے:
ایسا کروں گا اب کے گریباں کو تار تار
جوپھر کسی طرح سے کسی سے رفو نہ ہو
لیکن وہ مدہوشی کی انتہا میں یہ بھول گئے:
جنوں کا پوچھیے ہم سے کہ شہر کا ہر چاک
اسی دکان رفوگر سے ہو کے جاتا ہے
سو رہے زریون ،تو آپ کےسلسلے میں ہماری آج بھی وہی رائےہے ،جو زمانۂ جاہلیت میں ہوا کرتی تھی کہ آپ نے اکثر مغفرت لائق کہا ،لیکن آپ کے کلام کا بیشترحصہ جہنمیوں کو عذاب میں اضافے کےلیے سنایا جائے گا،اور چونکہ دھرتی گناہوں کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے اور روئے زمین پر عاصیوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
لہذا ’’وائرل‘‘ وہی کلام ہوا جو عذاب میں اضافے کےلیےخاص تھا، اور جو مغفرت لائق تھا وہ نیکوکاروں کی قلت تعداد پر ماتم کناں،عاصیوں کی محفل میں کسی تنہا زاہد کی طرح ایک کونے میں پڑا پیچ و تاب کھاتا رہاکہ اسے کوئی منہ نہیں لگاتا۔ ممکن ہے عذابی شاعری کے وجود میں آنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ شاعر روز مرہ کی گفتگو کو بھی عروض و قوافی کی جکڑ بندیوں میں مقید کرکے پیش کرنے کا عادی ہو۔ مثلاً مشہور زمانہ شعر:
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو! اچھی لگتی ہو
محبوبہ کی شدید خواہش کا ایسا پرجوش احترام و استقبال اور ایسی بروزن خوبصورت تائید کسی غیر شاعر کے بس کا روگ ہرگز نہیں!پھر:
وہ تو علی زریون ہے بھائی، اُس کی گلی کا بچہ بھی
‏بات ذرا سی غلط کرو تو منہ پہ مصرعہ مارتا ہے
تو وہ خود عام جملوں کو بھی مصرعوں میں ڈھال کر کیوں نہ پیش کرتا؟
اب رہے حافی ،تو آپ کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ اعتراف لازم ہے کہ اس شاعر کو اس کے کلام سے زیادہ زریون کے بے تحاشا و بے محابا بوسوں نے رسوا کیا۔ یعنی: ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے!
خیر، ہفوات بکنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو ،ہر شخص اس میں مبتلا ہے۔ (یہ تحریر بھی اسی کا حصہ ہے۔)
ولی صفت غالب بھی اس روگ سے محفوظ نہ رہ سکے، جن کے آگے یہ دنیا بازیچۂ اطفال ہوا کرتی تھی۔ ایک مدت تک جو لکھتے رہے اسے خود ہی پڑھتے، سمجھتے رہے اور گنگناتے رہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
لیکن وہ ٹھہرے غالب،سب پر غالب؛اور بھلا اس شخص کی سخن فہمی اور نبض شناسی کا کون منکر ہوگا جو اک عدد فرضی استاد بھی خود ہی پیدا کرلے اور نقادوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہے۔ چنانچہ تنقید کی اسی شہ رگ کو پرکھا اور حالت جنوں میں بکا گیا تمام کلام متروک کر دیا،لیکن ان صاحبان کے ساتھ ایک سانحہ یہ پیش آیا کہ یہ اس ڈیجیٹل عہد کے شعراء کرام و عظام ہیں جہاں ’’وائرل کا چسکا‘‘ تخریبی کاروائیوں پر بھی آمادہ کرتا ہے ،کیونکہ تخریب کاریاں ہی شہرت و معرفت کے مترادف ’’وائرل ‘‘ نما عجیب و غریب شے کی اصل وارث و حقدار ہیں۔ (شاید اسی کو کہتے ہیں آپدا کا اوسر میں تبدیل ہونا۔)
لہذا، یہ حضرات متروکات جیسی فضولیات کے سزاوار نہ ہوئے اور جو بک دیا سو بک دیا، کہ :
بدنام اگر ہوں گے تو کیانام نہ ہو گا ؟
حافی و زریون کا رشتہ مومن و غالب کے تعلق کی یاد بھی دلاتا ہے۔( ذرا سے فرق کے ساتھ کہ وہ ادبی لوگ تھے یہ ادبی نما لوگ ہیں۔)جو کام زریون بوسے نچھاور کرکے کیا کرتے ہیں ،وہی کام غالب کبھی مروتاً کبھی قصداً کبھی مزاحا ًاور کبھی مدحاً کیا کرتے تھے۔ورنہ مومن کے اس شعر میں بھلا ایسا کیا دھرا ہے جس کے عوض غالب اپنا سارا کلام دینے پر راضی ہو گئے:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالانکہ ہر ذی شعور خوب واقف ہے کہ غالب کے بعض مصرعےبھی مومن کے دیوان پر بھاری ہیں۔
غالب،کہ ایسا نوائے سروش جس پر مضامین بھی غیب سے اتریں!
حافی کا معاملہ زریون کے برعکس ہے۔ حافی نے بیشتر مغفرت لائق کہا۔ اور بہت کم عذابی ادب تخلیق کیا۔ (خطا یہ ہوئی کہ متروک گھوشت نہ کیا، یا کیا بھی ہو تو کان دھرنے والا کون ہے؟) اور دو چار ویڈیو کلپ دیکھ کر نقاد بننے والی قناعت پسند عوام کا ذوق و شعور اسی کو شہرت کی معراج تک لے گیا۔ یوں اعلیٰ درجے کا ادب بے ادبی تلے دب کر رہ گیا۔ صرف سننے اور دیکھنے پر فوکس رکھنے والے پڑھنے پر بھی تھوڑی توجہ دیتے تو ان صاحبان کے خرابے سے بیش بہا موتی چُنے جا سکتے تھے، لیکن خیر ہیرے کی اصل پہچان جوہری کو ہی ہوا کرتی ہے یہ بھی سب کے بس کا روگ نہیں۔
حافی کی غزل ’’دیا جلے‘‘ جسے منیب قریشی کی آواز نے چار چاند لگائے اور نظم ’’تتلی‘‘ جسے حیدر اقبال نے اچھوتا رنگ دیا؛ انہی خزانوں میں سے ہیں۔ رہا مزاح، تو بی کنٹینیو! ہم بیٹھے ہی انجوائے منٹ کےلیے ہیں۔ ہم… خراباتیانِ خرد باختہ،اور آپ کوسوشل میڈیا کے اس خرابے پر کم یقین کرتے ہوئے براہ راست اپنی اسٹڈی ٹیبل پر ’’دیا جلے‘‘ اورتہذیب حافی کی بہترین نظم ’’ تتلی‘‘ رکھنا چاہیے اور پڑھنا چاہیے ۔
Comments From Facebook

1 Comment

  1. شہزاد احمد

    آپ نے بلکل صحیح فرمایا ان دو ہستیوں نے ادب کو نئے سرے سے تخلیق کر دیا ہے اور میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر کسی اور شاعر کو پڑھنے کے بعد انہیں پڑھا یا سنا جائے تو انکی شاعری میں عجب رنگ ہوتا ہے ایسی زمیں ہوتی ہے جس کا آسمان کوئی نہیں۔۔۔اور ویسے بھی ہم لوگ رنگ برنگی شاعری سے نکل کر اب پھیکی شاعری سننا پڑھنا چاہتے ہیں ۔۔۔اور ان شعراء کرام (بما باقی ٹیم) کا کہنا ہے کہ لوگ ویسی شاعری سننا ہی نہیں چاہتے سو ہم ویسا کیوں لکھیں اب دیکھیے قصور انکا بھی نہیں ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

دسمبر٢٠٢٢