خالہ کا خط بھانجے کے نام
پیارے بھانجے !
تم پرخدا کی سلامتی ورحمت ہو ۔
آج صبح صبح تمہاری شادی کی اطلاع کا میسیج ملا ، دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ میرا اتنا سا گڈا اب اتنا بڑا ہو گیا کہ دولہا راجہ بنے گا۔پیاری سی دلہن اس کے لیے لائی جائے گی،سبحان اللہ ۔
اب تمہیں کیا بتاؤں ! لاک ڈاؤن کی وجہ سے فلائٹس بند ہیں۔ مجھے بے انتہا اداسی ہو رہی ہے کہ میں اپنے لاڈلے بھانجے کی شادی میں شریک نہیں
ہو سکتی۔ بس ویڈیو کال پر تمہیں دیکھ کر دعائیں دیتی رہوں گی۔اللہ کرے میرا گڈا سدا شاد و آباد رہے۔
مجھے پتا ہے گھر میں خوب زور و شور سے شادی کی تیاریاں چل رہی ہوں گی۔ شادی اور ولیمہ کے سارے انتظامات اور کاموں کی تقسیم بھائی جان نے کردی ہوں گی۔ تمہاری دادی اماں کی ہدایتیں جاری ہوں گی اور شاپنگ تو شادی والے دن تک چلتی رہے گی۔ اب تم کیا کرو گے؟
میری مانو ایک Pre Marriage workshop Attend
کرلو ۔میرا خیال ہے اتنا کافی نہیں ہوگا ۔میرا مشورہ ہے کہ اسلام کا عائلی نظام Family system in islam کا سنجیدگی سے مطالعہ کرلو۔
ارے وہ کیوں نہیں بھائی! پولیس ٹریننگ ہوتی ہے، ٹیچرز ٹریننگ ہوتی ہے، ڈاکٹرز کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے، معمولی نرس کو بھی اس پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو زندگی کے اتنے اہم موڑ پر ایک نوشہ کو کیوں نہیں تربیت دی جانی چاہیے، تاکہ اس کی آنے والی زندگی کی راہیں خوش گوار اور خوبصورت ہو ں!
تم کو نہ ہمیشہ میری باتوں پر ہنسنے کی عادت سی ہے ۔ ذرا اس مرتبہ میری باتوں کو دھیان سے سننا۔تم کو اپنے آپ پر بہت فخر ہے کہ Physics اورMath کے مشکل سے مشکل پرابلمس کو چٹکیوں میں حل کر سکتے ہو ۔میری جان !زندگی کے سفر میں بھی بہت سے پرابلمس آتے ہیں۔یہ راہ صرف پھولوں کی سیج نہیں ہے ، اس میں خاردار جھاڑیاں بھی آتی ہیں۔ اب یہ تمہارا ٹیسٹ ہے کہ تم کتنے Genius ہو ، کانٹوں سے الجھے بغیر اپنے دامن کو بچاتے ہوئے کیسے راستہ طے کرتے ہو ؟ اسے حضرت عمرؓ تقویٰ کا راستہ کہتے ہیں اور جدید دنیا اسے آرٹ کا نام دیتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ عقد نکاح کے ذریعے ایک مرد اور ایک عورت زندگی کا نیا سفر شروع کرتے ہیں اور نئی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس وقت انہیں خطبۂ نکاح کے ذریعے یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے اس نئے سفر میں بہت سے نشیب و فراز آسکتے ہیں، لیکن تمہیں اس عزم کے ساتھ قدم بڑھانا چاہیے کہ جب تک جان میں جان اور سانس کی آمد و رفت ہے، اللہ کے فرماں بردار بن کررہوگےاور کسی حال میں اس کی اطاعت و فرماں برداری کی راہ سے انحراف نہ کرو گے۔

Getting Marriage is Easy,
Staying marriage is difficult,
Staying Marriage For A Long Span Of Time happily Understanding each other Is an Art.

خطبہ نکاح میں بار بار تقوی

(یایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللٰهَ)
کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت اس لیے تھی، کیوں کہ اس موقع پر قدیم رشتہ داریوں(Old relations) کے ساتھ جدید تعلقات(New relations)وجود میں آرہے ہیں ۔ ان میں اعتدال قائم رہے۔یہ زندگی کا حسن ہے۔
شادی کے بعد ایک عرصہ تک بندے پر ایک جذباتی کیفیت طاری رہتی ہے ، اس میں ان پرانے تعلقات کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے بار بار تقویٰ پر زور دیا جاتا ہے اور تاکید کی جاتی ہے کہ بندہ اللہ سے ڈر کر اپنا رویہ متعین کرے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے، جس سے رشتوں کا احترام مجروح ہو اور حقوق ادا ہونے سے رہ جائیں ۔
دوسری بات خطبہ کی ذریعے یہ بتائی جاتی ہے کہ سیدھی سچی بات کہو ۔
(وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا)
شادی کو محض ہنسی مذاق یا وقتی تفریح کا عمل تصور کرنا بڑی نادانی ہے ۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے متعلق جو سنجیدہ بات کہی جائے گی، وہ سنجیدہ ہی سمجھی جائے گی اور جو مذاق میں کہی جائے گی وہ بھی سنجیدہ ہی متصور ہوگی۔ان میں سے ایک ہے نکاح دوسرا طلاق اور تیسرا رجوع۔
خطبۂ نکاح کی آخری الفاظ ہیں :
مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
(اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔) شادی کے موقع پر بھی بندہ کامیابی کا خواب دیکھتا ہے، یہ فطری بات ہے ۔کامیاب وہ نہیں جسے خوبصورت بیوی مل جائے، جسے بہت سی ڈگریوں والی بیوی مل جائے ،جسے بہت سا جہیز مل جائے، بلکہ کامیاب وہ ہے جس کی گردن میں اللہ اور اس کی اطاعت کا قلادہ ہے، جو ہر دنیاوی فائدے اور نقصان سے بےنیاز اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہو۔وہ کامیابی کےاس مقام بلند پر ہے کہ کوئی دوسرا اسے پا نہیں سکتا ۔
اسلام کا ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے خاندان کا ایک مفصل نظام پیش کیا۔ مرد و زن کا رشتہ عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار کیا، افراد خاندان کے حقوق و واجبات کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا اور ان کے درمیان ہمدردی محبت اور حسن سلوک کا ماحول پیدا کیا ۔ خوشگ گوار خاندان کے لیے صرف قانون کی بات کافی نہیں، بلکہ اس میں بہت حد تک اخلاق کا بھی ایک بہت بڑا رول ہوتا ہے۔میرے خیال سے نئے اور پرانے رشتوں کے درمیان توازن قائم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عام طور پر خاندان کی خوشگواری کا سارا دارومدار خاتون خانہ پر سمجھا جاتا ہے۔میرا خیال ہے کہ خاندان کی خوشگواری میں مرد کا key رول ہوتا ہے ۔بتاؤں وہ کیسے؟نکاح کے بندھن میں بندھ کر ایک لڑکی اپنا شہر اپنا گھر اپنے والدین، بہن، بھائی، عزیز رشتے دار سب کو چھوڑ کر ایک گھر جاتی ہے، جو اس کے لیے بالکل اجنبی ہے۔جس سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں۔یہ صرف اپنے شوہر کے لیے۔لہٰذا شوہر کی ذمہ داری ہے کہ جس کی خاطر ایک لڑکی اتنی قربانیاں دے کر آئی ہے، اس کے لیے اس کا Space فراہم کرے ، اپنے افراد خاندان سے دلہن کےخوش گوار تعلقات کے لیے ایک مضبوط connecting bridge کا رول پلے کرے۔دلہن کو اپنے گھر کے افراد کی پسند اور مزاج سے واقف کرائے اور دلہن کی پسند کا خود خیال رکھے۔
انسان محبت کا بھوکا ہوتا ہے۔اگر آنے والی دلہن کو محبت ملے تو اس کے دل میں بھی محبت ابھرے گی اور محبت سے محبت پیدا ہوگی۔ مرد کو خواتین کا قوام کہا گیا ہے۔ قوام کے کئی معنیٰ ہیں۔قائم کرنے والا ، سیدھا رکھنے والا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایاہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور سب سے اچھا اسے کہا جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھا ہو۔
ان دو احادیث کی روح و حکمت جو سمجھ جائے، اس کی دنیا بھی پرسکون اور آخرت بھی یقیناً کامیاب ہوگی ۔ پیارے نبی ﷺ نے خالا کو ماں کے برابر مرتبہ دیا ہے۔اس لیے اپنے لاڈلے کو کچھ باتیں بتانا ضروری سمجھی ہوں۔تمھارے لیے ڈھیروں خوشیوں اور مسرتوں کے لیے دعاگو ہوں۔
اسلام کا ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے خاندان کا ایک مفصل نظام پیش کیا۔ مرد و زن کا رشتہ عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار کیا، افراد خاندان کے حقوق و واجبات کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا اور ان کے درمیان ہمدردی محبت اور حسن سلوک کا ماحول پیدا کیا ۔ خوشگ گوار خاندان کے لیے صرف قانون کی بات کافی نہیں، بلکہ اس میں بہت حد تک اخلاق کا بھی ایک بہت بڑا رول ہوتا ہے۔میرے خیال سے نئے اور پرانے رشتوں کے درمیان توازن قائم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
Comments From Facebook

5 Comments

  1. ابو بنات

    بہت عمدہ۔
    عصرِ حاضر میں زندگی کی مہارتوں (Life Skills) کا خاصا چرچا ہے۔یہ مہارتیں کیا ہیں اور ان کا کامیاب ازدوجی زندگی سے ان کا کیا تعلق ہے اس موضوع پر ان زاویوں سے شاید ہی آج کل سوچا جاتا ہے۔ کامیاب ازدوجی زندگی کے دستور کے جامع تعارف پر مبنی یہ خط قابل ستائش ہے ! اور ہم جےسے ان مسافرانِ حیات کے لیے ایک نسخہ ہے جو زندگی کی پیچ وخم راہوں پر “عمر کے تقویٰ” کے ساتھ سفر کرنا چاہتے ہیں۔
    جزاک اللہ خیر! بہت خوب تذکیر۔
    شادی کا مطلب ’قبول کرنا ہے‘ غلطی سے ہم اکثر اوقات یہسمجھ لیتے ہیں کہ شادی ہمیں دوسرے فرد کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا لائسنس دے دیتی ہے۔ اسطرح ہم اپنے ساتھی کی ”اصلاح“ پر جت جاتے ہیں، چاہے اس عمل میں وہ خوبیاں بھی تباہ ہو جائیں جن کی وجہ سے وہ ہمیں اچھا لگتا ہے!

    Reply
    • سمیہ شیخ

      ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت تحریر ہے اور خوبصورت انداز بیان بھی…. خالہ نے تو حق ادا کر دیا ,انمول معلومات بہترین پیرائے میں بھانجے تک پہنچا دیں…. ایسی ہر خالہ کو ہمارا سلام…. دراصل یہ وہ باتیں ہیں جو ہر خالہ اپنے بھانجے کو بطور تحفہ پیش کر سکتی ہے -اشیاء کا لین دین تو ہر کوئی کر لیتا ہے لیکن زندگی کو صحیح ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ ہر کوئی نہیں سکھاتا- اور شادی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ رشتوں کو بیلنس کرنا ہے اور یہی چیز نئے شادی شدہ جوڑوں کو ایک عجیب کشمکش میں ڈال دیتی ہے لیکن اسلامی تعلیمات کی رہنمائی تمام مراحل کو قد رے آسان بنا دیتی ہے اور اسی چیز پر اس تحریر میں ہماری پیاری بہن نے روشنی ڈالی ہے اللہ رب العزت ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور نکاح کا ارادہ کرنے والے نوجوان اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں-

      Reply
  2. Mahreen

    Beshak communication or massage insaani taluqqat ko mazboot krne wala bahot he asaan aur basic tareeqa hai aur shayad he meri nazar me pehli baar wala banje ke talluq se itni khubsurat tehreer padhne ka mauqa mila hai aur jis tarha Tahseen baji apne un ayaah ko tafseel se samjhaya hai bs saree batein dil ko chu gai hai
    Alhamdulillah kuch aisi barikiya bhi mujhe samjh ayi hai jo mere shohar me maujud hai mujhme nhi Allah ne apke zariye meri madad kardi
    Allah apke zehn ko wasii kare behtar Rehbar banay
    AMEEN

    Reply
  3. ریاض الحسن

    ماشا ءاللہ ۔۔ عمدہ نصیحت ۔۔وقت کی اہم ترین ضرورت ۔۔

    Reply
  4. Sameera shaheen

    Ma sha Allah bhot umda tahreer hai jis me mohabbat k bare me kahan gya ager tum us ko pyar denge to us ka badla tumhe pyar milenga

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ٢٠٢٢