انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے آزادیٔ نسواں اور ویمن امپاورمنٹ کو بھی نیا مقام عطا کیاہے۔ ویمن امپاورمنٹ صرف ایک غیرمرئی تصور نہیں ہے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین سے متعلق تمام معلومات کے لیے ان کی لیاقت و مہارت میں اضافہ کرکے سماجی اور ادارہ جاتی رکاوٹوںکودور کرنے کا موقع فراہم کرنا، ساتھ ہی مالی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ داریوںکوبڑھاوادینا، تاکہ وہ اپنے معیار زندگی میں غیر معمولی تبدیلی واصلاح کرسکیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا کینوس بہت وسیع ہے اور اس سے گزرتے ہوئے عورت ذات کے تئیں چلے آرہے ہزاروں سال کے تصورات کو تر ک کرنا پڑتاہے۔ عورت کے من میں آج بھی اضطراب ہے، کسک ہے اور کچھ کرنے کاجذبہ ہے۔ بس ضرورت ایک ذریعے کی ہے۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے گھر بیٹھے انھیں یہ میڈیم فراہم کرا دیاہے۔جہاں کوئی روک ٹوک نہیں۔ یہاں خواتین بے داری کاماضی، حال اور مستقبل کا سنگم بہت زیادہ تیز وتندہے۔ سوشل میڈیا تحریک نسواں،ویمن امپاورمنٹ اور آزادیٔ نسواں کے ہتھیار کے طورپر ابھر کر سامنے آیاہے۔
ٹرائی کی رپورٹ کے مطابق ہندستان میں دسمبر 2016تک تقریباً 39.15 کروڑ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کررہے تھے۔ ان میں شہری علاقوں میں 27.64 کروڑ اوردیہی علاقوں میں 11.51کروڑ یوزرس شامل ہیں۔گوگل انڈیا کی جانب سے کی گئی خواتین اور ویب اسٹڈی کے مطابق ان میں سے 30 فی صد خواتین ہیں۔ ان میں شہری علاقوں میں انٹرنیٹ یوزرس میں 48 فی صد مرد اور 27 فی صد خواتین ہیں، جب کہ دیہی علاقوں میں یہ بالترتیب 35اور 12 فی صد ہے۔ ہندستان میں ویمن امپاورمنٹ میں اہم کردار ادا کرکے انٹر نیٹ ان کی زندگی کو نیا رخ دے سکتاہے۔خواتین میں موبائل پر انٹر نیٹ کے استعمال کا چلن بڑھ رہاہے۔ 2013 میں صرف 20 فی صد خواتین انٹر نیٹ کا استعمال کرتی تھیں،لیکن اکتوبر 2015 تک یہ عدد 30 فی صد تک پہنچ گیا۔ یہ سبھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں انٹر نیٹ کا استعمال کرتی ہیں اور اپنے کام نبٹانے کے لیے آن لائن رہتی ہیں۔اسٹڈی کے مطابق انٹر نیٹ پر ہندستانی خواتین سب سے زیادہ لباس اور سجنے سنورنے کے لیے گہنوں کی تلاش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ کھانے پینے،بچوں کی دیکھ بھال، بال سنوارنے اور جلد نرم وملائم رکھنے کے طریقے تلاش کرتی ہیں۔انٹر نیٹ سے ہندستانی خواتین کے بااختیار ہونے میں اضافہ ہواہے اور معلومات تک ان کی رسائی ہوئی ہے۔ وہ روزانہ کی زندگی کے بارے میں صحیح اور وسیع الجہات فیصلے لے پارہی ہیں۔ سوشل میڈیاکا بھی خواتین کھل کر استعمال کر رہی ہیں۔اس کے ذریعے وہ ان تمام پہلوؤں پر سوال پوچھ رہی ہیں، جنھیں اب تک موضوعِ گفتگونہیں بنایا گیا۔پارلیمانی انتخابات کے دوران خواتین کی تنظیم’فکّی‘سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی قبول کیا تھاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین نے ان سے سوال پوچھے تھے اور بہت سی تجا ویز بھی پیش کی تھیں۔ انھوں نے کہاکہ اس کی وجہ سے انھیں ایشوز کو سمجھنے اور ان پر تقریر تیار کرنے میں کافی سہولت ہوئی۔
انٹرنیٹ کی رسائی ہر جگہ بڑھی ہے۔گھر، سائبر کیفے اور دفاتر میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ موبائل فون پر بھی انٹرنیٹ کااستعمال ہوتاہے۔ان کااستعمال خواتین کے ذریعے کئی بار صحیح اور من پسند پروڈکٹ کا انتخاب کرنے کے لیے کیا جاتاہے۔مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ خواتین کے آن لائن آنے سے ایک بہت بڑا مثبت اثر ان کی زندگی، ان کی حالت اور ساتھ ہی سماج پر ہوتاہے۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین نسبتاً جوان اور خود کفیل ہیں۔ حالاں کہ خواتین کے سامنے انٹرنیٹ استعمال کرنے میں عملی مسائل آتے ہیں۔
مثلاً گھروں میں نیٹ ورک کا مسئلہ، گھر کے کام کے ساتھ ساتھ افراد خانہ کو وقت دینا اورپھر وقت ملا تو نیٹ پربیٹھنا ممکن ہوپاتاہے۔ آن لائن آنے میں خواتین کے آگے تین اہم رکاوٹیں ہیں:رسائی،علم اور بیداری۔ اقوام متحدہ کی براڈ بینڈ سروس کمیشن کے مطابق انٹر نیٹ سروسز کے معاملے میں خواتین کی صورت حال مردوں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے۔ترقی پذیر ممالک میں ایسی خدمات سے وابستہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں 25 فی صد کم ہے۔
انٹرنیٹ کااستعمال کرکے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے گوگل نے ’ہیلپنگ ویمن گیٹ آن لائن‘ نام سے ایک کوشش شروع کی تھی، اس کے تحت2014کے آخر تک مزید 5کروڑ خواتین کو انٹر نیٹ سے منسلک کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ ایسی کوششوں سے خواتین کو ’انٹر نیٹ فرینڈلی ‘ہونے میں آسانی ہوتی ہے،یعنی ان کے لیے انٹرنیٹ کااستعمال آسان ہوجاتاہے۔ سوشل میڈیا خواتین کے لیے ایک تیر بہدف نسخے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس نے خواتین کو کھل کر اپنی بات رکھنے کاوسیع پلیٹ فارم دیاہے۔ یہاں شوخی وشرارت ہے تو سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے۔خواتین کی تعلیم، کیرئیر،صحت،قتل جنین،جنسی استحصال، گھریلو تشدد، کام کی جگہوں پر جنسی مظالم،جہیز،اکل وشرب،موسیقی،علم نجوم،مذہبی عقائد سے لے کر سیاسی و سماجی تناظر، بدعنوانی، مہنگائی، ماحولیات وغیرہ جیسے تمام امور یہاں پر زیر بحث آتے ہیں۔ یہاں پر کھلے پن کی باتیں ہیں تو حدود کا احساس کراتی اخلاقیات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا کے اسٹیٹس میں نہ جانے کتنے سوالات کا شور پوشیدہ ہے۔ یہاں وقت کے بطن میں نہ جانے کتنی سیتا،ساوتری،دروپدی، انوسویا،گارگی اور نربھیا اپنا مہابھارت خود ہی لکھ رہی ہیں۔ یہاں ویدک ہندستان کی خواتین بیداری سے لے کرمیرابائی اور مہاشویتا دیوی تک کو سمجھنے اور گفتگو کرنے کا راستہ ملتاہے۔دل کے کوزے میں پوشیدہ متعدد سمندر اور آزادی کی جدوجہد سوشل میڈیا کے ذریعے سے بخوبی سامنے آرہی ہے۔
گھریلو ایشوز سے لے کر سماجی اور سیاسی ایشوز پر بے باکی سے کی بورڈ پر انگلیاںتھرک رہی ہیں۔ کئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی الگ شناخت قائم کررہی ہیں۔ گھر میں رہنے والی خواتین سوشل میڈیا کوایک ایسے پلیٹ فارم کی شکل میں استعمال کررہی ہیں، جہاں مختلف انداز میں ان کے خیالات کااظہارہو رہاہے۔ نظم، گیت، غزل، ہائیکو، کشنیکا، اتوکانت کویتائیں، مختصر افسانے، کہانی، مضامین، یادیں، سفرنامے،سبق آموز واقعات، کتابوں پر تبصرے سے لے کر تمام معروف پہلو ؤں سے خواتین سوشل سائٹس کو رونق بخش رہی ہیں۔ یہاں دلِ نسواں کانوحہ ہے تو وہیں ریت رواجوں اور روایات کو پارکرتا ہوا چیلنج بھی ہے۔
تبادلہ ٔ خیالات سے لے کر مذاکرات ومباحث تک موضوع ِخواتین سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع ہورہاہے۔ ہندستان میں فیس بک سے ابھی صرف30 فی صدخواتین جڑی ہوئی ہیں۔اب تک گھروں اور کنبوں کے دائرے میں رہنے والی خواتین یہاں اپنی صلاحیت کامظاہر ہ کرنے اور شناخت بنانے کوتیار نظر آتی ہیں۔ تبھی تو خواتین گھر میں گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غوروفکرکررہی ہوتی ہیں کہ آج وہ کس ایشو کو لے کرسوشل سائٹس پر لکھیں گی؟جن موضوعات کولے کر گھر اور معاشرے میں بولنے کی بندشیں ہیں، وہ سوشل سائٹس پر کھل کر شیئر کیے جار ہے ہیں اور ان پر اچھی خاصی بحث بھی ہو رہی ہے۔یہاں تک کہ سوشل میڈ یا کے معاملے میں گھریلو خواتین ملازمت پیشہ خواتین سے زیادہ سر گرم ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے معاملے میں جہاں گھریلو خواتین کی تعداد 55 فی صد ہے، وہیں ملازمت پیشہ خواتین 52فی صد ہیں۔ تجربات اور آپ بیتی کو شیئر کرنے سے شخصیت کے کتنے خوش گوار پہلو سامنے آسکتے ہیں، آگے بڑھنے کا کس قدر عزم وحوصلہ جاگ سکتاہے، سوشل میڈیا اس کی زندہ مثال ہے۔دہلی میں ہوئی اجتماعی عصمت دری اور پانچ سال کی بچی کے ساتھ ہوئے وحشیانہ ریپ کے بعد پیداہوئی صورت حال میں تمام خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف تحریک کا خاکہ تیار کیا، بلکہ خواتین کے تئیں حساس ہونے سے لے کر غیر روادار ہوتے سماج پر لاکھوں لوگوں کی جانب سے کیے گئے تبصروں نے ایسے بہیمانہ جرم کے خلاف ایک ماحول بھی بنایا۔ نتیجہ سامنے تھا اور سرکار کوکارروائی کرنی پڑی۔
فیس بک پر خواتین کی بڑھتی حصے داری ہی کااثر ہے کہ مرکزی وزارت برائے خواتین واطفال نے 2015 میں فیس بک کے ساتھ ’روپے 100مہیلائیں پہل‘شروع کی۔ اس کے تحت لوگ کسی بھی ایسی عورت کونامزد کرسکتے تھے، جس نے سماج پر گہرا اثر ڈالا ہواور سماج کوبہتر بنایاہو۔ فیس بک پر نہ صرف خواتین کی حصہ داری بڑھی ہے، بلکہ فیس بک بھی خواتین کے تئیں سنجیدہ ہوا ہے۔ فیس بک کے فرینڈز آئیکن میں آگے مرد کی تصویر ہوتی تھی اور پیچھے خاتون کی۔ اس کی وجہ سے مرد کے مقابلے عورت کا آئیکن تھوڑا چھوٹا بھی تھا۔ فیس بک نے 2015 میں اس میں تبدیلی کرکے عورت کو آگے اور مرد کو پیچھے کردیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، مرد اور عورت کے بالوں اور جسمانی ہیئت کو بھی کندھے سے کندھا ملاکر برابر رکھا گیاہے۔ مائیکروبلاگنگ سائٹ ٹوئیٹر نے بھی اعلان کیاکہ وہ 2016 سے خواتین کوزیادہ ملازمت دے گا۔ اس کا مقصد خواتین اورمردوں کے درمیان فرق کو ختم کرناہے۔اس کے تحت ٹیکنیکل جاب میں خواتین کی حصے داری 22 سے بڑھاکر 25 فی صد کی جائے گی۔ غور طلب ہے کہ موجودہ وقت میں دنیا بھر میں ٹوئیٹرکے 4100کارکنان ہیں، جن میں صرف خواتین1400ہیں۔ بلاشبہ ان سب سے ایک مثبت پیغام جاتاہے۔
سوشل میڈیا میں سب کچھ اچھاہی ہورہا ہے، ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ ہر بات کے مثبت اور منفی دونو ں پہلوہوتے ہیں۔ منفی لوگ بھی سوشل میڈیا سے منسلک ہو رہے ہیں۔ کئی مرتبہ خواتین کے نام سے فرضی پروفائل بناکر بھی غلط استعمال کیا جاتاہے۔بسااوقات انٹرنیٹ پر خواتین کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپلوڈ کی گئی تفصیلات اورفوٹو کے غلط استعمال کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں۔بعض خواتین کے اکاؤنٹ کو ان کے ہی دوستوں کے ذریعے ہیک کرکے قابل اعتراض مواد اور فوٹوپوسٹ کرنے جیسی شکایتیں سامنے آئی ہیں۔ ایسے میں اپنی کسی نجی بات یا نجی جانکاری مثلاًای میل، پتا، فون نمبر کو شیئر کرنا خطرناک بھی ہو سکتاہے۔
فرضی ناموں سے بڑھتے ردِ عمل اورالزامات اور جوابی الزامات کی وجہ سے بھی کئی مرتبہ خواتین کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ خواتین کی آزادی کو برداشت نہیں کرپاتے اور سوشل میڈی میں اناپ شناپ تبصرے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں 73 فی صد یعنی انٹر نیٹ و سوشل میڈیاپر سرگرم دنیا کی تقریباً تین چوتھائی خواتین نے تسلیم کیاہے کہ ان کے ساتھ آن لائن چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔66 فی صد لڑکیوں نے تسلیم کیاکہ ان کے ساتھ فیس بک پر چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔46.7 فی صد خواتین نے مانا کہ انٹر نیٹ پر وہ بیہودہ تبصرے برداشت کرچکی ہیں، لیکن انھوں نے نظر انداز کردیا۔ 35 فی صد خواتین نے سائبر چھیڑ چھاڑ کی شکایت درج کرائی۔ 86 ملکوں میں صرف 26 فی صد ایسے معاملوں میں قانونی کارروائی ہوتی ہے۔
تمل ناڈو کے ترونیلولی میں کرمنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹرجے شنکر اوروکیل دیبرتی ہلدر نے انٹر نیٹ پر حملوں میں خواتین کو نشانہ بنائے جانے پر تحقیق کرکے، ’کرائم اینڈدی وکٹیمائزیشن آف ویمن‘ Crime and the victimization of womenکے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔
اس میں انھوں نے صاف لکھا ہے کہ ’’ہمارے سماج کی مردپرستانہ ذہنیت انٹرنیٹ پر بھی جھلکتی ہے،خواتین بحث کریں یا جواب دیں، یہ مردوں کو پسند نہیں۔ معروف ہستیوں کو غیر شائستہ زبان سے نشانہ بنایا جاتاہے اور عام عورتوں کا پیچھا کرکے ان سے اصل زندگی میں رابطہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘ایسی صورت میں سوشل میڈیا کا استعمال سنبھل کر کرنے ہی میں سمجھ داری ہے۔
آج سوشل میڈیا روایتی میڈیا نہ ہوکر ایک متبادل بن چکاہے،بلکہ ’شہری صحافی‘ کا کردار نبھا رہاہے۔ لہٰذاسوشل میڈیا پر ایسی باتوں کا،جو عورت کے خلاف ہیں، اسی انداز میں جواب بھی دیاجارہاہے۔کبھی کبھی تو سوشل میڈیا پر خواتین کی جانب سے لکھی گئی پوسٹ اس کھڑکی کی طرح نظرآتی ہے جہاں ہم پورے سماج کاعکس دیکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں خواتین کی آواز اور تخلیقات سوالات کی بوچھارکرتی،ظلم کے خلاف للکارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔وہ ہرقاری کے ذہن ودل میں سوال پیداکرتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
خواتین کے لیے الّم غلّم لکھنے اور انھیں روایتی اور دقیانوسی بندشوں میں قید کرنے کے حامی خیالات پر خواتین اپنا فکری انتقام بھی درج کرارہی ہیں۔ اب وہ بولنے سے اورآواز اٹھانے سے قطعی نہیں جھجکتیں۔ اپنے ذاتی پروفائل کے ساتھ تمام گروپ و پیجز پر بھی خواتین اپنی مضبوط موجودگی درج کرارہی ہیں۔اکثروبیشتر ان اسٹیٹس میں وہ اپنی باتوں کوایسے پیش کرتی ہیں کہ قارئین بھی حیران ہوجاتے ہیں۔اپنے قلم کے ذریعے وہ جہاں تمام ایشوز پر اظہار خیال کر رہی ہیں،وہیں 21ویں صدی میں تیزی سے بڑھتے عورت کے قدموں کو بھی نمایاں کر رہی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں خواتین کی داستانِ الم سے لے کر حصولیابیوں اور سرگزشتوں تک ایک طویل فہرست ہے،جو سماج میں خواتین کو ظلم واستحصال کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ترغیب دیتی ہے۔سوشل میڈیا کی دنیا پوری طرح آزاد،خودمختاراور آزادانہ اظہارخیال سے بھری ہے۔نہ دقیانوسی بندشیں،نہ وقت کی قید اور نہ دوری کا جھنجٹ،بس ایک کلک کی ضرورت ہے۔ یہاں تصور،فکری گہرائی اور باہمی حساسیت کے ساتھ رچ بس کر جو بصیرت پیداکی جاتی ہے،وہ کئی مرتبہ زندگی کو لافانی بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا کے ذریعے آزادیٔ نسواں اور ویمن امپاورمنٹ کو بھی نئی جہتیں ملی ہیں۔
فیس بک کے فرینڈز آئیکن میں آگے مرد کی تصویر ہوتی تھی اور پیچھے خاتون کی۔ اس کی وجہ سے مرد کے مقابلے عورت کا آئیکن تھوڑا چھوٹا بھی تھا۔ فیس بک نے 2015 میں اس میں تبدیلی کرکے عورت کو آگے اور مرد کو پیچھے کردیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، مرد اور عورت کے بالوں اور جسمانی ہیئت کو بھی کندھے سے کندھا ملاکر برابر رکھا گیاہے۔
ویڈیو :
آڈیو:
audio link
مسائل کیا کیا ہے، اگر بتایا ہوتا تو بہتر تھا