بین المذاہب شادیاں

شادی کسی بھی انسانی معاشرے کی بقاء اور ارتقاء کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے سے خاندان تشکیل پاتے ہیں، سوسائٹی تعمیر ہوتی ہے اور معاشرے وجود پاتے ہیں۔نکاح دراصل وہ معاہدہ ہے جو ایک مرد اور عورت کے درمیان شرعی و قانونی طور پہ طے پاتا ہے، جس کی وجہ سے مسلمان مردو عورت دونوں ایک دوسرے سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔
اگر مرد یا عورت کوئی ایک مسلمان نہ ہو تو شرعاً وہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، لیکن اگر عورت اہل کتاب میں سے ہو تو مرد کو یہ گنجائش دی گئی ہے کہ وہ اس سے نکاح کرسکے۔ لیکن بہرحال یہ عمل کو زیادہ موزوں اور احسن قرار دیا گیا کہ دونوں کا تعلق دین اسلام کے ماننے والوں میں سے ہو۔
بین مذہبی شادی سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کا مذہب ایک دوسرے سے الگ ہو۔ جیسے مسلم اورغیرمسلم کے درمیان نکاح، ہندو یا عیسائی کے درمیان نکاح۔ اس کو مخلوط شادی بھی کہاجاتاہے۔ نیز ان شادیوں کو سوِل معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔
ایسی شادیوں کو اسلام نے باطل قراردیاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’اورمشرک عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں، ان سے نکاح نہ کرو اور ایک مسلمان باندی بھی (آزاد) مشرک خاتون سے بہتر ہے، گو وہ تم کو پسند ہو اور (مسلمان عورتوں کا ) مشرک مردوں سے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں، نکاح نہ کرو گو وہ تم کو پسند ہوں ۔ کیوں کہ یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی توفیق دے کر

جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اﷲ لوگوں کے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘(البقرۃ:221)
اس بات پر پوری اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے۔ البتہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے ، جس کا ذکر قرآن مجید( المائدۃ:5 ) میںہے۔ یہ حکم اسلام کی تنگ نظری کی علامت نہیں، بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے۔ اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے۔ یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں۔ ( خروج : ۳۴؍۳۱) عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں۔
( کرنتھیوں : ۶؍۱۴-۱۵) اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں، چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے۔ (آسان تفسیر، از مولاناخالد سیف اللہ رحمانی)
جس ملک میں ہم رہتے ہیں، اس کثیر الجہت سوسائٹی میں پرسنل لا لاگو ہے، یعنی عائلی و خاندانی مسائل میں اس فرقہ کامذہبی یاروایتی قانون ہی ملک کاقانون ہے، چنانچہ اس کے لیے شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937ءمسلمانوں پر نافذالعمل ہے۔
ہندومیرج ایکٹ 1955ء ہندوؤں پر لاگو ہے۔اسی طرح کا ایکٹ بودھسٹ،جین اورسکھوں کے لیے بھی ہے۔دَآنند میریج ایکٹ 1909ء بھی سکھوں پر لاگو ہے۔ دَانڈین کرسچن میریج ایکٹ1872ء عیسائیوں کے لیے ہے۔اسی طرح پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ1936ء بھی ہے۔ ان لوگوں کانکاح ان ہی کے بنائے گئے ایکٹ کے تحت ہوتاہے،اور ان کے مذہبی اورروایتی طوروطریقے کے مطابق ان کے پاس شادیاں انجام پاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اسپیشل میریج ایکٹ 1954ء بھی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیا گیاہے۔ اس میں ہر ہندوستانی کو کسی بھی ہندوستانی سے اس کے مذہب اوراس کے عقیدے کا لحاظ کیے بغیرشادی کرنے کاحق ہے۔ اس اسپیشل میریج ایکٹ کے مطابق کیے گئے نکاح پر پرسنل لاز(Personal laws)لاگو نہیں ہوتے ہیں۔اس ایکٹ کا مقصد پرسنل لا(Personal law)کو کم زور کرناہے۔اس ایکٹ کے مطابق مذہب اورعقیدہ کے برخلاف کوئی بھی شخص کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے نکاح کرسکتاہے، خواہ وہ مسلم ہو، یا ہندو ، بدھسٹ ہو، یا جین ، سکھ ہو،یا عیسائی اور پارسی ہو۔
اس ایکٹ کے تحت بین المذاہب نکاح(Interfaith marriages)منعقد کیے جاتے ہیں۔یہ ایکٹ پورے انڈیا میں implemented ہےاوران لوگوں پر بھی لاگوہیں جو ہندوستانی ہیں،لیکن بیرون ممالک (Foreign countries) میں رہتے ہیں۔

(Interfaith Marriages and NegotiatedSpaces. By: Shweta Verma)

(ہندوستان میں ایسی شادیوں کا تناسب عروج پر ہے، کیوں کہ مذکورہ ایکٹ کے تحت ایسے شادی شدہ جوڑوں کو تحفظ(Protection)فراہم کیا جاتا ہے، جو دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ایک قومی سروے جو 2013میں کیا گیا، اس کے مطابق1981ء سے 2005ء تک بین مذہبی نکاح کی شرح دوگناہوگئی ہے۔ چنانچہ 1981ء میں اس کا تناسب 1.6فیصدتھا اور2005ء 2.7فیصد بڑھ گیا۔
ہندوستان میں بین المذاہب شادیاں سب سے زیادہ عیسائیوں میں ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سکھ ہیں اور ہندو تیسرے نمبر پر ہیں۔ مسلمانوں کا تناسب صرف 0.6 فیصد ہے۔ اس میں بھی عمر کا بڑا عمل دخل ہے۔ 14سے 19 سال تک کے عمر کے نوجوانوں میں انٹرفیتھ شادیوں کا تناسب 2.8 فیصد ہے اور 25-29 سال کے افراد میں 1.9 فیصد۔ قابل، ہونہار اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقے سے اپنے جال میں پھانسنے کی سازش یہ بھی ہے کہ وہ نوجوان اپنی قوم سے دور ہوجائے۔ اگر وہ دوسری کمیونٹی کو فائدہ نہ بھی پہنچائیں تو اپنی کمیونٹی کے لیے بھی بے فیض ہوکر رہ جائیں۔
مشہورانگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا کے مطابق میریج رجسٹریشن کے اداروں میں2013-2014ء میں 2624نکاح رجسٹر کیے گئے۔صرف شہر بنگلورو میں 2015-2016ء میں یہ عدد بڑھ کر10655ہوگئی۔ 2015ء سے جنوری 2016ء تک 8391نکاح رجسٹرڈ ہوچکے تھے، جو2013-2014ء کے مقابلہ میں 306فیصد بڑھاہواہے۔ (Times of India: 20 June 2016)

جغرافیائی لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے:

مرکزی انڈیا: 1.2
شمالی انڈیا: 2.2
مشرقی انڈیا: 1.3
شمال مشرقی انڈیا: 3.2
مغربی انڈیا: 3.4
جنوبی انڈیا: 3.2

صوبوں کے لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے:

بین مذہبی شادی کی سب سے زیادہ فیصد رکھنے والا صوبہ اروناچل پردیش ہے، جس میں 9.2 فیصد بین مذہبی شادیاں انجام پاتی ہیں۔ اس کے بعد سکم: 8.1 فیصد، منی پور: 7.6، پنجاب: 7.3، میگھالیہ: 6.7، جھارکھنڈ: 5.6، آندھراپردیش: 4.7، مہاراشٹرا: 3.7 ، کرناٹکا: 2.8، تریپورہ: 2.7، دہلی: 2.2 بالترتیب ہیں۔سب سے کم شرح رکھنے والا صوبہ مغربی بنگال ہے، یعنی صرف 0.3 فیصد ہے۔ دوسرےصوبے ان دونوں کے بیچ میں ہیں۔

(Dynamics of inter-religious and inter-caste marriages in India by: Kumudin Das, K. C. Das, T. K. Roy and P. K. Tripath)

یقینی طور پہ یہ امر بھی قابل غور ہوگا کہ بین مذہبی شادی کے نتیجے میں ہونے والی اولاد نفسیاتی طور پر منتشر خیالات کی حامل ہوتی ہے۔ باپ اپنے مذہب پر چلانا چاہتا ہے اور ماں اپنے طریقے سے پرورش کرنا چاہتی ہے۔ بہت کم ایسی لڑکیاں یا خواتین ہوں گی جنہوں نے کسی مسلم نوجوان سے شادی کرکے خود اپنے آپ کو مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کا پابند بنا لیا ہو۔ جو خواتین یا لڑکیاں اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر ان کا مطالعہ کرکے مشرف بہ اسلام ہوتی ہیں، وہ یقینی طور پر پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ اسلامی شعائر کی پابند ہوتی ہیں، مگر جو کسی مسلم نوجوان کی محبت میں مذہب تبدیل کرلیتی ہیں، انہیں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔
بین المذاہب شادیاں اکثر میاں بیوی اور رشتہ داروں کےدرمیان بحث ومباحثہ اوراختلافات کا باعث بنتی ہیں۔انہیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں میاں بیوی کوان کے سسرال والے اپنے خاندان کا حصہ نہیں سمجھتے۔اس وجہ سے اس طرح کے جوڑے ہمیشہ معاشرتی زندگی میں بے انتہا مسائل کاسامناکرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایسے لوگ اپنے رشتے داروں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔ ان کے بچوں کو معاشرے میں بھی اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بلکہ وہ اپنے والدین سے کہیں زیادہ سخت چیلنجز کاسامناکرتے ہیں۔
ایسی شادیوں کی وجوہ پہ نگاہ ڈالی جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ غربت، جہالت، لالچ، ایمان کی کم زوری، دینی تعلیم کی کمی، آزادانہ اختلاط، سوشل میڈیا پہ غیر ضروری تعلقات اور اجنبی لوگوں سے بےتکلفی وغیرہ وہ اسباب ہیں، جو ایسی شادیوں کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے بھی ایسے کسی تعلق کو قائم کرلیتے ہیں۔ دار القضاء ممبئی کے مطابق مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب انھیں بتایا گیا کہ یہ غلط عمل ہے بلکہ ناجائز کام ہے تو انھوں نے اس سے رجوع کرلیا اور توبہ واستغفار کی اور اس قائم شدہ رشتے کو ختم کیا۔
دوسری بات یہ بھی ہمارےذہن نشین ہونی چاہیے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی نوجوانوں کو احتیاط برتنی چاہیے اور اس سلسلے میں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ نوجوانوں کی ’’فکر‘‘ کو پختہ کیا جائے اور ان کو اسلامی تعلیمات کا پابند بنایا جائے۔نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرنا سکھائیں، بلکہ کم از کم تمام اعلیٰ اورضروری مذہبی تعلیمات جیسے ایمانیات، اخلاقیات بھی سکھائیں۔ایک ابھرتے ہوئے نوجوان کو پڑوسی، دوست ، شریک حیات اور والدین کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی بتائیں۔ تاکہ وہ جان سکیں کہ اسے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں کیا کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی اہمیت پیدا کراناہے۔اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنا ہوگا، تبھی وہ اخلاق حسنہ سے مزین ہوں گے۔یہ وہ نکات ہیں، جو بین مذہبی شادیوں کی روک تھام کے لیے مفید ومددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس بات پر پوری اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے۔ البتہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے ، جس کا ذکر قرآن مجید( المائدۃ5: ) میںہے۔ یہ حکم اسلام کی تنگ نظری کی علامت نہیں، بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے۔

Comments From Facebook

4 Comments

  1. سہیل بشیر کار*

    مضمون اگرچہ بہترین ہے، اعداد و شمار ےمضمون کو اور بہتر بنایا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ چونکہ مسلم معاشرہ میں یہ بیماری نہ کے برابر ہے لہذا اس کی تشہیر سے فائدہ سے زیادہ نقصان ہوگا، اسلام کا مزاج ہیں کہ وہ برائی کی تشہیر کے بجائے عملی اقدامات کرتا ہے اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ گناہ کی تئیں حساسیت ختم نہیں ہوتی ،سعادت صاحب لکھتے ہیں “عام طور پر مصلحین یہ غلطی کرتے ہیں کہ کسی غلط عمل کی اصلاح کے لیے اس برائی کے پھیلاو اور اس کی قبولیت عام کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں ۔ مثلاً چند سالوں سے اس مسئلے کی بہت دھوم ہے کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیاں کررہی ہیں ۔ مقررین اور وہاٹس اپ مصلحین، اس رجحان کو مبالغے کے ساتھ اعداد و شمار کے حوالوں سے بہ تکرار بیان کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس عمل کی شناعت اور اس کے ابنارمل ہونے کا احساس ختم ہونے لگتا ہے”

    Reply
  2. اشہد شیرازی

    عمدہ مضمون ہے…سہیل صاحب کے تبصرے سے متفق ہوں

    Reply
    • Anwar Saleem

      معلومات افزا مضمون

      Reply
  3. سالم برجیس

    یہ تحریر ذرا تبدیلیوں کے ساتھ من وعن دار العلوم دیوبند کی ایک سائیٹ پر موجود ہے۔ جس کی اشاعت جنوری 2021 میں ہوئی ہے، جب کہ اس کی اشاعت تقریبا ایک ڈیڑھ سال بعد ہوئی ہے۔ اب یہ فیصلہ مشکل ہے کہ دونوں میں اصل مضمون کون سا ہے۔ براہ کرم مضامین لکھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں اور کہاں کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ہادیہ ٹیم سے میری گزارش ہے کہ کم از کم مضامین شائع کرنے سے قبل اس کو جانچ لیا کریں کہ آیا یہ مضمون کہیں سے کاپی تو نہیں۔ لنک ملاحظہ ہو: https://darululoom-deoband.com/urduarticles/archives/3471

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ٢٠٢٢