خواتین میں اسلامی تحریک

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ یہ کتاب ہر ایک لڑکی کی دل کی آواز ہے۔ ہر اس لڑکی کی جو اسلامی شعور رکھتی ہے اور اعلی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ یہ سوال ہمیشہ رہتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کس حد تک ہمیں آگے بڑھنا چاہیے؟ موجودہ حالات میں ہمارا رول کیا ہو؟ ہمارا دائرہ کار کیا ہو؟جو عالمی سطح پر خواتین کے مختلف کردار دیکھ کر سوچتی ہیں کہ ہمیں بھی فعال رول ادا کرنا چاہیے، تصدیق کون کرے کہ یہ کریں یا نہ کریں؟ ایک جھجک ہے جو ہماری طالبات میں نظر آتی ہے۔
یا یہ سوال ہے کہ کیا میں ماحول کی خرابی کے باعث صرف علم دین پر اکتفا ہی نہ کرلوں؟ بہت سی بہنیں جو حق وانصاف کا پورا شعور رکھتی ہیں اور متحرک رول سماج میں ادا کرنا چاہتی ہیں، لیکن متذبذب ہیں، انہی کے لیے یہ کتاب ہے۔ اسے پڑھ کر ایک نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔ مصنف محترم سید سعادت اللہ حسینی اس کتاب میں صنف نازک کے مکمل رول پر ہر پہلو سے رہنمائی کرتے نظر آئیں گے۔
یہ ایک مسلم خاتون کے فعال کردار کا خاکہ پیش کرتی ہے اور ایک خاتون کو معاشرہ سماج اور زندگی کے مختلف میدانوں میں حرکت وعمل کی راہ سجھاتی ہے۔جن موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ،وہ اپنے آپ میں مکمل ہے۔ قاری کو ایک عنوان پر نہ صرف معلومات فراہم کی گئی ہے بلکہ اس مضمون کو اس کے تصور کو سمجھاتے ہوئے اس میں نئی راہیں بھی سجھائی گئی ہیں۔ صرف حالات کا ماتم نہیں، تذکرہ برائے تذکرہ بھی نہیں ، صرف غربت زدہ خواتین کا تذکرہ نہیں،بلکہ اعلیٰ طبقے کی خواتین کے مسائل بھی ہیں اور حل بھی۔ کل ۱۷ موضوعات پر مضامین ہیں۔کتاب کا انتساب والدہ محترمہ کے نام ہے۔ ساتھ ہی علامہ کا شعر درج ہے، جو بہت پسند آیا ؎

مرا داد ایں خرد پرور جنونے
نگاہ مادر پاک اندرونے

(مجھے یہ خرد پرور[عقل کی پرورش] کرنے والا جنون دیا ایک پاک باطن والی ماں کی نگاہ نے۔)
موجودہ معاشرے میں ٹوٹتے بکھرتے خاندانوں کی صورتِ حال کسی آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی خاندان کو بہتر بنانے کی تگ ودو میں انسان بے خبر ہوتا ہے کہ مرعوبیت کی وجہ سے اس کی بہتر بنانے کی کوشش اس کے خاندان کو کم زور کرنے کا سبب بن رہی ہوتی ہے۔ مصنف نے مختلف خاندانوں کا تعارف کرواتے ہوئے لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدر میں، سماجی اور تاریخی روایات کی ناپائیدار بنیادوں پر کھڑی نہیں ہوئی ہیں۔ یہ بنیاد میں کتنی ہی مضبوط ہوں، جدید تہذیب اور استعمار کے طاقتور ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس معاشرہ کی قدیم روایتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکام ہیں، جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ پختہ ایمان ہی اس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کر سکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے روایتی ڈھانچوں کو ملیامٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اب خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ اسلام ہی ہے۔‘‘

جو طالبات نئے علمی میدان میں تحقیقی کام کرنا چاہتی ہیں تو سوال ہے کہ کون سا موضوع بہتر رہے گا؟ اس کتاب میں ان سوالوں کا جواب بھی ہیں۔ مثلا ایک مضمون ’’ھندستان میں خواتین کے ایشوز‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ہماری کچھ طالبات کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات کے لیے یہ موضوعات منتخب کرنے چاہئیں۔ کال سینٹرز اور سافٹ ویئر کمپنیوں میں خواتین ملازمین کی صورتِ حال ، اعلی سطح کے دفاتر میں خواتین کا جنسی استحصال ، ٹی وی سیر یلوں کے مشتملات اور ان کے نفسیاتی اثرات، اشتہارات میں عورت کا استحصال ، اخبارات میں فحش نگاری اور اس طرح کے دیگر موضوعات پر سائنٹفک تحقیقات کے ذریعہ اچھی رپورٹیں شائع ہوں تو اس سے بھی اس مسئلہ کو آگے بڑھانے میں بڑی مدد ملے گی۔
علمی سطح پر کام کرنے کے علاوہ ہماری خواتین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ قانونی اور انتظامی سطح پر بھی ان مسائل کو اٹھائیں۔ اس وقت ہندوستان میں عدالتی فعالیت (Judicial Activisim ) کی صورتِ حال ایک لحاظ سے ہمارے لیے بہت مفید ہے۔ بہت سے امور میں عدالت سے واضح حکم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عدالتی سطح کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے نیم قانونی ادارے جیسے ہیومن رائٹس کمیشن اور نیشنل ویمن کمیشن میں بھی نفوذ کی کوشش کی جاسکتی ہے۔‘‘
یہ کتاب ان ماؤں کے لیے ہے جو تذبذب کا شکار ہیں اور اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلاتے ہوئے پریشان ہیں کہ ان کا سماجی رول کیا ہوگا ؟ متفکر رہتی ہیں کہ بیٹیوں کوکون سا کام کرنے کی اجازت دیں اور کس کام سے روکیں؟ میں اپنی بیٹی کے کیرئیر کی الجھن میں اسے سماج سے کاٹ تو نہیں رہی ہوں ؟ یا لڑکیوں کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنانے کی فکر میں جانے انجانے میں انہیں تباہ تو نہیں کررہی ہیں۔ ان مسائل کو ایڈریس کرتے ہوئے مصنف نے توجہ دلائی ہے:
’’جدید نظام سرمایہ داری کو اپنی خدمت کے لیے کم قیمت ملازمین کی ایک بڑی فوج در کار تھی۔ اس نے میڈیا کے ذریعہ کر ئیر وومین Career Woman کا تصور پیش کیا۔ خاندان اور خاندانی زندگی کی اہمیت گھٹائی۔ شادی کے ادارہ کو بھی بے معنی قرار دیا اور بغیر شادی کے ساتھ رہنے(Live in relationship) اور بغیر شادی کے جنسی زندگی Casual sex جیسے رواجوں کو فروغ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ خواتین ، خاندان اور بچوں کے جھمیلے میں پڑے بغیر اس کی خدمت کے لیے ہر دم دستیاب رہیں۔

آئی ٹی کمپنیوں ، کال سنٹرز اور بی پی او انڈسٹری وغیرہ میں یہ طے شدہ پالیسی موجود ہے کہ نچلی سطحوں کی ملازمت کے لیے خواتین کو ترجیح دی جائے۔ ایچ آرمینیجرز اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ خواتین مردوں کے مقابلہ میں زیادہ جم کر اور بیٹھ کر کام کرسکتی ہیں۔ دیر تک کام کرتی ہیں۔ زیادہ اطاعت شعار ہوتی ہیں۔ کم تنخواہوں پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور چھٹیاں کم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ٹی ای ایس ITES کمپنیوں میں جو نیئر سطحوں پر خواتین ملازمین جملہ ملازمین کے نصف سے زائد ہیں۔ جب کہ کال سنٹروں میں ان کی تعداد 35 فیصد سے زائد ہے۔ خواتین کے دور کی کمپنیاں خواتین کی کسی ضرورت کا خیال نہیں رکھتیں۔ ‘‘
سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین استحصال کی نت نئی ترکیبوں کا ذکر کرتے ہیں۔ عورتوں کو مارکیٹنگ کا ذریعہ اور نسوانی جسم کو ایک شئے بنادینا جدید دنیا میں عام بات ہے، فیشن اور کاسمیٹک کے نام پر خواتین کے استحصال کی ایک نئی داستان ہے۔ صارفیت اور معاشی دباؤ بڑھا کر عام انسان کی زندگی کو مشکل ترین جدوجہد بنادیا گیا ہے۔ اس ماحول کا شکار آج مسلم عورت بھی ہے جب کہ:
’’ اسلام کا یہ موقف عورت کے لیے ملازمت یا معاشی سرگرمی کو صرف اس کی دیناہی یا اضافی خدمت تک محدود کرتا ہے۔ عام حالات میں عورت کوئی معاشی مصروفیت اختیارنہیں کرے گی۔ اگر کرے گی تو یا تو اپنے آپ کو مصروف رکھنے اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے، یا اپنے علم و فن کو استعمال کرنے کے لیے، یا کسی بڑی تمدنی و سماجی ضرورت کی تکمیل کے لیے۔ لیکن چوں کہ یہ کام اس کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے، اس لیے اس کام کے لیے نہ اسے تناؤ برداشت کرنے کی کوئی ضرورت ہے، نہ کسی پریشانی کو جھیلنے کی۔ اگر اس کے حالات اور کام کرنے کی جگہ کے حالات سازگار ہیں ، یا مصروفیت اس کے لیے ایک خوشگوار مشغلہ ہے اور اس مصروفیت کے ساتھ اس کی خاندانی ذمہ داریوں اور دینی و شرع تقاضوں کی تکمیل بہ آسانی ممکن ہے تو وہ خود اپنے فیصلے سے اور شوہر کی اجازت سے ایسی مصروفیت اختیار کر سکتی ہے۔ ‘‘
نیرو کاسٹنگ کیا ہے؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں کہ:
’’سوشل میڈیا الگ الگ خیالی کائناتیں Virtual Universes درج بالا مقاصد لینی نیرو کاسٹنگ کے لیے ناظرین کو الگ الگ طبقات میں تقسیم کیا جا تا ہے۔ سوشل میڈ یا سائٹس، ای میل وغیرہ کے ذریعہ ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات اور ان کی دلچسپیوں اور مشاغل کو معلوم کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو الگ الگ زمروں میں تقسیم کر کے ہر ایک کے لیے الگ حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ڈاٹا مائننگ اور ڈاٹا بروکرکمپنی ایکسیوم( Acxiom )ہے۔کہا جا تا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی دس فیصد آبادی کی مکمل معلومات ( ان کا نام، خاندان، بیوی ، بچے ، تعلیم ، مشاغل، وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ کتنا کماتے ہیں؟ کتا خرچ کرتے ہیں؟ دلچسپیاں کیا ہیں؟ کس سے رومانس ہے؟ کب کیا پڑھا ہے؟ کب کب کہاں کہاں کا سفر کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ) موجود ہیں۔
مثلاً کسی نوجوان لڑکی کے ای میل اور سوشل میڈیا سے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ روایت پسند ہے، لیکن اب تھوڑا سا جدیدیت کی طرف مائل ہورہی ہے تو خود بخو دسافٹ ویئر اس کی ذہنی تربیت شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے کمپیوٹر پر ایسے پیغامات آنے لگتے ہیں، جن میں روایتی عورتوں کو جدیدیت کی طرف مائل دکھایا جاتا ہے۔ اس کے جذبات اور وجدان کو بہت چالاکی سے جدید طرز زندگی کے لیے بتدریج تیار کرایا جا تا ہے، یہاں تک کہ وہ مغربی ملبوسات وغیرہ خریدنے پر آمادہ ہو جائے۔ جیسے ہی فلپ کارٹ سے ایک چست جینز آرڈر کرتی ہے، اس کا ڈاٹا میں اپڈیٹ ہو جا تا ہے۔ اب اسے نیرو کاسٹنگ کے تحت اگلے زمرے میں شامل کردیا جاتا ہے اور اگلے مرحلے کی ’تربیت ‘ کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ‘‘
میڈیا کے اس سحر سے نکلنے کی تدابیر بہترین انداز میں سمجھائی گئی ہیں۔ خصوصا ماؤں کے لیے جو اپنے بچوں کو موبائل پکڑا کرمطمئن ہوجاتی ہیں۔ ان کے لیے وہ تدابیر بیان کی گئی ہیں، جس کے ذریعہ وہ اس میڈیائی طوفان کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔
ہر مسلمان خاتون کو اس کتاب کو لازماً پڑھنا چاہیے، کیوں کہ اردو داں طبقے کے جدید مسائل اور اس کے حل پر اس سے بہترین کتاب موجود نہیں ہے۔

یہ کتاب ان ماؤں کے لیے ہے جو تذبذب کا شکار ہیں اور اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلاتے ہوئے پریشان ہیں کہ ان کا سماجی رول کیا ہوگا ؟ متفکر رہتی ہیں کہ بیٹیوں کوکون سا کام کرنے کی اجازت دیں اور کس کام سے روکیں؟ میں اپنی بیٹی کے کیرئیر کی الجھن میں اسے سماج سے کاٹ تو نہیں رہی ہوں ؟ یا لڑکیوں کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنانے کی فکر میں جانے انجانے میں انہیں تباہ تو نہیں کررہی ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

4 Comments

  1. انس بدام، گودھرا، گجرات

    ماشاء اللہ! بہت اچھا تبصرہ ہے۔ جب میں نے یہ کتاب پہلی مرتبہ پڑھی تھی تو مجھے یہی خیال آیا تھا کہ نسوانیت کی تحریکوں کے جھوٹے علمبردار جن حقوق کی بات کرتے ہیں، وہ اگر اسلام کے دیے حقوق کو مصنف کےپیش کردہ اپروچ کے ساتھ اگر پڑھ لیں تو وہ مصنف کو شاید سب بڑا فیمسٹ(اپنی اصطلاح میں) یا خواتین کے حقوق کا سب بڑا حامی و علمبردار قرار دیں گے۔ واقعی زبردست کتاب ہے۔
    اس وقت صاحب کتاب کی ایک اور تازہ کتاب ‘اصلاح معاشرہ، منصوبہ بند عصری طریقے’ زیر مطالعہ ہے۔
    واقعی مصنف موضوع کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا کریں۔

    Reply
  2. سہیل بشیر کار*

    اگر سعادت بھائی اس کتاب پر نظرثانی کرتے تو اہم موضوع پر بہت سے مسائل کا حل ملتا، اگرچہ کتاب اچھی ہے لیکن تشنگی باقی رہتی ہے

    Reply
  3. مہوش

    “خواتین میں اسلامی تحریک “یہ کتاب pdf کی شکل میں مل سکتی ہے کیا؟

    Reply
    • Khan mubashsharah firdous

      نہیں پی ڈی نہیں ہے آپ اسے ھدایت پبلیکشن پر آڈر کرسکتی ہیں

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ٢٠٢٢