بچوں کے لیے آپ کی زندگی اصولی ہو
انسان کے بچے کی تربیت بہت مشکل ترین کام بھی ہے اور اگر خود والدین اپنے بچوں کے رول ماڈل بن کر انہیں سکھانا چاہیں تو یہ آسان کام بھی ہے ۔ اس سیریز کی پہلی قسط میں ہم نے والدین کے آپسی تعلقات پر بات کی ہے کہ والدین کے تعلقات جس قدر مضبوط ہوں گے، اتنا ہی بہتر طریقے سے وہ اپنے بچوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کر پائیں گے ۔اس مضمون میں والدین کو بچوں کے تئیں ذمہ دار بنانے اور زندگی کے کچھ اصول طے کرنے کے متعلق گفتگو کی جائے گی ۔
سب سے پہلے ہم ذہن سے یہ بات نکال دیں کہ بچوں کی ذمہ داری ہم پر صرف ان کے اسکول جانے تک ہی ہے ۔حضرت لقمانؑ کی نصیحت میں والدین کی لیے بڑی نشانی ہے:
سب سے پہلے ہم ذہن سے یہ بات نکال دیں کہ بچوں کی ذمہ داری ہم پر صرف ان کے اسکول جانے تک ہی ہے ۔حضرت لقمانؑ کی نصیحت میں والدین کی لیے بڑی نشانی ہے:
يٰبُنَىَّ اِنَّهَاۤ اِنۡ تَكُ مِثۡقَالَ حَبَّةٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَكُنۡ فِىۡ صَخۡرَةٍ اَوۡ فِى السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِى الۡاَرۡضِ يَاۡتِ بِهَا اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيۡفٌ خَبِيۡر۔ يٰبُنَىَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَانۡهَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَاصۡبِرۡ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ اِنَّ ذٰلِكَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِۚ ۔وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ۔وَاقۡصِدۡ فِىۡ مَشۡيِكَ وَاغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِكَ اِنَّ اَنۡكَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِيۡرِ (لقمان:16۔ 19)
’’(اور لقمان نے کہا تھا کہ )کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بین اور باخبرہے۔بیٹا! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔اور لوگوں سے منھ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذراپست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ ‘‘
ان آیات کو سامنے رکھیں تو جہاں تنہائی میں خدا کی موجودگی کے احساس کا اشارہ ہے، وہیں سوشل اسکلز سیکھنے پر تاکید والدین پر واضح اشارہ ہے کہ بچوں میں انسانی روابط اور تعامل کی مہارت بے حد اہم ہے ۔
حضرت اسمعیلؑ کا اپنے والد کے ساتھ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں ساتھ ساتھ کام کرنا ہر والد کے لیے اشارہ ہے کہ بچوں کا تعلق والدین سے حیات تک ناصحانہ اور آئیڈیل رہتا ہے ۔اس لیے زندگی میں کچھ اصول ایسے بنانے چاہیے جو بچوں کے لیے ان کی وراثت بن جائے ۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ بچے والدین کو گھر کے ہر فرد کو حتی کے رشتہ داروں کو بھی موبائل پر مصروف پاتے ہیں۔ باہر جہاں ان کی نظر دیکھتی ہے، وہ ڈیوائس سے الجھے نظر آتے ہیں ۔جہاں والدین کے لیے ڈیوائس کا استعمال ناگزیر ہے، انہیں بھی زندگی کے کچھ اصول بناکر خود کو پابند کرنا ہی ہوگا، تاکہ ان کے بچے ان سے سیکھ سکیں ۔
بچے مشاہدہ کی وجہ سے موبائل کے استعمال کے عادی بن رہے ہیں۔ بہت مشکل ہے ایک بچے کے لیے اس سے رکنا۔ وہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر کھانا تو کھاسکتا ہے، چلنا انہیں کو دیکھ کر سیکھتا ہے، لیکن موبائل انہیں دیکھ کر نہ ہاتھ میں لے، یہ بات بچے کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے ۔اور بیش تر گھروں میں والدین بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے بے بی سیٹر، کیئر ٹیکر کے بطور بچوں کو موبائیل کے حوالے کردیتے ہیں ۔یا بعض نے فیشن اور کلچر کے بطور بچوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔جو چیز بچے کے مشاہدے میں ہوتی ہے، وہی چیز اس ذہن میں آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔ وہی چیز بچہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
چھوٹے بچوں میں مِرر نیوران ( Mirror neurons) زیادہ ہوتے ہیں، جن کی بدولت وہ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور انہی کی طرح حرکات کرتے ہیں۔ ایک خاتون بڑے شوق سے بتاتی ہے کہ اس کا بیٹا اپنے والد کی طرح فون پر ٹہلتے ہوئے باتیں کرتا ہے، یا کھاتا کھاتے ہوئے بڑوں کی حرکات و سکنات کو نقل کرتا ہے۔ ان کے سامنے رونے کی اداکاری کرو تو وہ منہ بسورنے لگتے ہیں۔ مسکراؤ تو بہت خوش ہو کر کلکاریاں مارنے لگتے ہیں۔ بہترین سوشل اور ایموشنل سکِلز کے لیے ضروری ہے بچوں کے ساتھ روزانہ تین گھنٹے ان کے ساتھ تعامل کیا جائے۔ کیوں کہ دماغ کے ان خاص حصوں کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر کریں ،ورنہ وہ انسان کے ہجوم سے گھبرانے لگتے ہیں اور ان میں جذباتیت احساس، رحم ہمدردی، دوسروں کی بات توجہ سے سننے اور بہت سنجیدہ رسپانس دینے کی عادت ختم ہونے لگتی ہے ۔اسکرین کے نقصانات کا عالم یہ ہے کہ ’’امریکہ کے ادارہ برائے صحت اور انسانی خدمات نے بہتر صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے دس سالہ قومی ہدف میں اسکرین ٹائم کی کمی کو ترجیح میں شامل کیا ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی کم و بیش اسی قسم کی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ دو سال سے چھوٹے بچے کو قطعاً اسکرین نہ دکھائی جائے۔ بیک گراؤنڈ میں چلنے والا ٹی وی بھی ان کے دماغ پر منفی اثر ڈالتا ہے اور بچوں کے کمرے میں ٹی وی بالکل نہ رکھا جائے۔ ان ہدایات کی وجہ ۲۰۱۲ میں چھپی وہ ریسرچ بھی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسکرین کے سامنے ہر اضافی گھنٹہ دل کی بیماری کا خطرہ ۸ فیصد بڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائپ ٹو ذیابیطس، کولیسٹرول، بلڈ پریشر میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ۲۰۰۹ تک ۱۴۰۰۰ یونیورسٹی سٹوڈنٹس پر ہونے والی ۷۲ تحقیقات کا جب بغور مطالعہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ۲۰۰۰ سالوں میں اب تک کا سب سے کم ایمپتھی لیول ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ ہمدردی اور شفقت کے جذبات کم کرنے میں ایک بہت بڑا ہاتھ اسکرین سے جڑے رہنے ہی کا ہے۔ آج کا کالج سٹوڈنٹ اپنے سے بیس تیس سال پہلے کے کالج سٹوڈنٹ کی نسبت ۴۰ فیصد کم ایمپتھی رکھتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک ریسرچ اسٹڈی نے 2623بچوں کے سیمپل پر کام۔انھوں نے اسکرین کے سامنے وقت گزارنے والے ایک سے تین سال کے بچوں میں سات سال کے ہونے تک واضح طور پر مرکوزتوجہ(focus,concentration) کی کمی نوٹ کی گئی۔ اسکرین کے سامنے گزارا گیا ہر اضافی گھنٹہAttention deficit hyperactivity disorder اور اس جیسی بیماریوں میں نو فیصد اضافے کا باعث بنا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ آج کل کے بچے مستقل مزاجی سے زیادہ دیر کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ بار بار ارتکاز کھو دیتے ہیں۔
ڈوپامین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔ متوجہ ہونے اور مرتکز رہنے کے عمل میں ایک بنیادی جزو ہے۔ اسکرین پر جب جب کچھ نیا آ رہا ہوتا ہے، ڈوپامین پیدا ہوتا ہے۔ بچے جب کمپیوٹر پر گیمز کھیلتے ہیں تو ایک دم ہی ڈوپامین کی ایک کثیر مقدار ریلیز ہوتی ہے۔ ڈوپامین ہی دماغ کے ریوارڈ سسٹم کا بھی بنیادی جزو ہے اور کسی بھی قسم کے نشے سے ملنے والا سرور اسی کی بدولت ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح کوئی نشہ کرنے سے ڈوپامین ریلیز ہوتا ہے اور انسان ایک سرور کی کیفیت میں جاتا ہے، وہی ڈوپامین اسکرین کے استعمال سے بھی ریلیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز نے کچھ عرصہ پہلے اسکرین ’ایڈکشن‘ یعنی ’لت‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا، جو اب زبان زدِعام ہے۔
ایک برطانوی تحقیق سے پتہ چلا کہ روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنے والے بچوں میں نفسیاتی مسائل بڑھنے کا رجحان 6.5 فیصد تک ہے۔ جو بچے اپنا زیادہ وقت ٹی وی ، کمپیوٹر یا موبائل پر گزارتے ہیں، وہ سماجی میل جول میں متأثر کُن رول ادا نہیں کرپاتے۔ بچپن سے شروع ہوئی یہ عادت بڑے ہونے تک ساتھ چلتی ہے ۔بلکہ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کا ذہن جذب کرنے اور سیکھنے میں زیادہ لچک رکھتا ہے، بچپن اکتساب کے لیے سب موزوں ترین دور مانا گیا ہے۔ لیکن سیکھنے کا یہ دور عمر کےساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب یہ بچہ اسکرین میڈیا پر وقت گزارتا ہے، تو اس کاذہن تکنیکی مہارتیں سیکھنے کی طرف لگ جاتا ہے اور بنیادی سوشل سکِلز میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
انسان کو دوسرے انسانوں کی موجودگی کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ آئی کنٹیکٹ بہترین جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے لیے ضروری ہے۔ پھر یہ بھی کہ باقاعدہ میل جول انسان کے اندرسماجی اور جذباتی سکِلز پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، جس سے انسان میں دوسروں کی بات سمجھنے اور ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر دوسری بات جوڑنے جیسے ہم اپلیکشن یا اطلاق کی صلاحیت کہہ سکتے ہیں، پیدا ہوتی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر باضابطہ گفتگو سے انسان بات کرنے کے آداب سیکھتا ہے کہ کب اور کیسے سنا جائے اور کس طرح اپنا نقطۂ نظر پیش کیا جائے۔ اپنا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارنے والے لوگوں میں ان بنیادی، لیکن انتہائی اہم زندگی گزارنے کی مہارت میں کمی رہ جاتی ہے۔ آنکھیں جذبات کی عکاس ہوتی ہیں۔ جب بچے آئی کنٹیکٹ کرنے کے عادی ہی نہیں تو ان میں دوسرے کا احساس کرنے کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
چھوٹی عمر میں بچوں کو خصوصاً ماں کچھ اہم سرگرمیوں کے ذریعہ اسکرین سے بچنے میں مدد کرسکتی ہے ۔آج کل تربیت کے نام پر بچوں کو بالکل کچھ نہ کہنے کی پالیسی بعض والدین نے اپنائی ہے ۔بچوں پر سختی نہ برتنےکا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ انہیں ’’ شتر بے مہار‘‘ چھوڑ دیا جائے اور وہ والدین کے ساتھ ہر قسم کی بدتمیزی کو اپنی آزادی محسوس کرنے لگیں ۔
زندگی کے لیے اصول ضوابط کی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ کے حدود بھی نہ ہوتے۔ انسان کے ساتھ شیطان ہمہ وقت لگا ہوا ہے۔ اسی لیے اللہ نے انسان پر اپنے حدود واضح کر دیے ہیں۔ اسی کو انسان اصول پسندی کہتا ہے۔ بچوں میں اصول پسندی کی عادت ڈالنی چاہیے طریقۂ کار یہ ہو کہ آپ اپنے اصول کے پابند ہوں ۔
ان آیات کو سامنے رکھیں تو جہاں تنہائی میں خدا کی موجودگی کے احساس کا اشارہ ہے، وہیں سوشل اسکلز سیکھنے پر تاکید والدین پر واضح اشارہ ہے کہ بچوں میں انسانی روابط اور تعامل کی مہارت بے حد اہم ہے ۔
حضرت اسمعیلؑ کا اپنے والد کے ساتھ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں ساتھ ساتھ کام کرنا ہر والد کے لیے اشارہ ہے کہ بچوں کا تعلق والدین سے حیات تک ناصحانہ اور آئیڈیل رہتا ہے ۔اس لیے زندگی میں کچھ اصول ایسے بنانے چاہیے جو بچوں کے لیے ان کی وراثت بن جائے ۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ بچے والدین کو گھر کے ہر فرد کو حتی کے رشتہ داروں کو بھی موبائل پر مصروف پاتے ہیں۔ باہر جہاں ان کی نظر دیکھتی ہے، وہ ڈیوائس سے الجھے نظر آتے ہیں ۔جہاں والدین کے لیے ڈیوائس کا استعمال ناگزیر ہے، انہیں بھی زندگی کے کچھ اصول بناکر خود کو پابند کرنا ہی ہوگا، تاکہ ان کے بچے ان سے سیکھ سکیں ۔
بچے مشاہدہ کی وجہ سے موبائل کے استعمال کے عادی بن رہے ہیں۔ بہت مشکل ہے ایک بچے کے لیے اس سے رکنا۔ وہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر کھانا تو کھاسکتا ہے، چلنا انہیں کو دیکھ کر سیکھتا ہے، لیکن موبائل انہیں دیکھ کر نہ ہاتھ میں لے، یہ بات بچے کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے ۔اور بیش تر گھروں میں والدین بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے بے بی سیٹر، کیئر ٹیکر کے بطور بچوں کو موبائیل کے حوالے کردیتے ہیں ۔یا بعض نے فیشن اور کلچر کے بطور بچوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔جو چیز بچے کے مشاہدے میں ہوتی ہے، وہی چیز اس ذہن میں آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔ وہی چیز بچہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
چھوٹے بچوں میں مِرر نیوران ( Mirror neurons) زیادہ ہوتے ہیں، جن کی بدولت وہ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور انہی کی طرح حرکات کرتے ہیں۔ ایک خاتون بڑے شوق سے بتاتی ہے کہ اس کا بیٹا اپنے والد کی طرح فون پر ٹہلتے ہوئے باتیں کرتا ہے، یا کھاتا کھاتے ہوئے بڑوں کی حرکات و سکنات کو نقل کرتا ہے۔ ان کے سامنے رونے کی اداکاری کرو تو وہ منہ بسورنے لگتے ہیں۔ مسکراؤ تو بہت خوش ہو کر کلکاریاں مارنے لگتے ہیں۔ بہترین سوشل اور ایموشنل سکِلز کے لیے ضروری ہے بچوں کے ساتھ روزانہ تین گھنٹے ان کے ساتھ تعامل کیا جائے۔ کیوں کہ دماغ کے ان خاص حصوں کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر کریں ،ورنہ وہ انسان کے ہجوم سے گھبرانے لگتے ہیں اور ان میں جذباتیت احساس، رحم ہمدردی، دوسروں کی بات توجہ سے سننے اور بہت سنجیدہ رسپانس دینے کی عادت ختم ہونے لگتی ہے ۔اسکرین کے نقصانات کا عالم یہ ہے کہ ’’امریکہ کے ادارہ برائے صحت اور انسانی خدمات نے بہتر صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے دس سالہ قومی ہدف میں اسکرین ٹائم کی کمی کو ترجیح میں شامل کیا ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی کم و بیش اسی قسم کی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ دو سال سے چھوٹے بچے کو قطعاً اسکرین نہ دکھائی جائے۔ بیک گراؤنڈ میں چلنے والا ٹی وی بھی ان کے دماغ پر منفی اثر ڈالتا ہے اور بچوں کے کمرے میں ٹی وی بالکل نہ رکھا جائے۔ ان ہدایات کی وجہ ۲۰۱۲ میں چھپی وہ ریسرچ بھی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسکرین کے سامنے ہر اضافی گھنٹہ دل کی بیماری کا خطرہ ۸ فیصد بڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائپ ٹو ذیابیطس، کولیسٹرول، بلڈ پریشر میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ۲۰۰۹ تک ۱۴۰۰۰ یونیورسٹی سٹوڈنٹس پر ہونے والی ۷۲ تحقیقات کا جب بغور مطالعہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ۲۰۰۰ سالوں میں اب تک کا سب سے کم ایمپتھی لیول ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ ہمدردی اور شفقت کے جذبات کم کرنے میں ایک بہت بڑا ہاتھ اسکرین سے جڑے رہنے ہی کا ہے۔ آج کا کالج سٹوڈنٹ اپنے سے بیس تیس سال پہلے کے کالج سٹوڈنٹ کی نسبت ۴۰ فیصد کم ایمپتھی رکھتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک ریسرچ اسٹڈی نے 2623بچوں کے سیمپل پر کام۔انھوں نے اسکرین کے سامنے وقت گزارنے والے ایک سے تین سال کے بچوں میں سات سال کے ہونے تک واضح طور پر مرکوزتوجہ(focus,concentration) کی کمی نوٹ کی گئی۔ اسکرین کے سامنے گزارا گیا ہر اضافی گھنٹہAttention deficit hyperactivity disorder اور اس جیسی بیماریوں میں نو فیصد اضافے کا باعث بنا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ آج کل کے بچے مستقل مزاجی سے زیادہ دیر کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ بار بار ارتکاز کھو دیتے ہیں۔
ڈوپامین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے۔ متوجہ ہونے اور مرتکز رہنے کے عمل میں ایک بنیادی جزو ہے۔ اسکرین پر جب جب کچھ نیا آ رہا ہوتا ہے، ڈوپامین پیدا ہوتا ہے۔ بچے جب کمپیوٹر پر گیمز کھیلتے ہیں تو ایک دم ہی ڈوپامین کی ایک کثیر مقدار ریلیز ہوتی ہے۔ ڈوپامین ہی دماغ کے ریوارڈ سسٹم کا بھی بنیادی جزو ہے اور کسی بھی قسم کے نشے سے ملنے والا سرور اسی کی بدولت ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح کوئی نشہ کرنے سے ڈوپامین ریلیز ہوتا ہے اور انسان ایک سرور کی کیفیت میں جاتا ہے، وہی ڈوپامین اسکرین کے استعمال سے بھی ریلیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز نے کچھ عرصہ پہلے اسکرین ’ایڈکشن‘ یعنی ’لت‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا، جو اب زبان زدِعام ہے۔
ایک برطانوی تحقیق سے پتہ چلا کہ روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنے والے بچوں میں نفسیاتی مسائل بڑھنے کا رجحان 6.5 فیصد تک ہے۔ جو بچے اپنا زیادہ وقت ٹی وی ، کمپیوٹر یا موبائل پر گزارتے ہیں، وہ سماجی میل جول میں متأثر کُن رول ادا نہیں کرپاتے۔ بچپن سے شروع ہوئی یہ عادت بڑے ہونے تک ساتھ چلتی ہے ۔بلکہ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کا ذہن جذب کرنے اور سیکھنے میں زیادہ لچک رکھتا ہے، بچپن اکتساب کے لیے سب موزوں ترین دور مانا گیا ہے۔ لیکن سیکھنے کا یہ دور عمر کےساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب یہ بچہ اسکرین میڈیا پر وقت گزارتا ہے، تو اس کاذہن تکنیکی مہارتیں سیکھنے کی طرف لگ جاتا ہے اور بنیادی سوشل سکِلز میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
انسان کو دوسرے انسانوں کی موجودگی کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ آئی کنٹیکٹ بہترین جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے لیے ضروری ہے۔ پھر یہ بھی کہ باقاعدہ میل جول انسان کے اندرسماجی اور جذباتی سکِلز پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، جس سے انسان میں دوسروں کی بات سمجھنے اور ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر دوسری بات جوڑنے جیسے ہم اپلیکشن یا اطلاق کی صلاحیت کہہ سکتے ہیں، پیدا ہوتی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر باضابطہ گفتگو سے انسان بات کرنے کے آداب سیکھتا ہے کہ کب اور کیسے سنا جائے اور کس طرح اپنا نقطۂ نظر پیش کیا جائے۔ اپنا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارنے والے لوگوں میں ان بنیادی، لیکن انتہائی اہم زندگی گزارنے کی مہارت میں کمی رہ جاتی ہے۔ آنکھیں جذبات کی عکاس ہوتی ہیں۔ جب بچے آئی کنٹیکٹ کرنے کے عادی ہی نہیں تو ان میں دوسرے کا احساس کرنے کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
چھوٹی عمر میں بچوں کو خصوصاً ماں کچھ اہم سرگرمیوں کے ذریعہ اسکرین سے بچنے میں مدد کرسکتی ہے ۔آج کل تربیت کے نام پر بچوں کو بالکل کچھ نہ کہنے کی پالیسی بعض والدین نے اپنائی ہے ۔بچوں پر سختی نہ برتنےکا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ انہیں ’’ شتر بے مہار‘‘ چھوڑ دیا جائے اور وہ والدین کے ساتھ ہر قسم کی بدتمیزی کو اپنی آزادی محسوس کرنے لگیں ۔
زندگی کے لیے اصول ضوابط کی اہمیت نہ ہوتی تو اللہ کے حدود بھی نہ ہوتے۔ انسان کے ساتھ شیطان ہمہ وقت لگا ہوا ہے۔ اسی لیے اللہ نے انسان پر اپنے حدود واضح کر دیے ہیں۔ اسی کو انسان اصول پسندی کہتا ہے۔ بچوں میں اصول پسندی کی عادت ڈالنی چاہیے طریقۂ کار یہ ہو کہ آپ اپنے اصول کے پابند ہوں ۔
1۔ اپنے ہر عمل کے ذمہ دار آپ خود ہیں :
بچوں کے سامنے والدین کا رویہ یہ ہو کہ ہر چیز پر اپنی ذمہ قبول کریں۔کوئی کام غلط ہوجائے جیسا کھانا جل گیا، کانچ کا برتن ٹوٹ گیا، نل کھلا رکھنے پر پانی بہہ گیا، استری کرتے ہوئے کپڑا جل گیا، یا روٹی بناتے ہاتھ جل گیا، تو مائیں فورا یہ اظہار کرتی ہیں بچے شور کررہے تھے یا سامنے جو بچے ہو اس پر برس پڑتی ہیں۔ اضطراب کی وجہ سامنے موجود بچے کو بتاتی ہیں اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی ہیں ۔اس طرح بچے کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اپنی تمام تر نقصان کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرائیے ۔
آپ سے جب بھی کوئی نقصان ہوتو بلند آواز سے انا للہ واناالیہ راجعون پڑھیں اور بچوں کے سامنے کہیں:’’ اوہو! یہ میری غلطی ہے، توجہ بٹ گئی تھی ۔‘‘ یہ ایکسپٹینس (Acceptance) ذمہ داری کا قبول کرنا ہے۔ اس کے اثرات میں آپ کو بچے سے کبھی یہ سننے نہیں ملے گا کہ مارکس کم فلاں وجہ سے ملے ۔
آپ سے جب بھی کوئی نقصان ہوتو بلند آواز سے انا للہ واناالیہ راجعون پڑھیں اور بچوں کے سامنے کہیں:’’ اوہو! یہ میری غلطی ہے، توجہ بٹ گئی تھی ۔‘‘ یہ ایکسپٹینس (Acceptance) ذمہ داری کا قبول کرنا ہے۔ اس کے اثرات میں آپ کو بچے سے کبھی یہ سننے نہیں ملے گا کہ مارکس کم فلاں وجہ سے ملے ۔
2۔ صدقہ دینا کی عادت ڈالنا :
جب بچہ آپ کو بہت چھوٹی عمر میں صدقہ دیتے ہوئے دیکھے گا، تو یقین کریں دوررس اور دیرپا اس کے اثرات اس کی زندگی پر آپ محسوس کریں گے ۔ جب آپ کسی پریشانی میں ہوں اور صدقہ دیں۔ تب آپ نے صدقہ دیتے ہوئے بچے کو سکھایا کہ مصیبت میں سب سے پہلے ریویو کرنا چاہیے کہ بندوں کا جو حق مجھ پر بنتا ہے، کہیں اس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی؟
دینے والا ہاتھ بہتر ہے، یہ پیغام بچے نے محسوس کیا۔ سوشل اسکلز میں یہ جب آپ دوسرے کو اس کا حق ازخود دیتے ہیں تو رب العالمین سے طلب کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں ۔ دوسروں کو دو تاکہ تم لے سکو۔ زندگی کے ہر شعبے میں وہ طلب سے پہلے دینے کے قائل بنیں، نہ صرف پیسہ بلکہ سروس بھی، دعوت و تبلیغ بھی اور علم بھی ۔
دینے والا ہاتھ بہتر ہے، یہ پیغام بچے نے محسوس کیا۔ سوشل اسکلز میں یہ جب آپ دوسرے کو اس کا حق ازخود دیتے ہیں تو رب العالمین سے طلب کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں ۔ دوسروں کو دو تاکہ تم لے سکو۔ زندگی کے ہر شعبے میں وہ طلب سے پہلے دینے کے قائل بنیں، نہ صرف پیسہ بلکہ سروس بھی، دعوت و تبلیغ بھی اور علم بھی ۔
3۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا …؟
آپ خود بچوں کے سامنے سب سے پہلے انکار کے بجائے اس کام کو کرنے کی کوشش کریں ۔زندگی، مختلف شعبوں میں انسان سے ہر جہت کے کام کا تقاضہ کرتی ہے۔ بس بچے کا ہر کام کے تئیں مثبت رویہ بنانے کا بہترین طریقے یہی ہے۔ کوشش کرنا سکھائیں۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کروانے کی عادت ڈالیں ۔کبھی یہ نہ کہیں کہ یہ کام لڑکیوں کے ہیں، یہ لڑکوں کے ۔بہت فرق ہے کہ یہ کام میں کرسکتا ہو ںیہ کہنے میں اور یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا ۔
4۔ کھانے سے متعلق ہمارا :
کھانا جتنا بچے کھائیں، انہیں اتنا ہی کھانے دیجیے۔ زور زبردستی کرکے آپ طے نہ کریں کہ وہ اتنا ہی کھائیں۔بچوں کو اپنی بھوک محسوس کرنے دینا چاہیے۔ انہیں خود طلب کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ بچوں کو اپنی ضرورت محسوس کرکے طلب کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے ۔بعض مائیں خود طے کرتی ہیں کہ بچے ان کے اندازے کے مطابق کھانا کھائیں۔ہر انسان کا نظامِ انہضام اس کا فوکس جبلی ضرورتوں میں ترجیح کی بنیاد ان کے اندرونی نظام سے متعلق ہے ۔ہر دوسری تیسری ماں نے یہ فیشن بنالیا ہے کہ بچوں کے کھانے کھلانے کو بڑا ایشو بناکر پیش کیا جائے ۔
اس عوامل پر غور کریں کہ کیا وہ اسکرین یوزر ہیں؟ کیا فزیکل گیم آوٹ ڈور گیم کھیلنے کا بچے کو موقع نہیں مل رہا ہے؟ کیا والدین میں سے یا کوئی فیملی ممبر وقت پر کھانے کے عادی نہیں ۔ کھانے کے علاوہ باہر کے پورسیزڈ فوڈ سےیاچاکلیٹ، چپس یا دیگر اشیاء سے وہ اپنی ضرورت پوری تو نہیں کررہا؟
بہرکیف کنٹرول لگا کر خاموش مشاھدہ کہ وہ کتنے گھنٹے میں بھوک محسوس کررہا ہے، فوڈ چارٹ بنالیں۔بچے کو محسوس نہ ہو، ورنہ وہ اپنی بھوک کو اپنے ذمہ داری نہ سمجھتے ہوئے آپ کے کھلانے کا عادی بن جاتا ہے۔ گویا یہ فکر کرنا آپ کی ذمہ داری ۔
اس عوامل پر غور کریں کہ کیا وہ اسکرین یوزر ہیں؟ کیا فزیکل گیم آوٹ ڈور گیم کھیلنے کا بچے کو موقع نہیں مل رہا ہے؟ کیا والدین میں سے یا کوئی فیملی ممبر وقت پر کھانے کے عادی نہیں ۔ کھانے کے علاوہ باہر کے پورسیزڈ فوڈ سےیاچاکلیٹ، چپس یا دیگر اشیاء سے وہ اپنی ضرورت پوری تو نہیں کررہا؟
بہرکیف کنٹرول لگا کر خاموش مشاھدہ کہ وہ کتنے گھنٹے میں بھوک محسوس کررہا ہے، فوڈ چارٹ بنالیں۔بچے کو محسوس نہ ہو، ورنہ وہ اپنی بھوک کو اپنے ذمہ داری نہ سمجھتے ہوئے آپ کے کھلانے کا عادی بن جاتا ہے۔ گویا یہ فکر کرنا آپ کی ذمہ داری ۔
5۔ چیخ اور جھنجھلاہٹ سے گریز:
آپ کا رویہ بچے کو چیخ پر تحقیر آمیز یا جتاتا ہوا نہ ہو۔ جب آپ بچے پر جھنجلاتے ہیں، بچے کو جھنجلاہٹ دکھانا سکھادیتے ہیں ۔جب آپ چیختے ہیں، جذبات پر قابو کھو دیتے ہیں۔ آپ بچے کو بے صبری، اضطراب، فوراً ری ایکشن سکھادیتے ہیں ۔اکثر آپ نے ایسے انسانوں سے بات کی ہے، جو آپ کی بات سننے سے پہلے رپلائے کردیتے ہیں ۔ وہ ساری زندگی اچھا، سامع نہیں بن پاتے۔ کسی کی بات کو غور سے سن کر جواب دینے کے بجائے فوراًکسی کی بات کاٹ کر جواب دینے کو فخر محسوس کرتے ہیں۔اس لیے کیوں کہ انھوں نے گھروں میں کسی کو دوسرے کی بات کاٹتے ہوئے دیکھا ہے اور فخر بھی کرتے دیکھا کہ انہوں نے دوسروں کی بولتی بند کردی ہے۔یہ بچپن کا ماحول ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے ۔ہونا یہ چاہیے کہ ایسے عادت والدین کی ہو،تب بھی وہ اپنے بچوں کے مررنگ Mirroring) )نقالی و تقلید کے خیال سے اچھے سامع بننے کی عادت ڈالیں۔[جاری ]
جہاں آپ بہترین مصنف تھے، وہیں اعلیٰ درجے کے مقرر و خطیب بھی تھے۔لہجہ اُتار چڑھاؤ سے عاری، چیخ و پکار سے پاک و صاف ، شروع سے آخر تک آواز کی ایک ہی پِچ ،بڑے سہل الفاظ،شیری لہجہ ،مُشفقانہ و مربّیانہ انداز سنتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ الفاظ چچا میاں کی زبان سے نکلتے ہوتے ہی سیدھے دل و دماغ بلکہ روح میں اُترتے چلے جارہے ہو ۔
ویڈیو :
آڈیو:
Comments From Facebook
0 Comments