تارِ نفس!
میں دور سے ان تمام کو دیکھ سکتا تھا، جو زندگی کے ساز سے نکلنےوالی مدھم دھنوں کے جال میں آہستہ آہستہ الجھتے جارہے تھے ۔ زندگی کے اَن دیکھے تار ان کے اطراف ہالہ بناتے جارہے تھے اور وہ بےخبر ان دھنوں کے اسیر مدہوش ان بکھیڑوں میں الجھتے رہے الجھتے رہے ۔
ان کے اس حصار کو صرف میں دیکھ سکتا تھا۔ان محصور بندوں کو تو زندگی کے ساز سے نکلنے والے ان سروں کے حصار کو اس قدر خوش نما اور سحر آگین بنادیا تھا کہ نہ ان کا نشہ ٹوٹتا نہ وہ زندگی کے سحر سے نکل پاتے ۔ایک میں تھا، جو تارِ نفس کے ٹوٹتے ہی اس سحر انگیز جال کے پر فریب حصار سے آزاد ہوگیا تھا۔
میں انہیں بتانا چاہتا تھا ۔بالکل اس کی طرح، جو اپنی قوم کو بتانے کی اجازت طلب کررہا تھا ….مہلت مانگ رہا تھا ….وہ کہہ رہا تھا:’’ کاش! میری قوم، میرا انجام جانتی کہ یہ جال انہیں کہیں کا نہ چھوڑے گا۔‘‘
جواب ملا: یہ نہیں مانیں گے۔ یہ ہماری آواز کو بھی درخور اعتنا نہیں جانتے ہیں….وہ ان کے عشق میں چیختا رہا….بلند ٹیلے پر چڑھ کر چیختا رہا….جب اس کی آوازیں مداخلت کرنے لگیں تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے ساز کے سروں کو مزید تیز کردیا….اس قدر کہ اب وہ چیخ چیخ کر خود ہی بے ہوش ہوچکا تھا۔
ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان دھنوں نے جال کو ان سب پر ایسے کَس دیا تھا کہ اب صرف کرسیاں بچی تھیں اور وہ بھوسہ بن چکے تھے، تعفن لیے گھٹن زدہ ماحول آدم بھی تھا اور آدم زاد بھی، لیکن وہ ساکت و جامد تھے جیسے زندہ لاشے ہوں ۔
زندگی تو حرکت و عمل کا نام ہے، لیکن ان سے حرکت و عمل ختم ہوچکی تھی۔ان کے جسم بھی سڑے گلے گوشت پوست کے تھے، جو محصور کرسیوں میں چپکا ہوئے تھے ۔وہ زندہ ہوتے تو ایک دوسرے کو بچاتے، ایک دوسرے کو آگاہ کرتے، خاموش تماشائی نہ ہوتے۔ان کے اطراف تازہ ہوا کی کھڑکیاں کھلی ہوتیں، حالات سے نکلنے کے امکان ان کو سرگرداں رکھتا، وہ دوسروں کی طرف رشک و رحم کی نگاہ سے نہ تاکا کرتے۔
ایک لمبی سانس لے کر اس نے سوچا۔ کاش! یہ زندہ رہنے کا راز جان لیتے۔ کاش میں انہیں رفتہ رفتہ خاک ہوتے نہ دیکھتا….ہاں! میں انہیں رفتہ رفتہ خاک ہوتے دیکھتا رہا تھا….۔
Comments From Facebook

4 Comments

  1. سہیل بشیر کار*

    خان کا تخیل اکثر میرے سر کے اوپر سے جاتا ہے، خان بچہ کہنا کیا چاہتی ہو ??

    Reply
  2. نصیراحمدناصر

    یہی حقیقت ہے جس سے مجھ سمیت اکثریت بے خبر ہے۔ بہت عمدہ تمثیل

    Reply
  3. طاھر علی بندیشہ

    یا رب دل مسلم کو ذوق سلیم دے جو خان نشرح کے لکھے کو شعور اور تحت الشعور کے تمام فعّال حواس و ذرائع کو یکساں طور پہ استعمال میں لاتے ہویے سمجھ سکے کہ بھئی کیا لکھا ہے ??

    Reply
  4. Musharraf Ali

    آچاریہ رجنیش نے اپنی کسی کتاب میں ایک حکایت نقل کی ہے، کہ ایک جاجا کے دربار میں دو بُنکر آئے جو بہت اعلیٰ قسم کے کپڑے تیار کرتے تھے
    حکومت کی طرف سے انہیں تمام ضروری سامان مہیا کرا دیا گیا اور وہ راجہ کے لئے لباس تیار کرنے لگے۔
    حکومت کے چند نمائندے ایئک بار جائزہ لینے پہنچے تو بنکروں کو ہوا میں تانی بھرنی کرتے پایا۔ وہاں نہ کوئی سوت تھا نہ کوئی کپڑا۔
    بنکروں نے بتایا کہ یہ بہت خاص اور معجزاتی کپڑا ہے، یہ صرف انہیں ہی نظر آتا ہے جو اپنے والدین کی جائز اولاد ہوں۔
    اب راجہ کا جو نمائندہ بھی آتا وہ کپڑے کی خوب تعریف کرتا۔
    یہاں تک کہ وہ لباس بن کر تیار ہو گیااور پھر وہ دن بھیآیا جب راجہ نے اسے بھرے دربار میں پہن کر سب کو دکھایا۔
    بے لباس راجہ کو دیکھ کر ہر شخص یہی سمجھتا رہا کہ یہ لباس صرف مجھے نظر نہیں آرہا ہے ، بقیہ تمام لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ٢٠٢٢