صارفیت اورمعاشی دباؤ
سرمایہ دارانہ استعمار نے صارفیت Consumerism اور تعیشات کا جو مزاج بنایا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر بھی خواتین پر ہی پڑتا ہے۔ اشتہارات زیادہ تر خواتین ( اور بچوں) کو مخاطب کر کے بنائے جاتے ہیں۔ معیار زندگی کی دوڑ نفسیاتی طور پر خواتین میں زیادہ ہوئی ہے۔ جب اشتہارات کے ذریعہ مصنوعی طور پر معیار زندگی سے متعلق انتہا پسندانہ تصورات پر کیے جاتے ہیں اور صارفیت کا مستقل دباؤ قائم کیا جا تا ہے تو اس کے نقصاندہ اثرات سب زیاد و خواتین ہی قبول کرتی ہیں۔ صارفیت اور فضول خرچی کے رجحانات بڑھ کر نفسیاتی امراض کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق دھیرے دھیرے آدمی شا پنگ اور خرچ کرنے Spending کا و یسا ہی عادی Addict ہو جا تا ہے، جیسے نشہ کا ممبئی کے سائیکا ٹرسٹ ڈاکٹر اشیت شیٹھ کے مطابق، اس مریض کا دماغ شا پنگ کرنے سے ایک مادہ Endorphins خارج کرتا ہے، جس کی آدمی کو دھیرے دھیرے لت Addiction لگ جاتی ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو، شاپنگ مالوں میں جا کر بے حساب خریدی کر نے تک اسے چین نہیں آتا۔ پیسے نہ ہوں تو وہ قرض پر قرض لیتا چلا جاتا ہے اور بالکل ایک شرابی کی طرح ہر صورت میں اپنی لت پوری کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ڈاکٹر زاسے ایک مرض Pathological Disorderقرار دے رہے ہیں۔ اس مرض کی بھی زیادہ تر شکار خواتین ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ملک میں خوشحال پڑھی لکھی خواتین میں خودکشی کے رجحانات بڑھے ہیں۔ ماہرین اس رجحان کو بھی صارفیت اور معیار زندگی کے دباؤ اوراس سے متعلق تناؤ سے جوڑتے ہیں۔ صارفیت پسند طرز زندگی نے کاروں، فلیٹوں اور برانڈیڈ کپڑوں اور جوتوں کی مسابقت کی ایسی لت لگائی ہے کہ اس میں پڑھ کر سکون غارت ہو جا تا ہے۔
چھ ماہ کی حاملہ 24 سالہ سجا تا پھانسی لگا کر خودکشی کر لیتی ہے، وجہ ؟ اس کا یہ خیال کہ اس کا ایک ایم این سی میں منیجر شوہر، ابھی اتنا خوشحال نہیں ہوسکا ہے کہ اس کا ہونے والا بچہ ایک خوشحال زندگی گزار سکے۔ 25سالہ سنگیتا کی خودکشی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تمام سہیلیوں میں وہ اکیلی تھی، جس کے پاس اس کا اپنا فلیٹ نہیں تھا۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں پڑھی لکھی نو جوان خواتین میں خودکشیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر ایک عورت خودکشی کرتی ہے تو 20 عورتیں اس کی کوشش کرتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اگلے دہے میں ڈپریشن خواتین کا سب سے بڑا قاتل ہوگا۔
2001 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں نو جوان شہری خواتین میں سب سے عام کی کیفیت ہے۔ ماہرین نفسیات اس مرض کا بڑا سبب حرص وہوس اور عیش پسندی اور صارفیت کو قرار دیتے ہیں۔ اس مرض سے دنیا بھر میں 18.6 فیصد خواتین معذور ہوتی ہیں۔ یہ تعداد ہارٹ اٹیک اور کینسر سے بھی زیادہ ہے۔ ممبئی کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خوشحال گھرانے کی عورتیں اور خاتون پروفیشنلز اپنادن مکمل کرنے کے لیے Alprazolam جیسے AntiAnxiety Drugs پر منحصر رہتی ہیں۔ یہ خواتین گولیاں پانی کی طرح لیتی ہیں۔ 30 سالہ سجا تا دویدی ایک وقت میں 30,30 گولیاں کھاتی ہے۔ ایک دن بے خوابی سے تنگ آ کر اس نے دوسو گولیاں کھائیں اور دواخانہ میں بیدار ہوئی۔ یہ صارفیت اور معیار زندگی کی دوڑ ہی ہے جس نے جہیز کی لعنت کو جنم دیا۔ اب دلہنوں کو جلانے کا عمل روایت پسند نیم خواندہ گھرانوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ انگریزی بولنے والے، تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں میں بھی بیویاں جلائی جارہی ہیں۔ آئی اے ایس افسر شوہر کی آئی اے ایس افسر بیوی بھی جہیز کے نام پر ہراسانی کی شکار ہے۔ دہلی کمیشن آف ویمن کے مطابق ان کے پاس آنے والی شکایات میں سے دس فی صد کا تعلق سوسائٹی کے انتہائی خوشحال اور مہذب طبقے سے ہوتا ہے۔
یہ صارفیت کی پیدا کردہ بے پناہ ہوس ہی ہے کہ انسان اشیاء اور رقومات کے پیچھے دیوانہ ہے۔ یہ بھی کر پشن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی جہیز کے جارح مطالبات کی صورت میں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ھل من مزید کی ہوس بہوؤں اور بیویوں سے لوٹنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔
اسلام کا موقف :
اسلام ہر سطح پر عدل کا علمبردار ہے۔ اس کے اصول زندگی کے ہر شعبہ میں ظلم اور استحصال کی جڑیں کاٹتے ہیں۔ خواتین سے متعلق بھی اسلامی شریعت کے اصول اعتدال اور عدل کے مظہر ہیں اور ان تمام راستوں کو مسدود کر دیتے ہیں، جن سے استعمار ان کا استحصال کرتا ہے۔ اسلام نے عورت کی نسوانی شخصیت اور اس کی نسائیت کو تحفظ اور احترام بخشا ہے۔ اسے سارے حقوق اس کی نسوانی شخصیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی رعایت کے ساتھ دیے ہیں۔ اس طرح نام نہاد صنفی مساوات کے پرفریب نعرے سے ایک مسلمان خاتون کبھی دھوکہ نہیں کھاتی۔
اسلام نے عورت کی نسوانی شخصیت اور اس کی نسائیت کو تحفظ اور احترام بخشا ہے۔ اسے سارے حقوق اس کی نسوانی شخصیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی رعایت کے ساتھ دیے ہیں۔ اس طرح نام نہاد صنفی مساوات کے پرفریب نعرے سے ایک مسلمان خاتون کبھی دھوکہ نہیں کھاتی۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ٢٠٢٢