حسناء:
(غصہ سے فون کاٹ کر بیڈ پر رکھتی ہے )یہ شریف شہزادیوں سے تھوڑا فری کیا ہوجاؤ تو زندگی میں Interfere کرنا شروع کردیتی ہے۔ ’’میری زندگی، میری مرضی‘‘ بھائی ۔
(حسناءباہر پانی پینے کے لیے جاتی ہے اور اُسی وقت فرحان کا فون بجتا ہے۔ اُس کی ماں شفاءدیکھتی ہے۔)
(حسناءباہر پانی پینے کے لیے جاتی ہے اور اُسی وقت فرحان کا فون بجتا ہے۔ اُس کی ماں شفاءدیکھتی ہے۔)
شفاء:
حسناء کب سے تمہارا فون آرہاہے۔اور یہ فرحان کون ہے؟اور تم کو کچھ ڈر نام کی چیز ہے بھی یا نہیں ۔
حسناء:
مام……!(ہاتھ کے اشارے سے اپنا منہ بند کر نے کے لیے کہتی ہے۔) اب آپ میرا دماغ مت کھائیں۔ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی میں۔ (اوریہ کہہ کر چلی جاتی ہے۔)
شفاء:
تجھے تو میری صحت کا خیال ہی نہیں ہے۔نہ گھر کے کاموں کی فکر ہے۔ہمیشہ فون میں لگی رہتی ہے ۔
(اورکُرسی پر پڑے کپڑے اٹھاکر لے جاتی ہے۔ )
حسناء اپنے کمرے میں جاتی ہے اور فرحان کو فون کرتی ہے۔
(اورکُرسی پر پڑے کپڑے اٹھاکر لے جاتی ہے۔ )
حسناء اپنے کمرے میں جاتی ہے اور فرحان کو فون کرتی ہے۔
حسناء:
ہائے…فرحان! کیسے ہو؟کیا کررہے ہو؟
فرحان :
مرنے جارہاہوں، آؤگی؟کب سے فون کر رہا ہوں پاگل لڑکی۔ کہاں مرگئی تھی؟(اور فون کاٹ دیتا ہے۔)
حسناء:ف…ف…فرحان۔ (فون دیکھ کر ) بیوقوف! مجھے پاگل کہا(غصہ سے)My foot۔
(اور سوجاتی ہے ۔جیسے ہی سوتی ہے، تھوڑی دیر بعد اُسے بہت ہی خوف ناک خواب آتا ہےاور ہڑ بھڑا کر اُٹھتی ہے۔
حسناء:ف…ف…فرحان۔ (فون دیکھ کر ) بیوقوف! مجھے پاگل کہا(غصہ سے)My foot۔
(اور سوجاتی ہے ۔جیسے ہی سوتی ہے، تھوڑی دیر بعد اُسے بہت ہی خوف ناک خواب آتا ہےاور ہڑ بھڑا کر اُٹھتی ہے۔
حسناء :
ThanksGod!میں کمرے میں ہوں۔یااللہ! قبر، بچھو،سانپ کیڑے، یہ سب کیا تھا۔(پریشان ہوکر اُسے نیند نہیں آتی ہےاور بے چینی کی وجہ سے وہ سو نہیں پاتی۔اُسی وقت اُسے رابعی کا چہرہ نظر آتا ہے اور اُسے سکون محسوس ہوتا ہے ۔صبح ہوتے ہی وہ کالج بغیر بتائے اور بغیر ناشتہ کیے چلی جاتی ہے۔)
کالج میں حسناء کا سامنا سدرہ اور رابعی سے ہوتا ہے۔حسناء بات کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ رابعی وہاں سے سلام کرکے کر چلی جاتی ہے۔
کالج میں حسناء کا سامنا سدرہ اور رابعی سے ہوتا ہے۔حسناء بات کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ رابعی وہاں سے سلام کرکے کر چلی جاتی ہے۔
رابعی:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسناء: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ( مجھے رابعی سے بات کرنی ہوگی۔ یااللہ! یہ دل کی دھڑکن اتنی تیز کیوں ہوگئی؟ کہیں میں مرتو نہیں جاؤں گی۔
(اور سر پر ہاتھ لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ )
اِدھر رابعی اور سدرہ کچھ کھانے کینٹین میں جاتی ہیں۔
حسناء: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ( مجھے رابعی سے بات کرنی ہوگی۔ یااللہ! یہ دل کی دھڑکن اتنی تیز کیوں ہوگئی؟ کہیں میں مرتو نہیں جاؤں گی۔
(اور سر پر ہاتھ لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ )
اِدھر رابعی اور سدرہ کچھ کھانے کینٹین میں جاتی ہیں۔
سدرہ:
آج تو میں تمہیں آئس کریم کھلا ؤں گی۔
رابعی:
کوئی ضرورت نہیں اس کی، دونوں کچھ ہلکا کھا کر چلتے ہیں۔
سدرہ :
رابعی میں نے تمہیں کل کتنے بار فون کیا!تمہارا فون بزی آرہا تھا۔ مجھے ڈاؤٹ پوچھنا تھا تم سے۔
رابعی:
ہاں!وہ حسناء سے بات کررہی تھی۔کون سا ڈاؤٹ؟
سدرہ :
وہ کل میں سورۂ النورکی تلاوت اور تفسیر کا مطالعہ کررہی تھی کہ اُس میں مرد کو حکم دیا گیا کہ ایک نظر جب غیر عورت پر پڑ جائے تو معاف ہے، لیکن دوسری نظر شیطان کی ہوتی ہے ۔عورت کے لیے یہ شرط معاف ہے کیا؟عورت غیر مرد کو دیکھ سکتی ہے؟
رابعی:
سدرہ!ظاہر ہے جس طرح مرد کے لیے غیر عورت کو گھورنا آنکھ کا زنا ہے۔ٹھیک ایسی طرح عورت کے لیے بھی مرد کو گھورنا آنکھ کا زنا ہے ۔دونوں کے لیے بھی مساوی حکم ہے ۔
ایک حدیث ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جوشخص میرے ڈر سے اس کو پھیر دےگا،میں اُس کے بدلے میں ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائےگا۔
ایک حدیث ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جوشخص میرے ڈر سے اس کو پھیر دےگا،میں اُس کے بدلے میں ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائےگا۔
سدرہ:
اچھا، سبحان اللہ(رابعی کو اشارہ کرتی ہے کہ Chairکے پیچھے حسناء کھڑی ہے۔ )
رابعی:
( پیچھے دیکھ کر ) حسناء تم!آؤنا…..ادھر بیٹھو۔
حسناء:
میں تم سے ہی ملنے آئی ہوں رابعی!میرے فون کاٹنے پر ناراض ہو کیا۔ (مایوسی سے)
رابعی:
ارے نہیں حسناء!تم بزی ہوگی، اسی لیے نہیں مل پائی۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تم کچھ پریشان ہو۔
حسناء:
را….را….رابعی(رونا شروع کر دیتی ہے )وہ….وہ
رابعی:
کیا ہوا حسناء؟کسی نے پریشان کیا ہے یافرحان نے کچھ کیا ہے۔یا گھر کی طرف سے پریشان ہو؟
بتاؤ نا میری بہن!(گلے میں ہاتھ ڈال کر ) تاکہ میں تمہاری مدد کرسکوں۔
(جاری)
بتاؤ نا میری بہن!(گلے میں ہاتھ ڈال کر ) تاکہ میں تمہاری مدد کرسکوں۔
(جاری)
ایک حدیث ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جوشخص میرے ڈر سے اس کو پھیر دےگا،میں اُس کے بدلے میں ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائےگا۔
Comments From Facebook
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بہت عمدہ کوشش سوشل میڈیا کے اس دور میں طلباء طالبات اور نوجوان وخواتین تک اسلام کی تعلیمات دلنشیں انداز میں منتقل کرنا انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے ۔