اقسام سیلان:بہ اعتبار بو ورنگت
۱۔ رحم سے متعفن رطوبت کا خارج ہونا:
گاہے عورتوں کے رحم سے ہر وقت متعفن رطوبت جاری رہتی ہے۔ جس کا سبب تمام بدن میں فضلات کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ فضلات استفراغ و تنقیہ کے طور پر رحم کی طرف دفع ہوتے ہیں۔ یہ فضلات یا بلغمی ہوتے ہیں یا صفراوی یا سوداوی یا دموی ہوتے ہیں۔ یا اس کا سبب خود رحم میں رطوبتوں کی تولید ہوتی ہے۔ جس کا باعث رحم کی قوت غازیہ کی کم زوری اور عروق حیض میں مادہ کی عفونت ہوتی ہے۔ (اکسیر اعظم، ص ۸۳۵)سرطان رحم سرطان عنق رحم اور تعدیہ کے سبب بھی بدبو ہوتی ہے۔
۲۔ رحم سے زرد مواد کا اخراج:
کبھی زرد رنگت کی رطوبت کا اخراج ہوتا ہے یا بدرنگ یا سبزی رنگت لیے ہوئے مادے کا اخراج اکثر سوزاکی سرایت کے سبب ہوتا ہے۔ اور اکثر ’عفونت ‘ کے سبب سے زرد رنگت کی رطوبت خارج ہوتی رہتی ہے۔ اکثر اطبا یہ کہتے ہیں کہ سیلان ا لرحم صفراوی مرض ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ذیل کی سطور ملاحظہ کریں:
’’ اس رطوبت کی پیدائش یا تو خاص رحم میں ہوتی ہے۔ یا جس وقت رحم کی قوت جاذبہ میں ضعف آجائے یا کچھ فضول تمام بدن سے رحم میں آتے ہوں بطور استفراغ طبیعی کے، جس کے ذریعہ سے بدن کا تنقیہ اور صفائی ہوتی ہو۔اس فضلہ کی قسم پر استدلال اس کے رنگ اور جوہر سے کیا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کی یہ رطوبت کبھی تو سرخ ہوتی ہے۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ فضلہ دموی ہے۔ کبھی سپید رطوبت آتی ہے جو دلیل مادہ بلغمی کی ہے۔ کبھی زرد آتی ہے جس سے صفراوی مادہ فضلے کا معلوم ہوتا ہے۔ کبھی سیاہی لیے ہوئے ہوتی ہے اس سے گمان مادہ سوداوی کا ہوتا ہے۔‘‘(کامل الصناعہ، ج اول، ص ۵۳۴)
علامات و عوارضات سیلان ا لرحم
رحم سے رطوبت بہنے کے ساتھ ساتھ کم و بیش درج ذیل عوارض پائے جاتے ہیں:
ہاضمہ بگڑ جاتا ہے۔ مسلسل سیلان رطوبت کے سبب چہرہ زرد، بے رونق، آنکھ کے گرد حلقے پڑ جاتے ہیں۔ بدن کم زور ہو جاتا ہے۔ کمر اور پنڈیلیوں میں درد رہتا ہے۔ پیشاب بار بار آتا ہے۔ اندام نہانی میں خارش۔ پیڑو میں درد اور بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ درد سر۔ کی شکایت ہو جاتی ہے۔ سستی اور کاہلی ہوتی ہے۔ کسی کام کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی۔ لاغری اور کم زوری بڑھ جاتی ہے۔ مزاج چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اختلاج قلب تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس مرض میں عموماً قبض کی شکایت رہا کرتی ہے۔ ہاتھوں، پیروں بالخصوص ہتھیلی اور تلوے میں جلن ہوتی ہے۔ اگر سیلان کی شکایت عرصے تک رہے تو حیض بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ اگر سیلان رطوبت زیادہ ہو تو اکثر حمل قرار نہیں پاتا ۔’ مرض کی شدت میں اول تو استقرار حمل بہت کم ہوتا ہے اور اگر استقرار حمل ہو بھی جائے تو بیش تر اسقاط حمل ہو جاتا ہے۔ (امراض زنانہ، از حکیم مجید ناروی، ص ۴۵)
اسباب سیلان الرحم
۱۔ عفونت :
اطباء قدیم ماہیت امراض کے بیان میں حسب ذیل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ’تلوث‘ (گندگی یا عفونی مادہ کا لگ جانا۔ عفونت سے گندہ ہو جانا۔ ترجمہ کبیر، ج چہارم، ص ۳۲۴)
اجسام خبیثہ:
عفونت اور وبا پیدا کرنے والے اجسام۔(ترجمہ کبیر، ج چہارم، ص۳۰۳)
تعدیہ:
چھوت، مرض کا لگ جانا۔ (ترجمہ کبیر، ج چہارم، ص ۳۲۳)
سرایت:
چھوت، مادہ کا پھیلنا۔ مرض کا یک دوسرے کو لگنا۔
(ترجمہ کبیر، ج چہارم، ص۳۴۹)
عفونت:
: گندگی، سڑاند، تلوث، اجسام خبیثہ، جراثیم کی آلودگی۔
(ترجمۂ کبیر ،ج چہارم، ص ۳۶۱)
اطباء قدیم ’عفونت‘ کا لفظ بہت زیاد استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے بخاروں کو ’حمیات عفونیہ‘ کہتے ہیں۔ وہ قائل ہیں کی بعض بخار عفونت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ’عفونت ایک طور کا فساد رطوبت میں ایسا پیدا ہوتا ہے کہ جس میں حرارت غریبہ کے اثر سے اکثر ان رطوبات کے خواص بدل جاتے ہیں۔ عفونت کے پیدا ہونے کا سبب غذائے ردی ہے۔‘
(القانون، ج سوم، ص ۱۱۵۴)
عفونت سے خلطوں کی تپ ہوتی ہے، لیکن عفونت خلطوں کی دو حال سے باہر نہیں ہے۔ یا رگوں کے اندر متعفن ہوتی ہے یا رگوں کے باہر۔
(ذخیرہ خوارزم شاہی، ج۵، ص۵)
عفونت کے تپوں میں حرارت لذاع اور چبھتی ہوئی ہوتی ہے۔ جو بدن کو ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ اور جلائے دیتی ہے اور اس کی جلن ایسی ہوتی ہے، جیسے آگ کے شعلے کی جلن۔ (کامل الصناعہ، ج اول، ص ۴۱۳) جب تک کوئی رطوبت خالص (غیر ملوث) ہوتی ہے، یعنی اس کے ساتھ اجسام خبیثہ کی آمیزش نہیں ہوتی اس وقت تک وہ عفونت سے بری اسی طرح ہوتی ہے، جس طرح سادہ پانی اور خالص ہوا۔ عفونت اور وبا کے اجسام خبیثہ گاہے سڑی گلی ناشوں اور گاہے سڑی گلی جھیلوں سے انسانی جسم تک پہنچتے ہیں۔ (ترجمۂ کبیر، ج چہارم، ص ۱۲۴)
اطباء کہتے ہیں کہ عمل عفونت کے لیے حرارت کی ضرورت ہے اور عمل عفونت سے حرارت پیدا بھی ہوتی ہے۔ اگر کسی مادہ کو برف وغیرہ سے غایت بردوت تک پہنچا دیا جائے تو عمل عفونت رک جاتا ہے۔ یہی وجہ کہ برف کے اندر کسی مردہ حیوان یا پھل وغیرہ کو دبا دیا جائے تو وہ سڑنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔عمل عفونت کے لیے حرارت کے ساتھ رطوبت کی بھی ضرورت ہے رطوبت کے اندر عمل عفونت تیزی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر رطوبت کم کردی جائے تو عفونت بند ہو جاتی ہے۔ یا اسی تناسب سے اسکی رفتار میں کمی آجاتی ہے۔ (ترجمۂ کبیر، ج چہارم، ص ۹۰)
’’ ظاہر ہے کہ مواد عفونت سے یہی مراد ہو سکتے ہیں۔ جن کو آج خردبین کی نظر سے دیکھ لیا گیا ہے۔ جنکا نام ‘’ جراثیم’’ رکھ دیا گیا ہے۔
(ترجمہ کبیر، ج چہارم، ص ۹۱)
تلوث:
اجسام خبیثہ۔تعدیہ۔ سرائیت۔ عفونت۔ کے دائرے میں جراثیم (Bacteria) وائرس (virus) پیراسائٹس(Fungs(parasitesیہ سب داخل ہیں۔
جراثیم:
یہ خورد بینی اجسام بغیر کسی نہایت طاقتور خردبین کے نظر نہیں آسکتے۔ یہ نہایت خطرناک اور نہایت فائد مند ہوتے ہیں۔ یہ ہوا پانی مٹی اور نباتات میں ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔
وائرس:
یہ Bacteriaسے بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ انکا شمار Bacteria میں نہیں ہوتا یہ زندہ اجسام کے خون اور ساخت کے بجائے direct سیلز (خلیات) پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور سیلز کے انزائم سے اپنی خوراک لیتے ہیں اور اپنی نسل بڑھاتے ہیں۔
پیراسائٹس:( Parasites)
ان جراثیم کو کہتے ہیں جو انسانی جسم کے اندرونی یا بیرونی عضو پر قیام کرکے انہیں سے اپنی غذا لیتے ہیں۔ پیراسائٹس کو طفیلی جراثیم کہتے ہیں۔ انہیں اگر مناسب Host (میزبان) نہ ملے تو یہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ٹرائی کموناس ویجی نالس:
(Trichomonas Vaginalis)
یہ پیراسائٹس عورتوں میں صرف مہبل اور بچہ دانی کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں اور مردوں میں پیشاب کی نالی اور پراسٹیٹ گلینڈ کو اپنی قیام گاہ بناتے ہیں۔ اس مرض کے چھوت لگنے کے بعد مہبل اور بچہ دانی کی میوکس ممبرین اور مردوں کی پیشاب کی نالی کے آخری سرے تک ہلکی ورمی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان ماؤف مقامات سے لیسدار رطوبت خارج ہونے لگتی ہے۔ یہ پیراسائٹس عورتوں میں سیلان الرحم کا خاص سبب ہے۔
Fungus کواردو میں پھپھوندی کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی روئیدگی ہے۔ نباتی اور حیوانی اجسام پر اگا کرتی ہے اور پھیلتی ہے۔Fungusکی نشو نما جراثیم کے مقابلہ سست رفتار ہوتی ہے۔Fungusکے وہ اقسام جو انسانوں میں امراض پیدا کرتی ہیں انمیں ایک Candidaہے۔ خردبینی معائنہ سے اسمی دھاگے اور شگوفے نظر آتے ہیں۔ ان کو Candidiasisیا Moniliasisبھی کہتے ہیں۔ انکی ایک خاص قسم Candida Albicans ہے۔ یہ انسانوں پر سب سے زیادہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ انکی وجہ سے منہ اور مہبل کی اندرونی بلغمی جھلی ماؤف ہو جاتی ہے جب منہ اور زبان اس سے متاثر ہوتے ہیں تو ’قلاع‘کی شکایت ہوتی ہے جب مبہل اس سے متاثر ہوتی ہے تو ’سیلان الرحم‘کی تکلیف رونما ہوتی ہے۔
۲۔ ورم عنق الرحم (Cevical Endometritts)
اس مرض میں صرف گردن رحم اور کبھی رحم کی اندرونی لعابدار جھلی میں سوزش ہوکر رطوبت بکثرت خارج ہوتی ہے۔یہ مرض کثیر الوقوع، اسباب کثرت تفکرات، ایام حیض میں بے قاعدگی، کثرت مجامعت اور عفونت کی وجہ سے ہے۔
علامات:
پیڑو اور کمر میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ عنقی افراز کی مقدار وافر ہوتی ہے۔ غلیظ اور لیس دار رطوبت خارج ہوتی ہے
Thick. Curdy white discharge e’ plaques and congestion ie candidial infection.
(Pag.110. Ghanshayam Vaida)
اس کے علاج میں ایک وقفے تک جماع سے پرہیز کرانے کے ساتھ دافع تعفن۔ مجفف رطوبات۔ محلل اورام اور مقوی رحم دواؤں کے استعمال سے یہ مرض رفع ہوتا ہے۔
۳۔ ورم رحم اور ورم رحم باطن۔
( Metritis andEndometritis )
’’ورم رحم سے بالعموم رحم کے طبقہ عضلیہ کا ورم مراد ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ غشائے مخاطی میں بھی اکثر ’سرایت‘ ہو جایا کرتی ہے۔ گاہے صرف غشائے مخاطی میں ورم ہوتا ہے اور باقی پرت درست ہوتی ہے۔ تو اس صورت میں شدید عوارض نہیں ہوتے صرف اندرونی جھلی پھول کر جوفے رحم کو تنگ کردیتی ہے اور پیڑو کے مقام پر زیادہ ابھار نہیں معلوم ہوتا۔ اس میں رحم سے ایک سفید غلیظ رطوبت بہا کرتی ہے۔ اس لیے اسکو نزلہ رحمیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اگر پیڑو کو دبایا جائے تو درد محسوس ہوتا ہے۔
‘‘ (مطب عملی، ص۲۸۴)
جب رحم کی غشائے مخاطی کا ورم مزمن ہو جاتا ہے تو رحم سے لعاب دار اور قدرے خون آمیز رطوبت خارج ہوتی ہے۔
(مخزن حکمت، ج دوم،ص ۸۰۱)
یہ مرض اس قدر موذی ہوتا ہے کہ عورت کی تمام قوتوں کو بہت ہی قلیل عرصے میں طرح طرح کے عوارض میں مبتلا کردیتا ہے۔ [جاری]
مسلسل سیلان رطوبت کے سبب چہرہ زرد، بے رونق، آنکھ کے گرد حلقے پڑ جاتے ہیں۔ بدن کم زور ہو جاتا ہے۔ کمر اور پنڈیلیوں میں درد رہتا ہے۔ پیشاب بار بار آتا ہے۔ اندام نہانی میں خارش۔ پیڑو میں درد اور بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ درد سر۔ دوران سر کی شکایت ہو جاتی ہے۔ سستی اور کاہلی ہوتی ہے۔ کسی کام کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی۔ لاغری اور کم زوری بڑھ جاتی ہے۔ مزاج چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اختلاج قلب تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس مرض میں عموماً قبض کی شکایت رہا کرتی ہے۔ ہاتھوں، پیروں بالخصوص ہتھیلی اور تلوے میں جلن ہوتی ہے۔
0 Comments