ایک طرف بے روزگاری کی شرح برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف مکیش امبانی جی اپنے یہاں روبوٹ ملازمین کو 13کروڑ 20لاکھ ڈالر دےکر خرید رہے ہیں۔ جس ملک میں آبادی کا بڑا حصہ ڈگریوں سے لیس ہے، پھر بھی جاب لیس ہے، وہاں روبوٹ کو بڑے پیمانے پر ملازمت مل رہی ہے۔
روبوٹ ٹیکنالوجی دور حاضر کی سب سے ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے۔ امریکا، چین اور جاپان وہ ممالک ہیں، جہاں یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر مستعمل ہے۔ بھارت اب تک اس جدید ٹیکنالوجی کے معاملے میں دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہے۔ لیکن ریلائنس ہندوستان کو اب ولڈ کلاس روبوٹکس کا ہَب بنانے کے لیے میدان میں اترچکی ہے۔ انھوں نے ایڈورب ٹیکنالوجی نامی کمپنی سے معاملات طے کیے ہیں۔ اس کمپنی کے سربراہ سنگیت کمار ہے۔ اس کمپنی کا قیام 2016 میں عمل میں آیا۔ یہ کمپنی نہ صرف سوفٹ ویئر بناتی یا ڈیزائن کرتی ہے، بلکہ پورا روبوٹکس نظام نصب بھی کرتی ہے۔ اسی لیے ایڈورب کا شمار دنیا کی چند بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے، جو ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کی تنصیب کے ساتھ روبوٹکس کے تمام پہلوؤں پر اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔ صنعتی اور ای کامرس کے گوداموں کے کاموں کے لیے یہ جدید خودکار ٹیکنالوجی مہیا کرتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے کئی سارے صارفین ہیں۔ جن میں امیزون، کوکاکولہ، پیپسی اور والمارٹ شامل ہیں۔ ان کے روبوٹ خودکار گاڑیوں اور گیجیٹس کی یورپ اور ایشیا کے ممالک میں مانگ ہے۔یہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی روبوٹ بنانے والی فیکٹری بنانا چاہتے ہیں۔
ایشیاء کی امیر ترین شخصیت مکیش امبانی جی نے اس میں 13کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے اس کمپنی میں سب سے بڑا حصہ حاصل کیا ہے۔ایڈورب ٹیکنالوجی ایک عرصے سے ریلائنس کے کئی گوداموں میں کام کر رہی ہے۔ جس میں جیو مارٹ، فیشن کمپنی آجیو اور انٹرنیٹ فارمیسی نیٹ میڈز سرفہرست ہیں۔ لیکن مکیش امبانی جی یہیں رکنا نہیں چاہتے، وہ اپنے پورے سسٹم کو روبوٹک فارمیٹ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں بھارت میں ای کامرس کے میدان میں امیزان اور اس جیسی دیگر کمپنیوں سے سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سنگیت کمار نے بلو مرگ سے ٹیلی فون انٹرویو میں امبانی جی سے ہوئے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ریلائنس کا ارادہ ہے کہ اپنے تمام ڈیجیٹل گوداموں کو خودکار بنایا جائے۔‘‘ ریلائنس کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اکنامکس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دسمبر 2021 میں تقریباً 53ملین بیروزگا نوجوان اور خواتین موجود ہیں۔ فی الحال حکومت کےلیے یہ چلینج ہے کہ وہ7.9%لوگوں کو روزگار کے ذرائع مہیا کرے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ملک کو ترقی تو دے گی لیکن کئی سارے افراد کی نوکریاں بھی ان سے چھینے گی۔ ہندوستان کا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہندوستانیوں کے لیے باعث فخر ہوگا۔ لیکن روبوٹ کو ملازمت دینی شروع کی جائے تو انسانوں کی دو وقت کی روٹی کا انتظام کون کرے گا؟ GHI کے مطابق 2021 میں بھارت کو( بھک مری کے مسائل کو لے کر) 101واں مقام حاصل ہے۔ کہیں بے روزگار عوام بھک مری کا شکار نہ ہوجائے۔ ترقی کی دوڑ سے صرف نظر کرتے ہوئے، حکومت کو روزگاری کے مسئلے کو لے کر جلد از جلد کارآمد اقدام کرنے چاہیے۔
روبوٹ ٹیکنالوجی دور حاضر کی سب سے ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے۔ امریکا، چین اور جاپان وہ ممالک ہیں، جہاں یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر مستعمل ہے۔ بھارت اب تک اس جدید ٹیکنالوجی کے معاملے میں دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہے۔ لیکن ریلائنس ہندوستان کو اب ولڈ کلاس روبوٹکس کا ہَب بنانے کے لیے میدان میں اترچکی ہے۔ انھوں نے ایڈورب ٹیکنالوجی نامی کمپنی سے معاملات طے کیے ہیں۔ اس کمپنی کے سربراہ سنگیت کمار ہے۔ اس کمپنی کا قیام 2016 میں عمل میں آیا۔ یہ کمپنی نہ صرف سوفٹ ویئر بناتی یا ڈیزائن کرتی ہے، بلکہ پورا روبوٹکس نظام نصب بھی کرتی ہے۔ اسی لیے ایڈورب کا شمار دنیا کی چند بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے، جو ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کی تنصیب کے ساتھ روبوٹکس کے تمام پہلوؤں پر اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔ صنعتی اور ای کامرس کے گوداموں کے کاموں کے لیے یہ جدید خودکار ٹیکنالوجی مہیا کرتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے کئی سارے صارفین ہیں۔ جن میں امیزون، کوکاکولہ، پیپسی اور والمارٹ شامل ہیں۔ ان کے روبوٹ خودکار گاڑیوں اور گیجیٹس کی یورپ اور ایشیا کے ممالک میں مانگ ہے۔یہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی روبوٹ بنانے والی فیکٹری بنانا چاہتے ہیں۔
ایشیاء کی امیر ترین شخصیت مکیش امبانی جی نے اس میں 13کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے اس کمپنی میں سب سے بڑا حصہ حاصل کیا ہے۔ایڈورب ٹیکنالوجی ایک عرصے سے ریلائنس کے کئی گوداموں میں کام کر رہی ہے۔ جس میں جیو مارٹ، فیشن کمپنی آجیو اور انٹرنیٹ فارمیسی نیٹ میڈز سرفہرست ہیں۔ لیکن مکیش امبانی جی یہیں رکنا نہیں چاہتے، وہ اپنے پورے سسٹم کو روبوٹک فارمیٹ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں بھارت میں ای کامرس کے میدان میں امیزان اور اس جیسی دیگر کمپنیوں سے سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سنگیت کمار نے بلو مرگ سے ٹیلی فون انٹرویو میں امبانی جی سے ہوئے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ریلائنس کا ارادہ ہے کہ اپنے تمام ڈیجیٹل گوداموں کو خودکار بنایا جائے۔‘‘ ریلائنس کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اکنامکس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دسمبر 2021 میں تقریباً 53ملین بیروزگا نوجوان اور خواتین موجود ہیں۔ فی الحال حکومت کےلیے یہ چلینج ہے کہ وہ7.9%لوگوں کو روزگار کے ذرائع مہیا کرے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ملک کو ترقی تو دے گی لیکن کئی سارے افراد کی نوکریاں بھی ان سے چھینے گی۔ ہندوستان کا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہندوستانیوں کے لیے باعث فخر ہوگا۔ لیکن روبوٹ کو ملازمت دینی شروع کی جائے تو انسانوں کی دو وقت کی روٹی کا انتظام کون کرے گا؟ GHI کے مطابق 2021 میں بھارت کو( بھک مری کے مسائل کو لے کر) 101واں مقام حاصل ہے۔ کہیں بے روزگار عوام بھک مری کا شکار نہ ہوجائے۔ ترقی کی دوڑ سے صرف نظر کرتے ہوئے، حکومت کو روزگاری کے مسئلے کو لے کر جلد از جلد کارآمد اقدام کرنے چاہیے۔
Comments From Facebook
0 Comments