لڑکیوں کی اعلی تعلیم وقت کی اہم ضرورت
تعلیم انسانوں کے درمیان ہر لحاظ سے امتیازی شناخت بخشنے کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس بات پرہے کہ ہر فرد کے لیے بلا تفریق جنس، حصولِ تعلیم کے ذرائع آسان ہوں۔14 سال کی عمر تک بلا تفریق صنف اور مذہب، حصولِ تعلیم کے مفت اور لازمی تعلیم (Free and Compulsory Education) کو رکھا گیا ہے۔تاہم اعلی تعلیم کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
اعلیٰ تعلیم سے مراد کسی بھی قسم کی ثانوی تعلیم کے بعد قانوی سطح پر دی جانے والی ایسی تعلیم جو باضابطہ ترتیب دیے گئے نصاب کے ساتھ ایک مخصوص مدت کے لیے دی جاتی ہے،اسے ہائر ایجوکیشن (Higher education)اور اعلی تعلیم کہتے ہیں۔ا س میں کسی بھی شعبے کی بیچلر اور ماسٹر ڈگری یا ٹیکنالوجی کے ڈپلومہ کورس کو شامل کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کالج، یون ورسٹی، گریجویٹ اسکول، جونئیر کالجز، پروفیشنل اسکولز اور ڈگری دینے والے ادارے شامل کیے جاتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم ہندوستان میں خواتین کے امپاور ہونے میں سب سے اہم رول ادا کرتی ہے۔ اقتصادی تحفظ، مواقع، سماجی، سیاسی و اقتصادی نظام کا حصہ بننے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے ۔ ثقافتی اور روایتی اقدار کی بقا میں بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون بہتر رول ادا کرسکتی ہے ۔
لڑکیوں کی اعلی تعلیم، سماجی تبدیلی کی ضمانت
سماجی تبدیلی کی رفتار کو تیز تر بنانے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا طبقہ بہتر رول ادا کرسکتا ہے ۔صنفی تفریق کا انصاف کی بنیاد پر خاتمہ اور صنفی مساوات کا انصاف بر مبنی فروغ اعلیٰ تعلیم ہی کے ذریعہ ممکن ہے ۔ پورے خاندان پر ایک عورت سے بہتر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا۔ عورت کی تعلیم اور شعور و آگاہی پورے خاندان کے لیے فریم کا کام انجام دیتی ہے ۔
بحیثیت ماں، تعلیم یافتہ عورت کا اپنے بچوں کی تعلیمی ضرورت کو ترجیح دینا، ان کے مزاج کے مطابق سبجیکٹ کے انتخاب ، ان کے تعلیمی رجحان اور میلان کو سمجھنے میں خاطر خواہ تعاون کے لیے مستعد رہتی ہے۔ اس کی زندہ مثال انقلاب ایران کی ہے ۔ایران میں آبادی کا مسئلہ درپیش تھا اور خامنہ ای کے سامنے آبادی سے متعلق اسلامی اصول کے تحت آبادی کے کنٹرول کا اعلان ناممکن تھا۔یہ حل بہتر لگا کہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہر خاتون اپنے خاندان کی تعلیم، روزگار اور معیارِ زندگی پر ذاتی فیصلہ لے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔بچوں کی تعلیم، معیشت، معیارِ زندگی کا تصور، سماجی سرگرمیوں میں فعالیت، سیاسی و اقتصادی نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی گرفت میں خاندان کی باگ ڈور ہوتو اثرات بھی مثبت پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔خواتین بہتر معیار زندگی کو سپورٹ کرنے میں بہترین رول ادا کرنے کی مذکورہ مثال میں انقلاب ایران کی بنیاد میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنانے کا اقدام بھی اہم ہے۔
خاندان کے معیارِ زندگی کی ضمانت
اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت بچوں کی صحت، غذائیت اور تعلیم کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔نہ صرف وہ، بلکہ اس کے بچے اور پورا خاندان ہی سماجی تبدیلی کا فعاّل کردار ثابت ہوتے ہیں ۔معاشی کامیابی کا دارومدار بھی بہت حد تک اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔
ملک کی سیاسی اور اقتصادی کی ترقی
ملک کی ترقی پر غور و خوص کرنے والے دانشوران کے پاس خواتین کے سیاسی حقوق پر بحث سرفہرست ہے۔ جمہوری نظام میں آبادی کا نصف حصہ خواتین ہیں۔ نصف آبادی کے سیاسی شعور اور ووٹ کاسٹ کرنے پر گفتگو جاری ہے ۔خواتین کا سیاسی شعور نہ صرف یہ کہ ووٹ کے لیے ضروری ہے، بلکہ شفاف اور انصاف بر مبنی سیاست میں خواتین کی باضابطہ لیڈرشپ کے لیے بھی لازم ہے۔ ورنہ خواتین کا ہر شعبے کی طرح مرد کا ضمیمہ بن کر استعمال ہونا، سیاسی محاذ پر پورے ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا ۔قدیم و روایتی تصور کو دور ترقی میں رد کردیا گیا اور خواتین کی ذہانت اور فعال رول کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔
حکومتی ایجنسیز میں بھی خواتین کی شرکت کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا گیا بلکہ پالیسی سازی میں، سول سروسز میں ، ایجنسیز کے تعاون کے لیے شرکت، براہ راست یا بالواسطہ، رسمی یا غیر رسمی ہو سکتی ہے۔ یہ کام سیاسی، سماجی یا انتظامی نوعیت کا ہو سکتا
ہے۔معاشی، تعلیمی خواندگی کے فروغ، نیز عوام میں رائے دہی کی گیرائی پیدا کرنے کا عمل بھی خواتین کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا رہینِ منت ہے ۔
وومن امپاور منٹ
خواتین کو بااختیار بنانے کے طریقوں اور ذرائع کو تیز کرنے میں اعلیٰ تعلیم کا بڑا دخل ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا ایک عالمی مسئلہ ہے ۔دنیا بھر میں کئی رسمی اور غیر رسمی مہمات میں خواتین کو بااختیار بنانے کا تصور پیش کیا گیا۔1985 میں ناروے میں خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں تعلیم یافتہ خواتین کو بااختیار بنانے کا سنگ میل تسلیم کیا گیا۔ کیوں کہ یہ انھیں چیلنجوں کا جواب دینے، اپنے روایتی کردار کا مقابلہ کرنے اور اپنی زندگی کو بدلنے کے قابل بناتی ہے۔ ہم خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم میں اضافہ
گزشتہ چند سالوں سے بھارت میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے تناسب میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE) کے مطابق، اعلیٰ تعلیم تک رسائی ان سالوں کے دوران بڑھی ہے۔ 2012-13 میں 21.5%سے 2019-20میں 27.1%ہو گئی۔
مردوں کی آبادی کے لیے GER 22.7% (2012-13میں) سے 26.9%(2019-20) اور خواتین کی آبادی کے لیے 20.1%
(2012-12 میں) سے بڑھ کر 27.3% (2019-20میں)
ہو گیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کا مقصد 2035 تک کل GER (بشمول پیشہ ورانہ تعلیم) کو 50 فیصد تک بڑھانا ہے۔
ہندوستان میں تمام شہریوں کو تعلیم فراہم کرنا آئینی حق ہے۔ آئین نہ صرف یہ کہ ضمانت دیتا ہے بلکہ انڈین ایجوکیشن کمیشن 1964 اور نیشنل سفارشات تعلیم پالیسی 1968 نے اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی سونپ دی۔ یکے بعد دیگرے ترمیمات میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا معیار روزافزوں بڑھتارہا ہے ۔
مضمون کے لحاظ سے اعداد و شمار
2019-20میں، انڈر گریجویٹ سطح پر سب سے زیادہ تعداد میں طلبہ نے آرٹس،ہیومینٹیز اورسوشل سائنسز کے کورسز میں داخلہ لیا ،یعنی 32.7فیصد۔ اس کے بعد سائنس میں 16 فیصد، کامرس میں 14.9فیصد اور انجینئرنگ میں 12.6 فیصد۔ AISHE رپورٹ کے مطابق’’پوسٹ گریجویٹ سطح پر، سوشل سائنس اسٹریم میں سب سے زیادہ طلبہ نے داخلہ لیا، جس میں سائنس دوسرے نمبر پر رہی۔پی ایچ ڈی کی سطح پر، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے سلسلے میں سب سے زیادہ طلبہ داخلہ لیتے ہیں، اس کے بعد سائنس۔ پچھلے پانچ سالوں میں پی ایچ ڈی کے امیدواروں کی تعداد میں بھی 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
وزیر تعلیم رمیش پوکھرالے ’نشنک‘ سروے جاری کیا۔ وزارت تعلیم کے ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ رپورٹ ملک میں اعلیٰ تعلیم کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں اہم کارکردگی کے اشارے فراہم کرتی ہے۔‘‘
سال 2000 کا ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام، دنیا کے بڑے نظاموں میں سے ایک ہے۔ یہ کالجوں پر مشتمل ہے۔ یونیورسٹیاں، قومی اہمیت کے ادارے (جیسے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس وغیرہ) اور خود مختار ادارےجیسے ڈیمڈ یونیورسٹیاں وغیرہ۔ 2002-03میں ملک میں 300 یونیورسٹیاں قائم تھیں،جن میں سے 183صوبائی، 18 وفاقی، 71 ڈیمڈ یونیورسٹیاں، 5 مرکزی اور 5 ریاستوںکے ذریعے قائم کی گئیں۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کی رکاوٹیں اور سماجی سطح پر کیے جانے والے اقدامات
قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کا مقصد 2035 تک کل GER (بشمول پیشہ ورانہ تعلیم) کو 50 فیصد تک بڑھانے کی راہ میں کچھ چیلنجز بھی ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ہدف کو سہل بنائے جانے کے باوجود ملک کی دیہی آبادی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ذرائع کی کمی یا دیگر سماجی روایات کے اثرات کی وجہ سے خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپاتیں۔ اس سلسلے میں بیداری مہم کی اب بھی ضرورت ہے۔ ایسے مقامات پر نیشنل اور انٹرنیشل یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام کو ازسرِ نو متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔فاصلاتی تعلیم میں جدید کورسیز بڑھانے کی رفتار کو تیز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
1۔ عموماً نوجوان نسل (بشمول لڑکیوں کے) کو تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں ضروریات ِزندگی کی تکمیل کے لیے ڈپلوما کورسز، ووکیشنل ڈپلوما یا فری لانس کی سہولت کی مخصوص مہارت کے بعد یا گریجویشن کے بعد روزگار حاصل کرنا ضرورت بن چکا ہے ۔اس لیے اعلیٰ تعلیم کو خیر باد کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔ ملک کی ترقی میں حصہ لینے کے لیے ہر کمیونٹی کو خواتین کو اعلی تعلیم کے حصول کویقینی بنانے پر توجہ دینا ازحد ضروری ہے۔
2۔ بعض طلبہ معاشی کمزوری کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کی فیس ادا نہیں کرپاتے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کا خیال ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ایسے طلبہ کو پوسٹ گریجویشن اسکالرشپ اسکیم سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔
3۔ بعض تجزیہ نگاروں نے قصبے اور دیہات سے لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم کے لیے ہجرت کو عیب سمجھنا بھی تعلیم ترک کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ ایسی طالبات کو فاصلاتی تعلیم سے متعارف کروا کر اس ہدف کو تکمیل تک پہنچانے میں معاون بن سکتا ہے ۔
4۔ بعض تجزیہ نگاروں نے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کو مزاحمت بتایا ہے۔ جب کہ شادی کے بعد بھی اعلی تعلیم کو جاری رکھنے کے مزاج کو ہر دو صنف کے لیے رواج دیا جاسکتا ہے۔ جہاں ہر شعبے میں سماجی تبدیلی ممکن ہے، اس تصور کو بھی معمول بننا چاہیے ۔
نیو ایجوکیشن پالیسی میں فراہم کی گئی سہولیات اور نئی یونیورسٹیز کے قیام اور مستحکم بنانے کی پالیسی سے امید ہے کہ اس راہ میں مزید اضافے کا سبب بنے گی ۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت بچوں کی صحت، غذائیت اور تعلیم کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔نہ صرف وہ، بلکہ اس کے بچے اور پورا خاندان ہی سماجی تبدیلی کا فعاّل کردار ثابت ہوتے ہیں ۔معاشی کامیابی کا دارومدار بھی بہت حد تک اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ٢٠٢٢