وراثت میں لڑکیوں کا حصہ
سوال:
میرے والد نے وراثت میں رہائش کے مکانات ،کاشت کی زمینیں اور باغات چھوڑے ہیں۔ میرے بھائی ملکی قانون کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ تمہیں صرف رہائشی مکانات میں حصہ ملے گا، کاشت کی زمینوں اور باغات میں نہیں۔ کیا اسلامی شریعت میں بھی ایساہی ہے؟اگر تقسیم وراثت کے معاملے میں ملکی قانون اور اسلامی قانون میں فرق ہواورکوئی مسلمان اسلامی قانون پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے کیاوعید ہے؟یہ بھی بتادیں۔
جواب:
وراثت کے احکام قرآن مجید میں بہت صریح اور دوٹوک ہیں اور ان میں عورتوں کا بھی حصہ متعین کیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔(النساء:07)
’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو، خواہ تھوڑاہو یا بہت اور یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے۔‘‘
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ان میں سے درج ذیل اہم ہیں:
۱۔مال ِ وراثت میں صرف مردوں کا ہی حصہ نہیں، بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے۔
۲۔مال ِوراثت کی مقدار چاہے جتنی ہو، (کم سے کم یازیادہ سے زیادہ)،ہر حال میں اسے تقسیم ہوناچاہیے۔
۳۔قانون ِوراثت کا اطلاق ہر قسم کے اموال پر ہوگا، چاہے وہ منقولہ ہو ں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، مکانات ہوں یا زمینیں یا باغات۔
آگے قرآن نے مستحقین کے حصوں کی صراحت کردی ہے۔ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کا تذکرہ کیاہے۔ چنانچہ باپ، بھائی اور شوہر کے ساتھ ماں ،بہن اور بیوی کے حصے بھی بتائے ہیں اور یہ بھی ذکر کردیاہے کہ اولاد میں لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر ہوگا۔(النساء:04)
ہرمسلمان کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرے گا۔خاص طور پر تقسیم وراثت کے معاملے میں اسے شرعی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ملکی قانون چاہے کسی کو محروم کرتاہو،لیکن اگر اسلامی شریعت نے اس کا حق متعین کیاہوتواسے ضرور اداکرناچاہیے اور اس سے راہ ِ فرار اختیار کرنے کے لیے ملکی قانون کا سہارانہیں لیناچاہیے۔ قرآن مجید میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
جولوگ احکام ِوراثت پر عمل نہیں کرتے، مستحقین کو ان کے حصے نہیں دیتے اور پورا مال ہڑپ کرلیتے ہیں ان کواللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ مستحقین کے حصوں کی تفصیل بیان کرنے سے قبل کہاگیاہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً۔(النساء:10)
’’جولوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔‘‘
اور حصوں کی تفصیل(النساء:۱۱۔۱۲)بیان کرنے کے بعد ایک بارپھر دھمکی کے انداز میں کہاگیاہے:
وَمَن یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ(النساء:14)
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسواکن سزاہے۔‘‘
مسلم سماج میں تقسیم ِوراثت کے معاملے میں بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے۔اس کی تقسیم صحیح طریقے پر نہیں ہوتی اور لڑکیوں اور بہنوں کو عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ جولوگ وراثت تقسیم نہیں کرتے اور خواتین کو اس سے محروم رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچنا اور اس کی دردناک سزاسے ڈرناچاہیے۔مال و دولت صرف دنیا کی چند روزہ زندگی تک ہی ہے۔مرنے کے بعد کی زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ ہر ایک کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔

ہرمسلمان کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرے گا۔خاص طور پر تقسیم وراثت کے معاملے میں اسے شرعی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ملکی قانون چاہے کسی کو محروم کرتاہو،لیکن اگر اسلامی شریعت نے اس کا حق متعین کیاہوتواسے ضرور اداکرناچاہیے اور اس سے راہ ِ فرار اختیار کرنے کے لیے ملکی قانون کا سہارانہیں لیناچاہیے۔ قرآن مجید میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ٢٠٢٢