ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
گناہ چاہے کبیرہ ہو یا صغیرہ، جب ہم رب کے حضور ندامت کے آنسو بہاتے ہیں اور دوبارہ کبھی نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں تب ہم دوبارہ زندہ ہوتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں اسلام میں سات جنموں کا عقیدہ نہیں ہے، مگر اسلام ہی تو وہ مذہب ہے، جس میں توبۃ النصوح کے بعد آپ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں۔سچی توبہ کے بعد پاک و معصوم زندگی آپ کا انتظار کرتی ہے،جس میں آپ بے شمار انعامات سے نوازے جاتے ہیں جیسے رومی پر کرم کیا گیا تھا۔
’’مبارک ہو…..یہ تمہاری آخری رات ہے۔بہت خوش قسمت ہو، دوبارہ سورج کا دید نصیب ہوگا ورنہ آسمان یہاں کے قیدیوں کی صرف لاشیں دیکھتا ہے۔‘‘
تہاڑ جیل کے کمرہ نمبر ۲۲۲ میں ایک قیدی عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر جب مصلی تہہ کرنے لگا تو دوسرے قیدی نے اسے مبارکباد دی۔
’’میں یہاں سے آزاد ہو بھی گیا تو ضمیر کی ملامتوں سے کبھی رہائی نہیں ملے گی۔ فاروق! کاش…..مجھے سولی چڑھانے کا حکم آتا۔میں نے اللہ سے کبھی رہائی نہیں مانگی۔ہمیشہ اپنی بخشش طلب کی ہے ۔مجھے اس زنداں سے آزادی کیوں مل رہی ہے دوست….‘‘اس نے جائے نماز کو جگہ پر رکھا اور بستر پر لیٹ گیا۔
’’تم اللہ کے نیک بندے ہو، اس لیے۔‘‘ فاروق نے اس کو پر ستائش کی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔اور دونوں کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگے۔
وہ سونا چاہتا تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔اس کا چہرہ تھکا تھکا سا اور آنکھیں ویران تھیں۔ وہ دوسرے قیدیوں کی طرح مسرور نہیں تھا، جو آزادی کا پروانہ ملنے پر خوشی سے پاگل ہوجاتے ہیں ۔
رات دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی، وہ تاریکی میں مسلسل چھت کو تکے جارہا تھا کہ فاروق کی آواز آئی:’’خوشی سے نیند نہیں آرہی نا….؟‘‘
’’نہیں ،میں بتا چکا ہوں تمہیں…. میں خوش نہیں ہوں۔‘‘
’’چلو، نیند نہ آنے کی وجہ چاہے جو بھی ہے،کل تم آزاد ہوجاؤگے اور ایک ہفتے بعد میں تختہ دارپر لٹکا دیا جاؤں گا۔یہ کمرہ خالی ہوجائے گا۔ایک کو زندگی ملے گی اور دوسرے کو موت۔
’’ میں نے تم کو بہت نیک صفت انسان پایا ہے۔ رومی!اس جیل میں کوئی تم جتنا تعلیم یافتہ ،سمجھدار مجھے نظر نہیں آتا ۔خدا جانے تم کس جرم کی سزا کاٹ رہے تھے۔ تم نے وہ جرم کیا بھی تھا یا نہیں ۔قید تو معصوموں سے بھری ہوئی ہے اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔‘‘
’’فاروق!تم ہمیشہ سے سوال کرتے تھے نا کہ مجھے کس جرم کی سزا ملی ہے؟ ‘‘
’’ہاں کرتا تھا….اور تم ہمیشہ اس سوال کے جواب میں چپ رہے۔‘‘
’’آج میں تم کو سناؤں، اپنا جرم….‘‘ وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔
’’زہے نصیب ۔‘‘فاروق نے ہلکی سی مسکراہٹ بکھیری۔
’’میں اپنی ذات سے لڑتے لڑتے تھک چکا ہوں فاروق! میری سزا کی مدت ختم ہوچکی ہے، لیکن….تاحیات میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہے گا۔ وہ معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’جب دل اور دماغ کسی بات کو تسلیم کر لیں تو ضمیر کو جھکنا پڑتا ہے، تم اپنے قلب و
ذہن کو راضی کرو….تم بے فکر رہو رومی! ‘‘
قدرے توقف کے بعد رومی نے بولنا شروع کیا ۔
’’میرے ابو پروفیسر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی پروفیسر بنوں اور میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ جب میں ’’ایم،بی،بی،ایس‘‘ میں ایڈمیشن لیا تو وہ مجھ سے خفا ہوگئے۔ ۵ سال گزر گئے۔ ’’ایم،بی،بی،ایس‘‘ مکمل ہوگیا۔ اسی دوران مجھے میری کلاس میٹ سے محبت ہوگئی۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن جب والدین سے ذکر کیا تو وہ راضی نہیں ہوئے۔ میں نے اپنی محبوبہ علینہ سے چھ ماہ کا وقت مانگا۔ اس سے وعدہ کیا کہ والدین کو راضی کرلوں گا،مگر….گزرتے دنوں کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ گھر میں میری عزت ختم ہوچکی ہے۔ابا مجھ سے پیار نہیں کرتے تھے۔اماں بھی خیریت دریافت کرنا چھوڑ چکی تھیں ۔وہ مجھ سے ناراض تھے۔ہمارے درمیان غیر محسوس طریقے سے دوریاں بڑھتی گئیں تھیں۔
میں علینہ سے شادی کرنا چاہتا تھا، تھا وہ راضی نہیں تھے۔میں ہسپتال تعمیر چاہتا تھا، وہ معاشی مدد کے لیے تیار نہیں تھے۔ خفگی اتنی بڑھی کہ میرے دل میں ان کے لیے نفرت پیدا ہوگئی۔‘‘
وہ رکا….سانسیں یکجا کیں….سلسلہ بحال کیا۔
’’اور دوسری طرف میرے بھائی کو عزت، محبت سب کچھ میسر تھا۔ وہ جج بننے کا خواب سجائے ’’ایل،ایل،بی‘‘ کررہا تھا۔اگر ابو چاہتے تو فیاض سے بھی پروفیسر بننے کی خواہش ظاہر کرسکتے تھے،لیکن….نہیں،وہ دو نظر کرتے تھے۔ایک بیٹا لاڈلا اور جان سے پیارا تو دوسرے بیٹے کی خوشیاں ہرگز نہیں گوارا۔
مجھے اپنے بھائی سے حسد ہونے لگا….مجھ میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگا۔مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ میرا باپ جائیداد سے بے دخل کردے گا۔مجھے دولت کی ہوس ہوئی،میں لالچ کا شکار ہوا اور ایک رات دال میں ۵۰ نیند کی گولیاں ملا کر انہیں ابدی نیند سلادیا۔
’’میں علینہ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔جائیداد میں حصہ چاہتا تھا،جو ان کے جیتے جی ممکن نہ تھا۔ میں نے انہیں مار دیا فاروق!میں نے انہیں مار دیا۔‘‘اس کی ہچکی بندھ گئی۔
’’پھر تم پکڑے کیسے گئے ؟‘‘ فاروق کا چہرہ کسی بھی احساس سے عاری تھا۔ گویا اس پر رومی کے جرم کا کوئی اثر نہ ہوا۔
’’پڑوسیوں کے اطلاع دینے پر پولیس نے جب تحقیق کی، تو میں پکڑا گیا اور اعتراف کر لیا کہ میں نے جرم کیا ہے۔‘‘
’’میں سب کچھ کھو چکا۔علینہ،جائیداد، ریپوٹیشن،ماں باپ اور بھائی۔ مجھے یہ رہائی نہیں چاہیے فاروق۔ میں زندہ رہ کر کیا کروں گا۔‘‘
’’رومی! کیا تم میری آخری خواہش پوری کروگے ؟‘‘
’’اے میرے زنداں کے ساتھی ! اگرچہ میں مومن نہیں، لیکن تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری آخری خواہش کی تکمیل میں اپنی آخری سانسیں بھی قربان کردوں گا ۔‘‘
’’مجھ سے وعدہ کرو رومی کہ مجھے پھانسی کی سزا ہونے کے بعد تم میری معصوم بیوی سے شادی کر لوگے۔دیکھو میرے پاس جائیداد کی کمی نہیں، تم اگر نہ بھی کماؤ تو زندگی آرام سے گزر جائے گی۔ میں عارفہ کو بھی تیار کرلوں گا کہ میرے مرنے کے بعد وہ تم سے شادی کر لے۔‘‘
’’لیکن….وہ متحیر ہوا۔‘‘یہ کیسی خواہش ہے فاروق؟ تم مجھ پر اتنا اعتماد کیسے کر سکتے ہو کہ اپنی بیوی کو میرے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک کردو۔‘‘
’’میں مجرم ہوں،فاروق! میں قاتل ہوں، معصوم نہیں ہوں میں۔میری رگوں میں سرخ لہو نہیں، سفید رنگ بہہ رہا تھا….رومی نے بے وجہ سزا نہیں کاٹی۔رومی کو پھانسی ہونی چاہیے پھانسی۔‘‘ وہ سر کے بالوں کو زور زور سے کھینچ رہا تھا اور جنونی انداز میں بولے جارہا تھا۔
’’فاروق نے چھ مہینوں میں پہلی بار رومی کا یہ پاگل پن دیکھا ۔گویا اپنی رہائی کی خبر سن کر وہ حواس کھو چکا تھا۔
’’سنبھالو خود کو رومی! تمہاری طبیعت ناساز ہے شاید….‘‘ اس نے گھڑے سے پانی نکالا اور گلاس پیش کیا۔
پانی پینے کے بعد دس،پندرہ منٹ تک کمرے میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ بالآخر فاروق نے سکوت توڑا۔
’’تم کل آزاد ہونے کے بعد مہینے کے آخر میں عارفہ سے شادی کروگے رومی! تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تم اپنی آخری سانسیں قربان کروگے ۔میں تمہاری سانسیں نہیں مانگ رہا ،میں اپنی عارفہ کی سانسیں مانگ رہا ہوں۔وہ تنہا ہے، بہت معصوم ہے، دنیا داری نہیں جانتی، میں اپنے ابا کی کروڑوں کی وارثت کا اکیلا وارث تھا۔دولت کے نشے نے مجھے مجرم بنادیا ۔ میں اس کے قابل نہیں تھا۔میں اس کی طرح معصوم نہیں ہوں۔میں ۵۵ افراد کا قاتل ہوں اور بدقسمتی دیکھو کہ پشیمانی بھی نہیں۔
’’رومی!میں تمہارے مقابلے میں کہیں پر نہیں ہوں۔تم شرمندہ ہو، تمہیں پچھتاوا ہے،تم اپنے کیے پر افسوس کرتے ہو اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ہر شخص رومی نہیں بن سکتا۔ کم از کم فاروق تو رومی نہیں بن سکتا۔‘‘
’’کیا تم میری آخری خواہش پوری کروگے ؟ کیا تم میری بیوی کو تحفظ دے کر احسان کروگے مجھ پر ؟ ایسا احسان کہ جس کا بدلہ چکانا میرے بس میں نہیں۔‘‘فاروق، رومی سے پوچھ رہا تھا۔
’’میری حقیقت جاننے کے باوجود بھی تم چاہتے ہو میں یہ شادی کروں؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’ہاں ! میں چاہتا ہوں کہ ’’نادم رومی‘‘ میری بھولی بھالی بیوی کو اپنی امان میں لے لے ۔‘‘ فاروق کا لہجہ التجائیہ تھا۔
’’وعدے کی تکمیل ہوگی میرے دوست!‘‘ رومی نے مجبور لہجے میں اس کو یقین دلایا اور چادر سے پورے بدن کو ڈھانپ لیا۔ چند منٹوں بعد رومی کے ہلکے ہلکے خراٹے کی آواز آنے لگی۔
اب نیند فاروق کی آنکھوں سے اوجھل تھی۔نیند آنکھوں میں اسی وقت داخل ہوتی ہے، جب آنکھیں اس کی شدت سے منتظر ہوتی ہیں۔ تاریکی میں گھورتی آنکھوں میں نیند کبھی نہیں آتی۔سوچتی آنکھوں میں نیند داخل نہیں ہوتی….اور فاروق سوچ رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ:
’’رومی نے نفرت اور لالچ کے جذبے میں قتل ضرور کیا لیکن….تہاڑ جیل کی تاریخ میں وہ پہلا مجرم ہے، جو سزا کاٹ کر ،موت کے قریب آکر دوبارہ زندگی کہ آغوش میں جارہا ہے۔ یہ انعامِ خداوندی ہے۔ وہ آزادی کا خواہش مند نہیں تھا۔ وہ خدا سے بس اپنے جرم کی بخشش چاہتا تھا۔‘‘
فاروق نے کروٹ لی اور رخ رومی کی جانب کیا۔
’’ اس نے تمہیں بخش دیا رومی!تمہاری ندامت ،تمہاری توبہ کو قبول کیا اور تمہیں تاریخی رہائی سے نوازا۔جس شخص پر رب مہربان ہو، میں اپنی بیوی اس پر قربان کیوں نہ کروں۔مجھے یقین ہے تم اس کے لیے بہترین ہمسفر ثابت ہوگے۔‘‘
فاروق کی خوشی قابلِ دید تھی۔ اسے اپنی پھانسی کا ذرا غم نہ تھااور اب نہ ہی بیوی کی فکر۔
سیاہ رات اپنی تاریکی سمیٹ کر رخصت ہورہی تھی۔ اور’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صدا فضا میں مؤذن کی دل نشیں آواز گونجنے لگی۔

’’میں مجرم ہوں،فاروق! میں قاتل ہوں، معصوم نہیں ہوں میں۔میری رگوں میں سرخ لہو نہیں، سفید رنگ بہہ رہا تھا….رومی نے بے وجہ سزا نہیں کاٹی۔رومی کو پھانسی ہونی چاہیے پھانسی۔‘‘
وہ سر کے بالوں کو زور زور سے کھینچ رہا تھا اور جنونی انداز میں بولے جارہا تھا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ٢٠٢٢